You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
یوم بدر غلبہ دین حق اور ابطال باطل کا دن
تحریر :۔ محمد احمد ترازی
قانون فطرت ہے کہ جس چیز کو جتنا دبایا جاتا ہے وہ اتنا ہی ابھر کر سامنے آتی ہے،یعنی عمل جتنا شدید ہوتا ہے،ردعمل بھی اتنا ہی شدید واقع ہوتا ہے،یہ ایک بھی طے شدہ اصول ہے کہ ہرعمل اپنے اندرچنداسباب و محرکات رکھتا ہے،جو اپنے ظاہری اور خفیہ پہلووں پر محیط ہوتے ہیں،جنگ ہی کو لیجئے اِس کے کچھ اسباب فوری نوعیت کے ہوتے ہیں اور کچھ کا دورانیہ ایک طویل عرصے پر محیط ہوتا ہے،فوری وجہ تو صرف بہانہ بنتی ہے،لیکن اُس کے پس پردہ بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں،غزوہ بدر بھی کسی فوری اور اضطراری سوچ کا نتیجہ نہیں تھا،بلکہ حق و باطل کے اِس معرکے کی وجوہات پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے ہجرت مدینہ تک اَن گنت واقعات کے دامن میں پھیلی ہوئی ہیں،اگرچہ چند ایک واقعات کو اِس معرکہ کی فوری وجوہات میں شمار کیا جاسکتا ہے لیکن درحقیقت یہ تصادم تو اُسی روز ناگزیر ہوگیا تھا،جس دن پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر و شرک کے ظاغوتی ماحول میں اعلائے کلمة الحق کا پرچم بلند کیا تھا،جس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کو پتھر کے جھوٹے خداؤں کی پرستش ترک کرکے خداوحدہ لاشریک کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کی دعوت دی تھی،فاران کی چوٹیوں سے آفتاب ہدایت کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی کفر کے اندھیروں نے اپنی بقاءکی جنگ کیلئے صف بندی کا آغاز کردیا تھا،اسلام اور پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشوں اور شرانگیزیوں کا سلسلہ اصل میں غزوہ بدر کا دیباچہ تھا،ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمان منظم ہونے سے اُن کی مظلومیت کا دور ختم ہوچکا تھا،چنانچہ کفار مکہ کو یہ خدشہ کہ ”اگر مسلمان ایک منظم قوت بن کر ابھرے تو صرف اُن کا باطل اقتدار ہی نہیں بلکہ اُن کا صدیوں کا قائم باطل نظام بھی خطرے میں پڑجائے گا۔“حقیقت میں تبدیل ہونے لگا تھا۔
وہ جس قوت کو کمزور اور ختم کرنا چاہتے تھے،وہ قوت مدینہ منورہ میں بڑی تیزی سے عوامی پزیرائی حاصل کررہی تھی،کفار مکہ نے مسلمانوں کو مٹانے کیلے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے،قدم قد م پر جبر و تشدد کا نشانا بنایا،اُن پر زمین کی وسعتیں تنگ کر دی گئیں، لیکن مسافرانِ راہ حق جادہ حق پر رواں دواں ہی رہے،نہ انکے ارادے متزلزل ہوئے اورنہ ہی اُن کے پائے استقلال میں لغزش آئی ،زباں پر احد احدکا نغمہ ہی گونجتا رہا،ہجرت ِمدینہ کے بعد تو کفار کی اسلام دشمنی،نفرت اور انتقام کی خواہشیں تمام حدوں سے تجاوز کرگئی،کفر کے علمبرداروں کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ اپنے صدیوں سے قائم باطل نظام کو بچانے کیلئے کچھ بھی کر گزریں گے اور اِس دشمنی میں وہ تمام اصول وضابطوں کو روند کر درندگی کی آخری حدوں کو بھی پھلانگنے سے گریز نہیں کریں گے ۔
