You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالْوَالِدَیۡنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنۡۢبِ وَابْنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَمَا مَلَکَتْ اَیۡمَانُکُمْ ؕ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوۡرَا ﴿ۙ۳۶﴾
ترجمہ کنزالايمان: اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شريک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور يتيموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گير اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہيں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا۔
(النساء:۴/۳۶)
اس آیہ کریمہ میں فرمان ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو کی تفسیر فرماتے ہوئے صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی صاحب متوفی ۱۳۶۷ھ فرماتے ہیں،
اَدب و تعظيم کے ساتھ اور ان (يعنی والدين) کی خدمت ميں مستعد رہنا اور ان پر خرچ کرنے ميں کمی نہ کرو
مسلم شريف کی حديث ہے سیّدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے تين مرتبہ فرمايا اسکی ناک خاک آلود ہو حضرت ابو ہريرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کيا کِس کی يا رسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم فرمايا: جس نے بوڑھے ماں باپ پائے يا اُن ميں سے کسی ايک کو پايا اور جنّتی نہ ہوگيا۔
حديث شريف ميں ہے رشتہ داروں کے ساتھ اچھے سلوک کرنے والوں کی عمر دراز اور رزق وسيع ہوتا ہے
(بخاری ومسلم) ۔
حديث:
سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمايا ميں اور يتيم کی سرپرستی کرنے والا ايسے قريب ہوں گے جيسے انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی
(بخاری شريف)
حديث:سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمايا بيوہ اور مسکين کی امداد وخبر گيری کرنے والا مجاہد فی سبيل اللہ کے مثل ہے۔
سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمايا کہ جبريل مجھے ہمیشہ ہمسايوں کے ساتھ احسان کرنے کی تاکيد کرتے رہے اس حد تک کہ گمان ہوتا تھا کہ انکو وارث قرار ديں
(بخاری ومسلم)۔۱؎
ايک اور مقام پر ارشاد ہے:
اِنَّ اللہَ یَاۡمُرُ بِالْعَدْلِ وَالۡاِحْسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنۡکَرِ وَ الْبَغْیِ ۚ
ترجمہ کنزالايمان: بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نيکی اور رشتہ داروں کے دينے کا اور منع فرماتا ہے بے حيائی اور بری بات اور سرکشی سے۔ (النحل:۱۶/۹۰)
آیہ کریمہ میں انصاف کی وضاحت کرتے ہوئے صدر الافاضل فرماتے ہیں،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمايا کہ انصاف تو يہ ہے کہ آدمی لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کی گواہی دے اور نيکی اَور فرائض کا ادا کرنا اور آپ ہی سے ايک روايت ہے کہ انصاف شرک کا ترک کرنا اور نيکی دوسروں کے لئے وہی پسند کرنا جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اگر وہ مومن ہو تو اُس کے برکات ايمان کی ترقی تمہيں پسند ہو اور اگر کافر ہو تو تمہيں يہ پسند آئے کہ وہ تمہارا اسلامی بھائی ہوجائے انہيں سے ايک اور روايت ہے، اس ميں ہے کہ انصاف توحيد ہے اور نيکی اخلاص اور ان تمام روايتوں کا طرز بيان اگرچہ جُدا جُدا ہے ليکن مآل و مُدعا ايک ہی ہے۔
ايک اور مقام پر ارشاد ہے:
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسْرَآءِیۡلَ لَا تَعْبُدُوۡنَ اِلَّا اللہَ ۟ وَبِالْوَالِدَیۡنِ اِحْسَانًا وَّذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنِ وَقُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسْنًا
ترجمہ کنزالايمان: اور جب ہم نے بنی اسرائيل سے عہد ليا کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور يتيموں اور مسکينوں سے اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔ (البقرۃ:۲/۸۳)
اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدين کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم ديا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدين کی خدمت بہت ضروری ہے والدين کے ساتھ بھلائی کے يہ معنی ہيں کہ ايسی کوئی بات نہ کہے اور ايسا کوئی کام نہ کرے جس سے انہيں ایذا ہو اور اپنے بدن و مال سے ان کی خدمت ميں دریغ نہ کرے جب انہيں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے
مسئلہ: اگر والدين اپنی خدمت کے لئے نوافل چھوڑنے کا حکم ديں تو چھوڑدے اُن کی خدمت نفل سے مقدّم ہے
مسئلہ: واجبات والدين کے حکم سے ترک نہيں کئے جاسکتے والدين کے ساتھ احسان کے طريقے جو احاديث سے ثابت ہيں يہ ہيں کہ تہِ دل سے ان کے ساتھ محبّت رکھے، رفتار وگفتار ميں نشست و برخاست ميں اَدب لازم جانے اُن کی شان ميں تعظيم کے لفظ کہے انکو راضی کرنے کی سعی کرتا رہے اپنے نفيس مال کو ان سے نہ بچائے اُنکے مرنے کے بعد اُن کی وصيتيں جاری کرے اُن کے لئے فاتحہ صدقات تلاوتِ قرآن سے ايصالِ ثواب کرے اللہ تعالیٰ سے اُن کی مغفرت کی دُعا کرے، ہفتہ وار انکی قبر کی زيارت کرے (فتح العزيز)
والدين کے ساتھ بھلائی کرنے ميں يہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں يا کسی بد مذہبی ميں گرفتار ہوں تو اُن کو بہ نرمی اصلاح و تقویٰ اور عقيدہ حقّہ کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے (خازن)۔
اچھی بات سے مراد نيکيوں کی ترغيب اور بديوں سے روکنا ہے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمايا کہ معنی يہ ہيں کہ سيد عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی شان ميں حق اور سچ بات کہو اگر کوئی دريافت کرے تو حضور کے کمالات و اوصاف سچائی کے ساتھ بيان کردو آپ کی خوبياں نہ چھپاؤ-
حديث شريف ميں ہے:
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللہُ عَنْھُمَا قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّيْ أُرِيد الْجِھَادَ، قَالَ: أَ حَيٌّ أَبَوَاکَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَفِيھِمَا فَجَاھِدْ .
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے، فرماتے ہيں، ايک شخص نے حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ ميں حاضر ہوکر جہاد کی اجازت چاہی، تو آپ نے فرمايا، کيا تيرے والدين زندہ ہيں؟ عرض کی، جی زندہ ہيں، فرمايا، ان کی خدمت کر یہی تیرا جہاد ہے۔
فقيہ ابو الليث سمرقندی رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ فرماتے ہيں، اس حديث ميں اس بات پر دلیل ہے کہ والدين کے ساتھ بھلائی کرنا جہاد سے افضل ہے کيونکہ اللہ عزوجل کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ عَنِ الْعُیوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس شخص کو جہاد ترک کرکے والدين کی خدمت میں مشغول ہونے کا حکم فرمايا۔ اسی طرح ہم بھی کہتے ہيں کہ جب تک والدين اجازت نہ ديں یا جب تک عام نکلنے کا حکم نہ ہو کسی شخص کے ليے یہ جائز نہیں کہ وہ جہاد کے ليے نکلے۔ (يعنی جب جہاد فرضِ عين ہو تو پھر والدين کی اجازت پر موقوف کرنا درست نہيں)
مزيد فرماتے ہيں، اگر بالفرض اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام ميں والدين کے احترام کا بيان نہ بھی فرماتا اور ان کے متعلق کوئی حکم نہ ديتا تب بھی عقلاً ان کا ادب و احترام جانا جاتا اور عقلمند پر لازم ہوتا کہ ان کی تعظيم کو جانے اور ان کے حقوق ادا کرے اور کيوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے سبھی کُتُبِ سماويہ تورات، زبور، انجيل اور فرقان ميں والدين کی حُرمت کا تذکرہ فرمايا اور تمام صحيفوں ميں ان کی تعظيم کا حکم ديا اور جملہ انبياء عليہم السلام کو اس بات کی وحی بھی فرمائی اور انہيں والدين کے احترام اور ان کے حقوق جاننے کا حکم ديا اور اپنی رضا کو ان کی رضا پر موقوف فرمايا، اور ان کی ناراضی کو اپنی ناراضی قرار ديا۔ اور کہا جاتا ہے کہ تين آيتيں تين باتوں کے ساتھ نازل ہوئی ہيں کہ اللہ تعالیٰ کسی عمل کو بغير اس سے مِلے ہوئے حکم کے قبول نہ فرمائے گا، پہلی آيت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ) ترجمہ: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو
