You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سید کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا میلاد!اولین عید اور یوم فرحت
از:وسیم احمد رضوی،نوری مشن ،مالیگاؤں
E-mail:[email protected]
فطرت کاہر ہر اصول نظامِ شریعت کی تائید و حمایت کرتا ہے۔شایدیہی وجہ ہے کہ شریعتِ اسلامی میںایامِ ماتم صرف چند دن تک محدود ہیںمگر خوشی اور جشن منانے کے لیے کوئی قیدنہیںلگائی گئی،بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان امتحان میں کام یابی پر خوشی مناتاہے،شادیوں پر عمدہ سجاوٹیں اسی ضمن میں کی جاتی ہیں،جائز مقاصد میں کام یابی پربھی مسلمان مختلف طریقوں سے اظہارِ مسرت کرتے ہیں،دعوت و ضیافت بھی جشن ہی کا حصہ ہے ۔اس کے علاوہ جشن کے اور کئی مواقع،طریقے اور انداز ہیںجن کامشاہدہ ہم آئے دن کرتے رہتے ہیں۔
اسلام کا تصورعید:قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ اُمتوں کی طرح اُمت مسلمہ میں بھی انعام و اکرام ملنے پر خوشی اور جشن کا اہتمام کیا گیا۔یومِ عاشورہ کو جن واقعات سے نسبت ہے ان میں اللہ کریم کے اپنے بندوں پر انعام و اکرام ہی کی وجہ سے عید کے طور پر منایا جاتا رہااور اسی نسبت کی بنا پر یومِ عاشورہ کی اہمیت و خصوصیت کو اُمت مسلمہمیں بھی برقرار رکھا گیا۔اسی طرح نزولِ سکینہ اور فراعنہ کے پنجۂ استبداد سے نجات کے دن کو بھی انبیاے سابقین اور ان کی اُمتوں نے یومِ عید کے طور پر منایا۔غرض کہ ذکر وتحدیثِ نعمت کا نبوی طریقہ رہا ہے کہ ان ایام کو بطورِ جشن یا عید منایا جاتا رہا ،جن کا ذکر قرآن و حدیث میں جگہ جگہ ملتا ہے۔اسلام میں صراحتاً عیدالفطر اور عیدالاضحی کو بطورِ عید یاد کیا گیا ہے،یہ ایام بھی اللہ کی نعمتوں،انعام و اکرام کے شکرانہ ہیں۔مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ’’اسلام میں صرف دو ہی عید کا تصور ہے۔عیدالفطر اور عیدالاضحی کے علاوہ کسی تیسری عید کی گنجائش نہیں۔‘‘اگر کوئی شخص اس کا دعویٰ کرے تو یہ اس کے جہلِ مرکب کی علامت ہوگی کہ وہ اپنے جہل پر بھی آگاہ نہیں۔کیوں کہ اسلام میں دو سے زاید عیدوں کا تصور ہے۔اور اسلامی تعلیمات اورتاریخ اس پر شاہد ہے، اسلاف نے بھی ان کا اہتمام کیا ہے۔
جمعہ عیدالمسلمین:اسلام میں دو عیدوں کے علاوہ بھی تیسری عید احادیث سے ثابت ہے۔دلائل ملاحظہ کریں:
(۱)حضرت عمر بن خطاب سے ایک یہودی نے کہا کہ آپ اپنی کتاب میں ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم (یہودیوں)پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنالیتے۔آپ نے اُس آیت کی بابت پوچھا تو اُس یہودی نے آیت تلاوت کی ألْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الاِسْلاَمَ دِیْناً(سورۃالمائدۃ،آیت۳)۔حضرت عمر نے فرمایا:جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے۔(بخاری ومسلم و ترمذی،کتاب التفسیر)(یعنی وہ(جمعہ کا) دن پہلے ہی سے ہمارے لیے عید کا دن ہے۔)
(۲)مذکورہ آیت مقدسہ کی تفسیر میں سیدالمفسرین حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:’’بے شک یہ آیت عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج )کے دن نازل ہوئی۔‘‘(ترمذی،کتاب تفسیر القرآن،باب من سورۃالمائدۃ)
(۳)حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بے شک یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے (بابرکت)بنایاہے۔پس جو کوئی جمعہ کی نماز کے لیے غسل کرکے آئے ،اور اگر ہوسکے تو خوش بو لگا کر آئے۔‘‘(ابن ماجہ،کتاب اقامۃالصلوٰۃ،باب فی الزینۃ یوم الجمعۃ)