اِدھر پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے باطل ارادوں سے پوری طرح واقف تھے،آپ نے مہاجرین اور انصارِمدینہ کو جمع فرمایا اور ان سے ارشاد فرمایا کہ ”ایک طرف تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف کفار کا لشکر ،اللہ کا وعدہ ہے کہ اِن دونوں میں سے کوئی ایک تمہیں مل جائے “حضرت مقدار بن عمرورضی اللہ عنہ اٹھ کر کہتے ہیں یا رسول اللہ جدھر آپ کا ربّ آپ کو حکم دے رھا ہے،اُس طرف چلیئے،ہم آپ کے ساتھ ہیں،بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا کہ آپ اور آپ کا رب جائیں اور اُن سے جنگ کریں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں،.... اُس ذات پاک کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر آپ ہمیں برک الغماد تک بھی لے چلیں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی معیت میں دشمن کے ساتھ جنگ کرتے جائیں گے۔“انصار میں سے حضرت سعد بن معا ز رضی اللہ عنہ نے نعرہ حق بلند کرتے ہوئے کہا ”یا رسول اللہ اگر آپ ہمیں سمندر میں گرنے کاحکم دیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ سمندر میں چھلانگ لگادیں گے اور ہم میں سے ایک بھی شخص پیچھے نہ رہے گا۔“
اب وقت آگیا تھا کہ کفار مکہ کی بڑھتی ہوئی خود سری،سرکشی اور رعونت کا جواب بے نیام شمشیروں سے دیا جائے اور اُن کے جنگی جنون کو میدان جہاد میں ہی ٹھنڈا کیا جائے،چنانچہ خود پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام صحابہ کرام اعلائے کلمة الحق کی بلندی اور باطل کی سرکوبی کیلئے اذن جہاد کے منتظر تھے،پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم اِس اَمر سے بخوبی آگاہ تھے کہ راہ انقلاب میں سربکف چلنے والے قافلے ہتھیلیوں پر اپنے سروں کے چراغ جلاکر ہی منزل انقلاب سے ہمکنار ہوتے ہیں،خلعت شہادت زیب تن کئے بغیر نہ تو کلمہ حق کی بلندی کا فریضہ سرانجام دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی باطل استحصالی قوتوں کے مکمل خاتمے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
ابتدائے آدم سے لے کر موجودہ دور تک یہی قانون فطرت رہا ہے کہ زندہ قومیں اپنے نظریاتی تشخص کے تحفظ اور اپنی جغرافیائی سرحدوں کی بقاءکا عہد نامہ اپنے خون سے تحریر کرتی ہیں،دنیا میں تبدیلی لانے کیلئے انقلابی قوتیں معجزوں کا نتظار نہیں کرتیں ،بلکہ معجزے اور تائید ایزدی ہر لمحے اُن کی مدد و نصرت کیلئے موجود ہوتی ہیں،صرف باطل کی آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر منشائے ایزدی پر عمل کرنا ہوتا ہے،پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نئی حکمت عملی کے تحت باطل پرکاری ضرب لگانے کیلئے فیصلہ کن مرحلے کے منتظر تھے کہ رب تعالیٰ کی طرف سے حکم ملتا ہے،”اجازت دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے صرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔“(سورہ الحج 40-39
سترہ رمضان المبارک دو ہجری کی پر نور ساعتوں میں مجاہدین اسلام اپنے عظیم قائد امام المجاہدین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں توحید کا پرچم لہراتے ہوئے میدان بدر میں صف آراءہوتے ہیں،جہاں حق باطل کا پہلا معرکہ گرم ہونے والا ہے،جہاں اِس عقدہ کی گرہ کشائی ہونے والی ہے کہ جینے کا حق کس کو حاصل ہے اور موت کس کا مقدر ہے،جہاں اِس دعوئے کی تصدیق ہونے والی ہے کہ فدا کاری کے میدان میں کون کون جانوں کا نذرانہ پیش کرتا ہے اور کون موت سے ہم آغوش ہونے سے جی چراتا ہے اور جہاں اِس حقیقت کا بھی انکشاف ہونے والا ہے کہ باطل کو زیروزبر کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر نثار