You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
وہ جنگ جو آج بھی جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔
یہ صلیب اور اسلام کی جنگ ہے۔ ۔ ۔ ۔
تحریر :۔محمد احمد ترازی
-------------------
ہم آپ کو 1169ءکی کہانی سنارہے ہیں۔۔۔۔۔یہ وہ وقت تھا جب عیسائی بادشاہ آگسٹس سلطان نور الدین زنگی کے ہاتھوں ذلت ناک شکست کھاکر تمام مفتوحہ علاقے واپس کر چکا تھا۔۔۔۔۔اُس نے نور الدین زنگی کو تاوان بھی دیا اور جنگ نہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کرکے جزیہ بھی ادا کیا۔۔۔۔۔لیکن اِس شکست کے بعد اُس نے کرک کے قلعے میں اسلام کی بیخ کنی کے منصوبے بنانے شروع کردیئے۔۔۔۔۔اُس کے اسلام دشمن خبطی رویئے اور خفیہ چالوں کی وجہ سے اُس کے بعض حواری صلیبی حکمران اور جرنیل اُسے شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔۔۔۔۔یہی وجہ تھی کہ اُس کے اپنے ساتھیوں نے اُس پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ اندر سے مسلمانوں کا دوست ہے اور اُن کے ساتھ سودے بازی کررہا ہے۔
یورپی مورخ اندرے آزون لکھتا ہے کہ
ایسے ہی ایک موقع پر آگسٹس نے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا
”ایک مسلمان حکمران کو پھانسنے کیلئے میں اپنی کنواری بیٹیوں کو بھی اُس کے حوالے کرنے سے گریز نہیں کروں گا۔۔۔۔۔تم مسلمانوں کے ساتھ صلح نامے اور دوستی کے معاہدے کرنے سے گھبراتے ہو کیونکہ اُس میں تم اپنی توہین کا پہلو دیکھتے ہو۔۔۔۔۔لیکن تم یہ نہیں سوچتے کہ مسلمان کو میدان جنگ کی نسبت صلح کے میدان میں مارنا زیادہ آسان ہے۔۔۔۔۔میرا نظریہ یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر اُن کے آگے ہتھیار ڈال کر صلح نامہ کرو،معاہدہ کرو اور گھر آکر معاہدے اور صلح نامے کے الٹ عمل کرو۔۔۔۔۔کیا میں ایسا نہیں کررہا؟کیا تم نہیں جانتے کہ میرے خون کے رشتے کی دو لڑکیاں دمشق کے شیخ کے حرم میں ہیں۔۔۔۔۔کیا اُس شیخ سے تم لڑے بغیر بہت سارا علاقہ نہیں لے چکے؟
وہ مجھے اپنا دوست سمجھتا ہے اور میں اُس کا جانی دشمن ہوں،میں ہر ایک غیر مسلم سے کہوں گا کہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کرو اور انہیں دھوکہ دے کر مارو۔“
مورخین نے یہاں تک لکھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بعض صلیبی حکمرانوں نے میدان جنگ کو اہمیت دینا چھوڑ دی اور وہ اِس نظریئے کے قائل ہوگئے کہ جنگ اِس طریقے سے لڑو کہ مسلمانوں کی جنگی طاقت زائل ہوتی رہے۔۔۔۔۔اُن کے نزدیک عقلمندی کا تقاضہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر زور دار حملہ کرو۔۔۔۔۔اُن کے دلوں میں ایسے وہم پیدا کردو جو مسلمان قوم اور فوج کے درمیان بد اعتمادی ،نفرت اور حقارت کو جنم دیں۔۔۔۔۔فلپس آگسٹس اِس مکتبہ فکر کے مفکروں میں سر فہرست تھا۔۔۔۔۔جو اسلام دشمنی کو اپنے مذہب کا بنیادی اصول سمجھتا تھا اور کہا کرتا تھا ہماری جنگ صلاح الدین ایوبی اور نور الدین زنگی سے نہیں۔۔۔۔۔یہ صلیب اور اسلام کی جنگ ہے جو ہماری زندگی میں نہیں تو کسی نہ کسی وقت ضرور کامیاب ہوگی۔۔۔۔۔بس اِس کیلئے ضروری ہے مسلمانوں کی اٹھتی ہوئی نسل کے ذہن میں مذہب کے بجائے جنسیت بھردو اور انہیں ذہنی عیاشی میں مبتلا کردو۔