(۴)مذکورہ آیتسے متعلق اس یہودی کے سوال کاجو جواب حضرت عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس نے دیا تھا اس کی اکابر ائمہ،فقہا اور محدثین نے سنن نسائی،فتح الباری،المعجم الاوسط،المعجم الکبیر،تفسیرابن کثیر،تفسیر طبری وغیرہ میںیہی تفسیر کی ہے کہ اُس آیت کے نزول کا دن پہلے ہی سے ہمارے یہاں دو عید کا مقام رکھتا ہے ایک جمعہ اور دوسری عیدالاضحی جس دن میدان عرفات میں حج کا رکن ادا کیا جاتا ہے۔ جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کی ’’تیسری عید‘‘ یومِ جمعہ ہے جو اسلامی شان و شوکت کے ساتھ ہر ہفتہ منائی جاتی ہے۔غسل کیا جاتاہے،دھلے ہوئے نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں،اچھے اچھے کھانے بنائے جاتے ہیںاورخوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
قرآن کا منفرد اسلوب:یہ بات تو عیاں ہوگئی کہ اسلام میں عیدالفطر اور عیدالاضحی کے علاوہ بھی عید کا تصور ہے۔اور جمعۃ المبارکہ کو بھی احادیث میں عید ہی کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔جمعہ کے یوم عید ہونے کی وجہ معلوم کرنے سے پہلے یہاںضرور محسوس ہوتا ہے کہ قرآن پاک کے اسلوبِ بیان اور اندازِ تربیت کی ایک مثال سمجھتے چلیں۔قرآن پاک میں اللہ پاک نے اپنے بندوں کی تربیت کے لیے کہیںکہیںاشارے کنائے اور کبھی معمولی سی مثالوں یا تنبیہ کے ذریعے بڑی بڑی اور غیر معمولی باتوں اور احکام کی تعلیم فرمائی ہے۔مثلاً اللہ کریم نے قرآن میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے سے متعلق فرمایا کہ’’ اپنے ماں باپ کو’’ اُف‘‘تک نہ کہو۔‘‘(القرآن)…اس حکمِ قرآنی کی روشنی میں مسلمان کواپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور ان کی نا فرمانی اور ایذارسانی سے بچنا چاہیے۔قرآن نے ’’اُف‘‘تک نہ کرنے کی تعلیم دے کر والدین کو مارنے،گالیاں بکنے اور بدسلوکی سے بچنے کی بھی تعلیم دے دی۔اسی طرح اللہ کریم نے قرآن مجید میں اممِ سابقہ کی عیدوں کے حالات اور وجوہات بیان کیے ہیں کہ وہ اللہ کی نعمتوں کے ملنے کے شکرانے میں عید مناتے تھے۔جس سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ اللہ کی نعمتوں کے ملنے کی خوشی میںجشن اور عید منانی چاہیے،حصولِ نعمت کے دن عید ٹھہرے ،نزولِ رزق کے دن عید ٹھہرے اور جس دن اللہ کریم نے اپنے فضل سے اپنی سب سے عظیم نعمت بلکہ جانِ نعمت،قاسمِ نعمت مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوعالمِ بشریت میں جلوہ گرکیا تو وہ دن سب سے بڑی عید’’عیدوں کی عید‘‘ کا دن ٹھہرا۔کیوں کہ عیدالفطرہویادوسری عیدالاضحی ہو یا عیدالجمعۃ ہو سب کے سب میلادُالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا صدقہ ہے۔امامِ اہلِ سنت امام احمد رضاؔقادری فرماتے ہیں:
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
جمعہ کی فضیلت کیوں؟:اب دیکھیے یومِ جمعہ کو کیا فضیلت حاصل ہے کہ اسے یوم عید کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث حضرت اَوس بن اَوس سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق(یعنی ولادت )ہوئی،اس روز ان کی روح قبض کی گئی۔‘‘(ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،باب تفریح ابواب الجمعۃ و فضل یوم الجمعۃ و لیلۃالجمعۃ)
جس دن حضرت آدم کی تخلیق ہو وہ دن یوم عید ہو اور ہر ہفتہ منایا جائے اور جس دن امام الانبیا حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت طیبہ ہو وہ دن کیوں نہ عید کا دن ہو۔بلا شبہہ یومِ ولادتِ رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی عید کا دن ہے۔اور ایسی عید جس کی صدقہ میں کائنات کو عیدیں عطا ہوئیں۔
دنوں کی اہمیت:اسلام میں مبارک و مسعود دنوں کو کافی اہمیت حاصل ہے ۔پروفیسر مسعود احمد نقش بندی لکھتے ہیں:’’جس دن اللہ کے محبوبوں کی زندگی میں کوئی اہم واقعہ پیش آتا ہے اس دن کو ’’ایام اللہ‘‘میں شمار کرلیا جاتا ہے اور جو واقعہ پیش آتا ہے اسے ’’شعائراللہ‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔‘‘(جشنِ بہاراں،ص۱۳،نوری مشن مالیگاؤں)…خود حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی مخصوص دنوں کو یاد کیا ان میں مخصوص اعمال انجام فرماکر دنوں کو مخصوص کیا۔چناںچہ حضرت ابوقتادہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیاگیا تو آپ نے فرمایا:اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا۔‘‘(مسلم شریف،کتاب الصیام)