ہونے والے جریدہ عالم پر اپنا نقش دوام کس طرح ثبت کرتے ہیں،بدر کی فضا الجہاد الجہاد کے نعروں سے معمور ہے،چشم فلک حیران و ششدر ،جاں نثاران مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمتاتے ہوئے چہروں اور چمکتی ہوئی آنکھوں میں اسلام کا روشن مستقبل دیکھ رہی ہے،داستان حریت کا ایک نیا باب رقم ہورہا ہے اور بے سروسامانی کے عالم میں دنیا وآخرت میں سروخروئی کا سامان فراہم کیا جارہا ہے،آج بدر کا میدان جنگ اُن کے دعوائے ایمان کا پہلا مظہر ہے ۔
تاریخ عالم یہ منظر حیرت سے دیکھ رہی ہے کہ ایک طرف کفار مکہ کا ایک ہزار کا لشکر جرارتو دوسری طرف تین سو تیرہ فداکار دوجہاں ،رسول انس و جاں صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں باطل سے نبرد آزما ہونے کیلئے نشہ شہادت سے سرشار،ایک طرف ہتھیاروں کی فراوانی دوسری طرف تن عریانی،ایک طرف سامان حرب پر بھروسہ،دوسری جانب ربّ کریم پر تکیہ،آج اُن کی سخت آزمائش اور امتحان کا وقت ہے کیونکہ سامان حرب اور افرادی قوت سے قطع نظر اُن کے مقابلے پر اُن کے قریبی اعزاء واقرباءہیں،باپ کے مقابلے پر بیٹا،بھائی کے مقابلے پر بھائی،مگر اسلام کی عظمت و سربلندی اور خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت آج تمام رشتوں سے بالاتر ہے،بدر کامیدان بتارہا ہے کہ کمند اسلام سے رشتہ جوڑنے والوں کو سب غیر اسلامی رشتے توڑنے پڑتے ہیں،اسلام کی راہ میں اگر خونی رشتے بھی حائل ہوں تو اُن کے حلقوم پر چھری چلانا پڑتی ہے،باپ کو بیٹے سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے ،بھائی بھائی کا گلا کاٹتا ہے۔
ہوئی حائل نہ راہ حق میں ندی شیر مادر کی
کہ بڑھ کر کاٹ لی گردن برادر نے برادر کی
مجاہدین اسلام تاریخ میں اپنے رخ کو متعین کرنے کیلئے بے قرار ہیں،انہوں نے تمام دنیاوی عیش و عشرت اور لذتوں سے منہ موڑ لیاہے اور اب وہ خدا اور اُس رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ جوڑ کر دونوں جہاں میں کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہتے ہیں،پیغمبر نقلاب صلی اللہ علیہ وسلم رب کریم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں،ردائے مبارک بار بار شانوں سے سرک جاتی ہے، فضائے بدر لب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے نکلی ہوئی دعا سے معمور ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں”اے اللہ تو اپنا وعدہ پورا فرما،خدایا یہ سامان غرور کے ساتھ آئے ہوئے قریش تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتے ہیں،اے خدا اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔“بارگاہ ایزدی میں گریہ وازاری کی یہ کیفیت دیکھ کر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ کے سچے رسول ہیں،اللہ ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا اور فتح مسلمانوں کو نصیب ہوگی ۔
