You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
برصغیر پاک و ہند میں عقیدہ ختم نبوت کے مسلمہ عقیدہ کو متنازعہ بنانے اور اس کے مفہوم کو بگاڑنے کی ابتدائی کوشش انیسویں صدی کے ربع اول میں یوں کی گئی کہ انگریز کے ایماء(اشارے) پر تقویتہ الایمان نامی(بدنام زمانہ) ایک کتاب مفت تقسیم کی گئی جس میں یہ نظریہ پیش کیا گیا اگر اللہ چاہے تو ایک آن میں کروڑوں محمد پیدا کر ڈالے۔[ تقویۃ الایمان مصنفہ اسماعیل دہلوی) (معاذاللہ)
اس وقت کے علماۓ اہلسنت نے جس کے سرخیل مجاہد جنگ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ رحمۃ اور ان کی تائید میں مولانا فضل رسول عثمانی بدایونی ، مفتی صدرالدین آزردہ ، خود صاحب تقویۃ الایمان مولوی اسماعیل دہلوی کے چچا زاد بھائی مولانا مخصوص اللہ دہلوی ، شیخ المشائخ مولانا شاہ احمد سعید نقش بندی اور دیگر جید علماۓ کرام رحمہم اللہ تعالی نے اسماعیل دہلوی کا تعاقب کیا۔ اس کے رد میں عربی ، فارسی اور اردو میں کتب لکھی گئیں ، پمفلٹ اور مضامین لکھے گئے۔ جن میں علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ رحمۃ کی امتناع النظیر اور علامہ فضل رسول بدایونی کی المعتقد المنتقد(1270ھ) معروف مشہور ہیں۔ ثانی الذکر کتاب عقائد اہل سنت پر لکھی گئی کتب میں نہایت اہم ہے اور علم عقائد اور باطل فرقوں کے ردو ابدال میں کثیر مباحث کا نایاب مجموعہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
انیسویں صدی کے ربع ثالث میں اسماعیلی فکر سے متاثر کچھ علماء ہند حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے مسلمہ مقام و عظمت اور فضائل و کمالات کی تردید اور مخالفت میں مزید کھل کر سامنے آۓ ۔ جب ان کے ایک عالم احسن نانوتوی نے شاذ روایت اثر ابن عباس کی آڑ میں زمین کے ہر طبقہ اور ہر زمانہ میں سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل اور نبی مبعوث ہونے کے امکان کا کافرانہ نظریہ پیش کیا ۔ اس عقیدۂ باطلہ(گندے باطل عقیدہ) کے رد میں بدایوں،بریلی اور رام پور کے علماۓ اہلسنت نے رسائل و کتب لکھیں۔ احسن نانوتوی کے رد میں علامہ مفتی نقی علی خان (والد ماجد اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ)، علامہ فضل رسول بدایونی ، مفتی غلام دستگیر ہاشمی قصوری ، مولانا عبدالسمیع رام پوری رحمہم اللہ تعالی اور بعض دیگر علماء ہند پیش پیش تھے۔اور ان کے مقابل اسماعیلی مکتبۂ فکر سے مولوی قاسم نانوتوی ، مولوی رشید احمد گنگوہی ، خلیل احمد انبیٹوی اور مولوی احسن نانوتوی امکان نظیر سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم(یعنی حضور حیسا دوسرا بھی ہو سکتا ہے۔ معاذاللہ) میں پیش پیش تھے۔
1290ھ میں خاتم النبیین کے بنیادی عقیدہ کو متزلزل کرنے کے لیے ایک اور کتاب بنام " تحذیرالناس مصنفہ مولوی قاسم نانوتوی " شائع ہوتی ہے جس میں آیت کریمہ "وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ " کی ایسی تشریح کی گئی جس سے ناصرف مسلا"نان برصغیر پاک و ہند بلکہ حرمین شریفین اور اس وقت کے عالم اسلام میں تشویش و اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ دراصل یہی وہ متنازعہ اور فتنہ پرور کتاب(تحذیرالناس) ہے جس سے متعلق عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اس نے قادیانیت کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کتاب کی اشاعت کے 29 سال بعد مسیلمۂ ہند مرزا قادیانی نے انگریز کی ایما (اشارے) پر 1901ء میں اپنی جھوٹی نبوت کا دعوی کیا۔
اس دور کے علماء ربانیین علماء اہلسنت نے سنت صدیقی ( حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سنت کہ انہوں نے اپنے دور میں جھوٹے نبی مسیلمۂ کذاب کو واصل جہنم کیا) کے اتباع میں " گربہ کشتن روز اول" پر عمل کیا اور مرزا قادیانی 1868ء (انگریزوں کی ملازمت اختیار کرنے) سے 1902ء تک جھوٹی نبوت کے دعوی کے دوران ہر ہر مرحلہ میں (1880ء میں ملہم من اللہ، 1888ء میں مجدد امت، 1891ء میں مسیح موعود اور جھوٹے بروزی اور ظلی نبی ہونے اور 1901ء میں جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے تک) تحریری و تقریری مناظرہ اور مجادلہ کے ذریعہ اس کا بھرپور رد کیا اور مسلمانان ہند کے ایمان اور عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کا فریضہ بطریق احن(بڑے اچھے اور موئثر طریقے سے ) انجام دیا۔اس عظیم قلمی جہاد میں حصہ لینے والوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن چند علماء اعلام کے اسماء گرامی(نام مبارک) تبرکاً پیش کیے جاتے ہیں:
1. حضرت علامہ مولانا غلام دستگیر قصوری رحمۃ اللہ علیہ
2. حضرت علامہ پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ
3. امام اہلسنت امام احمد رضا خان صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
4. حجۃالاسلام علامہ مفتی حامد رضا خان صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
5. شیخ الاسلام علامہ انوار اللہ خان فاروقی صاحب حیدرآبادی رحمۃ اللہ علیہ
6. علامہ مولانا پروفیسر الیاس برنی چشتی رحمۃ اللہ علیہ
7. مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خان صاحب نوری قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
8. مولانا فقیر محمد جہلمی مالک سراج الاخبار ، جہلم رحمۃ اللہ علیہ
9. مولانا کرم الدین دبیر ایڈیٹر سراج الاخبار ، جہلم رحمۃ اللہ علیہ
10. تاج الفحول مولانا عبدالقادر بدایونی رحمۃ اللہ علیہ۔وغیرہم
---------------------
ماخوذ از: رد قادیانیت اور سنی صحافت مؤلفہ محمد ثاقب رضا قادری
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.