ہمیں تاریخ کا وہ منظر بھی یاد آرہا ہے ۔۔۔۔۔جب جولائی 1187ءکو حطین کے میدان میں سات صلیبی حکمرانوں کی متحدہ فوج کو جو مکہ اور مدینے پر قبضہ کرنے آئی تھی۔۔۔۔۔ایوبی سپاہ نے عبرتناک شکست دے کر مکہ اور مدینہ کی جانب بری نظر سے دیکھنے کا انتقام لے لیا تھا اور اب وہ حطین سے پچیس میل دور عکرہ پر حملہ آور تھا۔۔۔۔۔ سلطان نے یہ فیصلہ اِس لیے کیا تھا کہ عکرہ صلیبیوں کا مکہ تھا،سلطان اُسے تہہ تیغ کرکے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا انتقام لینا چاہتا تھا،دوسرے بیت المقدس سے پہلے سلطان عکرہ پر اِس لیے بھی قبضہ چاہتا تھا کہ صلیبیوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے اور وہ جلد ہتھیار ڈال دیں۔۔۔۔۔چنانچہ اُس نے مضبوط دفاع کے باوجود عکرہ پر حملہ کردیا اور 8جولائی 1187ءکو عکرہ ایوبی افواج کے قبضے میں تھا۔۔۔۔۔اِس معرکے میں صلیبی انٹلیجنس کا سربراہ ہرمن بھی گرفتار ہوا، جسے فرار ہوتے ہوئے ایک کماندار نے گرفتار کیا تھا۔۔۔۔۔گرفتاری کے وقت ہرمن نے کمانڈر کو خوبصورت لڑکیوں اور بہت سے سونا دے کر فرار کرانےکی پیش کش کی تھی۔۔۔۔۔مگر کمانڈر نے اُسے رد کر دیا۔۔۔۔۔ہرمن کو جب سلطان صلاح الدین ابوبی کے سامنے پیش کیا گیاتو اُس نے گرفتار کرنے والے کمانڈر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سلطان سے کہا
”سلطان معظم !اگر آپ کے تمام کمانڈر اِس کردار کے ہیں جو مجھے پکڑ کر لایا ہے تو میں آپ کو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ کو بڑی سے بڑی فوج بھی یہاں سے نہیں نکال سکتی۔۔۔۔۔اُس نے کہا،میری نظر انسانی فطرت کی کمزوریوں پر رہتی ہے،میں نے آپ کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کیا۔۔۔۔۔میرا ماننا ہے کہ جب یہ کمزوریاں کسی جرنیل میں پیدا ہو جاتی ہیں یا پیدا کردی جاتی ہیں تو شکست اُس کے ماتھے پر لکھ دی جاتی ہے ۔۔۔۔۔ میں نے آپ کے یہاں جتنے بھی غدار پیدا کیے، اُن میں سب سے پہلے یہی کمزوریاں پیدا کیں، حکومت کرنے کا نشہ انسانوں کو لے ڈوبتا ہے۔۔۔۔۔سلطان معظم!آپ کے جاسوسی کا نظام نہایت ہی کارگر ہے ،آپ صحیح وقت اور صحیح مقام پر ضرب لگاتے ہیں۔۔۔۔۔مگر میں آپ کو یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ یہ صرف آپ کی زندگی تک ہے،ہم نے آپ کے یہاں جو بیج بودیا ہے ،وہ ضائع نہیں ہوگا۔۔۔۔۔آپ چونکہ ایمان والے ہیں اِس لیے آپ نے بے دین عناصر کو دبا لیا۔۔۔۔۔لیکن ہم نے آپ کے امراءکے دلوں میں حکومت،دولت ،لذت اور عورت کا نشہ بھردیا ہے۔۔۔۔۔آپ کے جانشین اِس نشے کو اتار نہیں سکیں گے اور میرے جانشین اِس نشے کو تیز کرتے رہیں گے۔