نماز فجر کے بعد پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم جاں نثاران مصطفی کی صف بندی فرماتے ہیں،آپ صفوں کو آراستہ کرتے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سرداران قریش کی موت کی پیشین گوئی کرتے جاتے ہیں،ارشاد مبارک ہورہا ہوتا ہے،ابوجہل یہاں مارا جائے گا،عتبہ یہاں قتل ہوگا،اُمیہ یہاں خاک نشین ہوگا،دنیا دیکھتی ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد سرداران قریش ٹھیک اُن ہی مقامات پر ڈھیر تھے جن کی پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے نشاندہی فرمائی تھی،قلت تائید ایزدی سے کثرت پر غالب آتی ہے،باطل شکست کھاکر الٹے پاوں بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور غازیان اسلام کو فتح مبین حاصل ہوتی ہے،معرکہ بدر اسلام کیلئے نقطہ عروج ثابت ہوتاہے اور اِس معرکے کے مذہبی اور ملکی حالات پر دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں،دیکھاجائے تو بعثت نبوی کے بعد حقیقاً یہ اسلام کی ترویج و اشاعت اور سربلندی کی جانب پہلا قدم تھا،جس نے کفر کی قوت کو ختم اور اُن کے باطل زعم کو حرف غلط کی طرح مٹادیا تھا،نصرت خداوندی نے مٹھی بھر مسلمانوں کو فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا اور مجاہدین اسلام نے ثابت کردیا کہ راہ حق میں اعداد و شمار اور عددی برتری کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔
اِس غزوے کے بعد مسلمان ایک قوت قاہرہ بن کر ابھرے اور گردش ایام کے پسے ہوئے آزادی وحریت کے گیت گاتے اٹھے اور ابرکرم بن کر دنیا پر سایہ فگن ہوگئے،اِس غزوے نے مسلمانوں کی بہادری و جرات کی دھاک سارے عرب پر بیٹھادی،اِس معرکے نے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا،بتان شعوب کی گردن کاٹی گئی،غرور ،حسب و نسب کو خاک میں ملادیا گیااور اِس غزوے کے بعد نصف صدی کے اندر اندر مسلمانوں نے ساری دنیا کا نقشہ بدل کر رکھدیا،اونٹوں اور بکریوں کے چرواہے اورصحراوں کے بدوں نے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں قیصر و کسریٰ کی قباوں کو چاک کر ڈالا اور انہوں نے ثابت کردیا کہ دنیا کے بڑے سے بڑی طاقت انہیں جادہ حق سے ہٹا نہیں سکتی،کیونکہ وہ فتح و شکست سے بے نیاز ہوکر صرف رضائے الہٰی کے حصول کیلئے لڑتے ہیں ۔
یوم بدر غلبہ دین حق اور ابطال باطل کا دن ہے،اِس دن کفر کے مقدر میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ذلت آمیز شکست لکھ دی گئی اور اِس دن مطلع انسانیت پر ایک ایسی روشن صبح طلوع ہوئی جس سے کفر کے ایوانوں پر قیامت تک کیلئے لرزہ طاری ہوگیا،معرکہ بدر اسلام سے تجدید عہد وفا کا دن ہے،یہ دن اِس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ رزم حق و باطل میں میدان جنگ میں نکلنا اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ملانا نہایت ضروری ہے،صحابہ کرام جہاد کی تمنا میں جیتے تھے اور شہادت کے آرزو مند رہا کرتے تھے،اُن کے پیش نظر ہمیشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہوا کرتا تھا”جس(شخص کے)دل میں جہاد کی آرزو نہیں وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“”میری اُمت میں جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔“آج اُمت مسلمہ ذلت و رسوائی اور محکومی و غلامی کے گڑھے میں گری ہوئی ہے،جس کی اصل وجہ اپنے ماضی سے قطع تعلق اور دوری ہے،اُمت مسلمہ کو دوبارہ بام ثریا تک پہنچانے کیلئے اور وقت کی یزیدی قوتوں کے خاتمے کیلئے فضائے بدر کا پیدا کیا جانا بہت ضروری ہے،آج ایک بار پھر ہمیں اُسوہ مجاہدین بدر کو حرز جاں بناکر غلبہ دین حق کیلئے میدان جہاد کی جانب چلنے کی تیاری کرنا ہوگی کیونکہ یہی اسلام کے روشن مستقبل اور وقت کی ابوجہلی قوتوں کے خاتمے کا واحد راستہ ہے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.