مذکوہ حدیث میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تین ایام کوذکر کیا پہلا یومِ ولادت،دوسرا یومِ بعثت اور تیسرا یومِ ابتدائے نزول قرآن۔غور طلب بات یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نزدیک دنوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی تو آپ نے حضرت آدم کی ولادت و وفات کے دن جمعہ کو عید کیوں فرمایا؟اپنے یومِ ولادت،یومِ بعثت اور یومِ ابتدائے نزول قرآن کے دن روزہ کا اہتمام کیوں فرمایاکرتے تھے؟…یقینا آپ نے اپنی امت کو درس دیا کہ انبیا اور محبوبینِ خدا کے مخصوص ایام کو یاد کرنا چاہیے اور ان کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔مذکورہ حدیث ان لوگوں کے لیے تازیانۂ عبرت ہے جو لو گ ہر سال’’ جشن نزولِ قرآن‘‘،’’جشن دستار بندی‘‘،’’العیدالوطنی‘‘ کے نام سے سعودی ڈے اور ناجانے کیا کیااور کیسا کیسا جشن مناتے ہیں مگر جشن ولادتِ رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم،عید میلادُالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم منانے کواپنے فتوؤں کی توپ سے مجروح کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
پہلی عید:عید میلادُالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہی پہلی عید ہے۔کیوں کہ تخلیقِ آدم سے بھی پہلے نورِ محمدی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تخلیق ہوچکی تھی اور حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سرِاقدس پر تاجِ نبوت و رسالت سجا کرانہیں نبوت ورسالت کا تاج دار بنادیا گیاتھا۔چناںچہ دیوبندی مکتبِ فکر کے پیشوا مولانا اشرفعلی تھانوی صاحب اپنی کتاب ’’نشرالطیب‘‘ کے آغاز میں مُصَنَّف عبدالرزاق کی وہ حدیث جس میں حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اوّل الخلق فرمایا گیا ہے،نقل کرتے ہیں:’’اس حدیث سے نورِ محمدی کا اوّل الخلق ہونا باوّلیت حقیقیہ ثابت ہوا۔‘‘(نشرالطیب،ص۵،دارالکتاب دیوبند)پھر آگے چل کر ایک اور حدیث نقل کرتے ہیں:’’حضرت ابو ہریرہ سے ہے کہ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ!آپ کے لیے نبوت کس وقت ثابت ہوچکی تھی؟آپ نے فرمایا کہ جس وقت میںکہ آدم علیہ السلام ہنوز روح اور جسد کے درمیان میں تھے۔(یعنی ان کے تن میں جان بھی نہ آئی تھی)‘‘(ایضاً،ص۶)
مذکورہ احادیث اکابر علما و محدثین نے بھی نقل کیں اور کتبِ احادیث میں مذکور ہے مگر یہاں تھانوی صاحب کا حوالہ اس لیے دیا گیا کہ ان کے معتقد افراد کے لیے بھی سامانِ درس ہو۔بہر حال حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تخلیق اور انہیں منصبِ نبوت پر سب سے پہلے فائز کیا گیااور تمام انبیا کے آخر میں مبعوث فرماکر خاتم النبیین کا شرف بھی عطا کیا گیا۔گویانورِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نظمِ رسالت کا چمکتا ہوا مطلع ہے اور ولادتِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اسی نظمِ رسالت کا مقطعِ انوار ہے۔تو ثابت ہوتا ہے حقیقتاً پہلی عید میلادِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہی ہے بقیہ تمام خوشیاں،تمام عیدیں،تمام انعامات،تمام اکرام و الطاف اور تمام اسلامی جشن اسی بارہویں تاریخ والے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا صدقہ و عطیہ ہیں۔ ؎
تمام ہوگئی میلادِ انبیا کی خوشی
ہمیشہ اب تری باری ہے بارہویں تاریخ
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.