سلطان معظم ! یہ جنگ جو ہم لڑرہے ہیں ،یہ میری اور آپ کی ،یا ہمارے بادشاہوں کی اور آپ کی جنگ نہیں،یہ کلیسا اور کعبہ کی جنگ ہے،جو ہمارے مرنے کے بعد بھی جاری رہے گی،اب ہم میدان جنگ میں نہیں لڑیں گے،ہم کوئی ملک فتح نہیں کریں گے،ہم مسلمانوں کے دل و دماغ کو فتح کریں گے،ہم مسلمانوں کے مذہبی عقائد کامحاصرہ کریں گے،ہماری لڑکیاں،ہماری دولت،ہماری تہذیب کی کشش جسے آپ بے حیائی کہتے ہیں،اسلام کی دیواروں میں شگاف ڈالے گی،پھر مسلمان اپنی تہذیب سے نفرت اور یورپ کے طور طریقوں سے محبت کریں گے،سلطان معظم! وہ وقت آپ نہیں دیکھیں گے ،میں نہیں دیکھوں گا ،ہماری روحیں دیکھیں گی۔“
سلطان صلاح الدین ایوبی،جرمن نژاد ہرمن کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا،ہرمن کہہ رہا تھا،”سلطان معظم !آپ کو معلوم ہے کہ ہم نے عرب کو کیوں میدان جنگ بنایا ؟ صرف اِس لیے کہ ساری دنیا کے مسلمان اِس خطے کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے ہیں اور یہاں مسلمانوں کا کعبہ ہے،ہم مسلمانوں کے اِس مرکز کو ختم کررہے ہیں،آپ آج بیت المقدس کو ہمارے قبضے سے چھڑالیں گے ،لیکن جب آپ دنیا سے اٹھ جائیں گے،مسجد اقصیٰ پھر ہماری عبادت گاہ بن جائے گی،میں جو پیشین گوئی کررہا ہوں ،یہ اپنی اور آپ کی قوم کی فطرت کو بڑی غور سے دیکھ کر کررہا ہوں،ہم آپ کی قوم کو ریاستوں اور ملکوں میں تقسیم کرکے انہیں ایکدوسرے کا دشمن بنادیں گے اور فلسطین کا نام و نشان نہیں رہے گا،یہودیوں نے آپ کی قوم کے لڑکوں اور لڑکیوں میں لذت پرستی کا بیج بونا شروع کردیا ہے،اِن میں سے اب کوئی نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں ہوگا۔“
قارئین محترم ! یہ تھی وہ صلیبی ذہنیت جو کل بھی ملت اسلامیہ کی جڑوں کو چاٹ رہی تھی اور آج بھی یہ دیمک ہماری اساس و بنیاد کو کھوکھلا کررہی ہے،یہ دونوں تاریخی واقعات ہمارے ماضی،حال اور آنے والے مستقبل کے بہترین عکاس اور کسی تبصرے کے محتاج نہیں ،کیونکہ اِس میں ہماری موجودہ شکست و ریخت اور ذلت و رسوائی کے تمام اسباب و عوامل کی واضح نشاندہی موجود ہے، تقریباً ساڑھے آٹھ سو سال قبل فلپس آگسٹس اور عیسائی جاسوس ہرمن نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے جن مذموم عزائم کا اظہار کیا تھا،آج ملت اسلامیہ اُس میں بری طرح گھری نظر آتی ہے،کلیسا اور کعبہ کی جنگ آج بھی جاری ہے، فرق صرف یہ ہے کہ جنگ کا لیبل اور ہتھیار بدل گئے ہیں،جس طرح کل پورا عالم کفر صلاح الدین ایوبی کے خلاف صف آراءتھا ، بالکل اُسی طرح یہ آج پاکستان اور عالم اسلام کے خلاف متحد و منظم ہیں،یہ صلیبی جنگوں کی وہ کہانی ہے جو کہ مرحلہ در مرحلہ ا ب بھی جاری ہے،صلیبی حکمران ،عسکری سالار ، سپاہی اور کلیسا کسی مرحلے پر اِس جنگ کو نہیں بھولے، مگر افسوس ہم بھول گئے اور آج اسی بھول نے ہمیں تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچادیا ہے،سچ کہا ہے کسی نے کہ بد بختی کا مقابلہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن اپنی کوتاہیوں اور غلط کاریوں کا نہیں۔
نوٹ :۔اس مضمون کی تیاری میں ''التمش کی مشہور کتاب ”داستان ایمان فروشوں کی“سے مدد لی گئی ہے
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.