[البقرۃ:۲/۴۳](کنزالايمان)
تو جو نماز پڑھے مگر زکوٰۃ نہ دے تو اس کی نماز بھی قبول نہ ہوگی،اور دوسری آيت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاَطِیۡعُوا اللہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ) ترجمہ: اور حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا.[المائدۃ:۵/۹۲] (کنزالايمان)، تو جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے مگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی اطاعت نہ کرے تو ايسی اِطاعت نا قابلِ قبول ہے، تيسری آيت میں فرمانِ خداوندی ہے: (اَنِ اشْکُرْ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ ؕ) الآيۃ (ترجمہ:یہ کہ حق مان ميرا اور اپنے ماں باپ کا [لقمان:۳۱/۱۴](کنزالايمان))، لہٰذا جو اللہ کی شکر گزاری تو کرے مگر والدين کی ناشکری کرے تو ايسے شخص کی شکرگزاری قبول نہيں۔
والدين کے آداب کے متعلق فرقد سبخی سے مروی ہے فرماتے ہيں، ميں نے بعض کُتب ميں پڑھا ہے کہ اولاد پر لازم ہے والدين کی موجودگی ميں ان کی اجازت کے بغير بات نہ کرے، اور نہ ان سے آگے چلے اور جب تک وہ بلائيں نہيں تو ان کے دائيں بائيں بھی نہ چلے جب بلائيں تو انہيں جواب دے مگر پیچھے پیچھے چلے جيسے غلام اپنے آقا کے پیچھے چلتا ہے۔
ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: ایک راہ میں ایسے گرم پتھر تھے کہ اگرگوشت کا ٹکڑا ان پر ڈالا جاتا تو کباب ہوجاتا، چھ میل تک اپنی ماں کو اپنی گردن پر سوار کرکے لے گیا ہوں کیا میں ماں کے حقوق سے فارغ ہو گیا ہوں؟ سرکار نامدار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تیرے پیدا ہونے میں درد کے جس قدر جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہو سکے۔
ہشام بن عروہ اپنے والد سے روايت نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے بيان کيا، کہ جو اپنے والد کو لعنت کرے وہ ملعون ہے اور جو اپنی ماں کو لعنت کرے وہ بھی ملعون ہے، جو رستے ميں رُکاوٹيں ڈالے وہ بھی ملعون ہے يا نابينا کو راہ سے بہکا دے وہ بھی ملعون ہے، جو اللہ کا نام لئے بغير جانور ذبح کردے وہ بھی ملعون ہے۔
حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ متقی وپرہیزگار صحابی تھے۔ نماز، روزہ اور صدقہ جيسی عبادات بجا لانے ميں حد درجہ کوشاں رہتے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بيمار ہوگئے اور مرض طول پکڑ گيا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ نے سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ عالی ميں پیغام بھیجا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ! ميرا شوہر علقمہ حالتِ نزع ميں ہے، ميں نے چاہا کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ان کے حال سے آگاہ کردوں۔چنانچہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرت سیدنا عمار، حضرت سیدنا بلال اور حضرت سیدنا صہيب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بھيجا اور ارشاد فرمایا: ان کے پاس جاؤ اور انہیں کلمہ شہادت کی تلقين کرو۔ لہٰذا وہ حضرات سیدنا علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے اور انہیں حالت نزع ميں پا کر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی تلقين کرنے لگے، لیکن وہ کلمہ شہادت ادا نہیں کرپارہے تھے۔ ان حضرات نے شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس صورتِ حال کہلا بھيجی، تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دریافت فرمایا: کيا ان کے والدين ميں سے کوئی زندہ ہے؟ عرض کی گئی:یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم !ان کی والدہ زندہ ہیں جوکہ بہت بوڑھی ہيں۔'' سرکار مدینہ، راحت قلب وسینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ایک قاصد کو یہ پیغام دے کر ان کی والدہ کے پاس بھیجا کہاگر آپ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہونے کی قدرت رکھتی ہیں تو چلیں ورنہ گھر ميں ہی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا انتظار کریں۔ جب قاصد نے جا کر انہیں یہ بتایا تو وہ کہنے لگیں:آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر ميری جان قربان !میں زیادہ حق دارہوں کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضرہوں۔ وہ عصا کے سہارے کھڑی ہوئیں اورحسن اخلاق کے پیکر، دو جہاں کے تاجور، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ ميں حاضر ہو ئیں اور سلام عرض کيا،سرکار مدینہ، راحت قلب وسینہ، باعث نزول سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے سلام کا جواب ديا اورارشاد فرمايا: اے امِ علقمہ! تمہارے بیٹے علقمہ کا کيا حال ہے؟ انہوں نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم! وہ بکثرت نماز پڑھنے والا، روزے رکھنے والا اور صدقہ دينے والا ہے۔ پھر سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دریافت فرمایا:اور تمہارا اپنا کيا حال ہے؟ انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم! ميں اس پر ناراض ہوں۔ تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا: کس وجہ سے؟ انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم! وہ اپنی بيوی کو مجھ پر ترجيح ديتا اور ميرے معاملے میں کوتاہی کرتا ہے۔ شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:ماں کی ناراضگی نے علقمہ کی زبان کو کلمہ شہادت سے روک دیا ہے۔ پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے بلال! جاؤ اور میرے ليے بہت ساری لکڑياں اکٹھی کرو۔ علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم! آپ ان لکڑیوں کا کيا کريں گے۔ ارشاد فرمایا:میں نے ارادہ کیا کہ ان کے ذریعے علقمہ کوآگ میں جلادوں ۔انہوں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم! ميرا دل برداشت نہيں کر سکتا کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ميرے بہٹے کو ميرے سامنے آگ ميں جلائيں۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے امِ علقمہ! اللہ عزوجل کا عذاب تو اس سے بھی سخت اورباقی رہنے والا ہے۔ اگر آپ کو يہ پسند ہے کہ اللہ عزوجل علقمہ کی مغفرت فرما دے تو آپ ان سے راضی ہوجائیں، اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت ميں ميری جان ہے ،علقمہ کو اس کی نماز، روزے اور صدقہ نفع نہ ديں گے جب تک آپ اس سے ناراض رہیں گی۔ انہوں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم! ميں اللہ عزوجل اس کے فرشتوں اور یہاں موجود مسلمانوں کو گواہ بناتی ہوں کہ ميں اپنے بہٹے علقمہ سے راضی ہوں۔
حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اے بلال!علقمہ کے پاس جاؤ اور دیکھو کہ کيا اب وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ پڑھ سکتا ہے يا نہيں؟ لہٰذا حضرت سیدنا بلا ل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشريف لے گئے اور علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گھر کے اندر سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ پڑھتے ہوئے سنا، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر میں داخل ہوئے اور فرمايا:اے لوگو! بے شک علقمہ کی زبان کو ان کی ماں کی ناراضگی نے کلمہ شہادت پڑھنے سے روک ديا تھا اور اب ماں کی رضا مندی نے ان کی زبان کوکھول ديا ہے۔ پھر حضرت سیدنا علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی دن وصال فرما گئے۔
سرکار ابد قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشريف لائے اور ان کی تجہیزوتکفین کا حکم ارشاد فرمایا۔ پھر ان کی نماز جنازہ پڑھی اورتدفین میں بھی شرکت فرمائی، پھر ان کی قبر کے کنارے کھڑے ہو ئے اور ارشاد فرمايا:اے گروہ مہاجرين و انصار! جواپنی بيوی کو اپنی ماں پر ترجیح دے اس پر اللہ عزوجل، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اللہ عزوجل اس کے نہ نفل قبول فرمائے گا نہ ہی فرض مگر يہ کہ وہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرے اور اپنی ماں سے حسن سلوک کرے اور اس کی رضا چاہے کیونکہ اللہ عزوجل کی رضا ماں کی رضا مندی ميں ہے اور اللہ عزوجل کی ناراضگی ماں کی ناراضگی ميں ہے۔
ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمايا، والدين کے لئے دعا نہ کرنا اولاد کے گزر بسر کی کج حالی کا سبب بن جاتا ہے۔ ان سے پوچھا گيا، کيا يہ ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے والدين کی وفات کے بعد بھی اُنہيں راضی کرسکے؟ فرمايا کرسکتا ہے بلکہ تين چيزوں سے، ايک يہ کہ وہ خود نيک و پرہيزگار رہے کيونکہ والدين کی سب سے بڑی خواہش يہ ہوتی ہے کہ ان کا بہٹا نيک ہو، دوسری چيز يہ کہ وہ والدين کے عزيز واقارب کے ساتھ صلہ رحمی کرتا رہے، او رتيسری چيز يہ کہ اُن کے لئے استغفار و دعائيں کرتا رہے اور ان کے لئے صدقہ وغيرہ دےکر ايصالِ ثواب کرتا رہے۔
حضرت علاء بن عبد الرحمن اپنے والدسے روايت نقل کرتے ہيں کہ حضرت ابو ہريرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کريم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمايا، جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتاہے لیکن تین عمل منقطع نہیں ہوتے،صدقہ جاریہ،علم نافع اورنیک اولاد جو اس کے ليے دعا کرتی ہے۔
ايک اور جگہ قرآن کريم ميں ارشاد ہے:
یَسْـَٔلُوۡنَکَ مَاذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلْ مَاۤ اَنۡفَقْتُمۡ مِّنْ خَیۡرٍ فَلِلْوَالِدَیۡنِ وَالۡاَقْرَبِیۡنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنِ وَابْنِ السَّبِیۡلِ ؕ الآیۃ
ترجمہ کنزالايمان: تم سے پوچھتے ہيں کيا خرچ کريں تم فرماؤ جو کچھ مال نيکی ميں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قريب کے رشتہ داروں اور يتيموں اور محتاجوں اور راہ گير کے لئے ہے۔(البقرۃ:۲/۲۱۵)
اور فرمايا:
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیۡکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالْوَالِدَیۡنِ اِحْسَانًا ۚ وَ لَا تَقْتُلُوۡۤا اَوْلَادَکُمۡ مِّنْ اِمْلَاقٍ ؕ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاہُمْ ۚالآیۃ
ترجمہ کنزالايمان: تم فرماؤ آؤ ميں تمہيں پڑھ سناؤں جو تم پر تمہارے رب نے حرام کيا يہ کہ اس کا کوئی شريک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث ہم تمہيں اور انہيں سب کو رزق دينگے۔ (الأنعام:۶/۱۵۱)
آیہ کریمہ میں ارشاد ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو کی تفسیر میں صدر الافاضل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :يونکہ تم پر ان کے بہت حقوق ہيں انہوں نے تمہاری پرورش کی تمہارے ساتھ شفقت اور مہربانی کا سلوک کيا تمہاری ہر خطرے سے نگہبانی کی اُن کے حقوق کا لحاظ نہ کرنا اور اُنکے ساتھ حسن سلوک کا ترک کرنا حرام ہے۔
مزید فرماتے ہیںاس ميں اولاد کو زندہ درگور کرنے اور مار ڈالنے کی حرمت بيان فرمائی گئی جس کا اہل جاہليت ميں دستور تھا کہ وہ اکثر ناداری کے اندیشہ سے اولاد کو ہلاک کرتے تھے انہيں بتايا گيا کہ روزی دينے والا تمہارا ان کا سب کا اللہ ہے پھر تم کيوں قتل جيسے شديد جُرم کا ارتکاب کرتے ہو
حضرت با يزيد بسطامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں کہ سخت سردی کی ايک رات میں ميری والدہ نے مجھ سے پانی مانگا، میں آبخورہ (گلاس) بھر کر لے آیامگر ماں کو نیند آگئی تھی، میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا، پانی کا آبخورہ ليے اس انتظار میں ماں کے قریب کھڑا رہا کہ بیدار ہوں تو پانی پیش کروں۔ کھڑے کھڑے کافی دیر ہو چکی تھی اور آبخورے سے کچھ پانی بہ کر گر گیا تھااور سخت سردی کی وجہ سے میری انگلی پر برف بن کر جم گیا تھا بہرحال جب والدہ محترمہ بیدار ہوئیں تو میں نے آبخورہ پیش کیا تو چونکہ انگلی پر برف جم جانے کی وجہ سے وہ چپک گیا تھا لہٰذا انگلی کی کھال ادھڑ گئی اور خون بہنے لگا، ماں نے دیکھ کر پوچھا یہ کیا ؟ میں نے سارا حال بیان کیا تو انہوں نے بارگاہ خداوندی میں دعا کے ليے ہاتھ اٹھا ديے اور عرض کیا، اے اللہ! عزوجل میں اس سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی رہنا۔
قرآن مجيد ميں ہے:
وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیۡنِ اِحْسَانًا ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنۡدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوْ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَ
ترجمہ کنزالايمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمايا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تيرے سامنے ان ميں ايک يا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائيں تو ان سے ہوں نہ کہنا اور انہيں وَقُلۡ لَّہُمَا قَوْلًاکَرِیۡمًا ﴿۲۳﴾وَ اخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۴﴾
نہ جھڑکنااور ان سے تعظيم کی بات کہنا اور ان کے لئے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے ميرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جيسا کہ ان دونوں نے مجھے چھٹپن ميں پالا۔ (بنيۤ إسرائيل:۱۷/۳۔۲۴)
مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرمان، ہوں نہ کہنا کے تحت صدر الافاضل مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں،
يعنی ايسا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالنا جس سے يہ سمجھا جائے کہ اُنکی طبیعت پر کچھ گرانی ہے۔
اور فرمان تعظیم کی بات کہنا کے تحت فرمایا، اور حسنِ اَدب کے ساتھ اُن سے خطاب کرنا
مسئلہ: ماں باپ کو ان کا نام لے کر نہ پکارے يہ خلاف اَدب ہے اور اس ميں انکی دل آزاری ہے ليکن وہ سامنے نہ ہوں تو اُنکا ذکر نام لےکر کرنا جائز ہے
مسئلہ: ماں باپ سے اس طرح کلام کرے جيسے غلام و خادم آقا سے کرتا ہے۔
فرمان عاجزی کا بازو بچھا کے تحت صدر الافاضل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، یعنی بہ نرمی و تواضع پیش آ اور اُنکے تھکے وقت (يعنی بڑھاپے اور بيماری) ميں شفقت و محبت کا برتاؤ کر کہ انہوں نے تيری مجبوری کے وقت تجھے محبت سے پرورش کيا تھا اور جو چيز انہيں درکار ہو وہ اُن پر خرچ کرنے ميں دریغ نہ کر۔
صدر الافاضل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مزید فرماتے ہیں،مدعا يہ ہے کہ دنيا ميں بہتر سلوک اور خدمت ميں کتنا بھی مبالغہ کيا جائے ليکن والدين کے احسان کا حق ادانہيں ہوتا اس لئے بندے کو چاہے کہ بارگاہِ الٰہی ميں اُن پر فضل و رحمت فرمانے کی دُعا کرے اور عرض کرے کہ يارب ميری خدمتيں اُن کے احسان کی جزاء نہيں ہوسکتيں تو اُن پر کرم کر کہ اُن کے احسان کا بدلہ ہو
مسئلہ: اس آيت سے ثابت ہوا کہ مسلمان کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا جائز اور اُسے فائدہ پہنچانے والی ہے مُردوں کو ايصالِ ثواب ميں بھی اُن کے لئے دُعائے رحمت ہوتی ہے لہٰذا اسکے لئے يہ آيت اصل ہے
مسئلہ: والدين کافر ہوں تو اُن کے لئے ہدايت و ايمان کی دُعا کرے کہ یہی اُن کے حق ميں رحمت ہے۔ حديث شريف ميں ہے والدين کی رضا ميں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُن کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے دوسری حديث ميں ہے والدين کا فرمانبردار جہنمی نہ ہوگا اور اُن کا نافرمان کچھ بھی عمل کرے گرفتارِ عذاب ہوگا ايک اور حديث ميں ہے حضور انور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم نے فرمايا والدين کی نافرمانی سے بچو اس لئے کہ جنّت کی خوشبو ہزار برس کی راہ تک آتی ہے اور نافرمان وہ خوشبو نہ پائے گا نہ قاطع رحم نہ بوڑھا زناکار نہ تکبّر سے اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا۔
خليفہ ہارون الرشيد نے ايک بار ايک لڑکے اور اس کے والد کو قيد خانہ ميں ڈالا، والد صاحب نيم گرم پانی سے ہی وضو کے عادی تھے مگر داروغہ (جيلر) نے قيدخانے ميں آگ جلانے سے منع کرديا، تو لڑکے نے رات بھر چراغ کے ذريعہ پانی (کا برتن) گرم کيا جب صبح ہوئی تو باپ نے وضو کا پانی کچھ گرم پايا تو بیٹے سے پوچھا يہ کہاں سے آيا؟ کہنے لگا ميں نے اسے چراغ کی آگ سے گرم کيا ہے، تو يہ بات داروغہ (جیلر) تک پہنچ گئی تو اس نے وہ چراغ بھی اونچا رکھواديا پھر بیٹے نے پانی ليا اور برتن کو رات بھر اپنے دل پر رکھ کر گرم کيا یہاں تک کہ پانی ميں تھوڑی سی حرارت پيدا ہوگئی تو والد نے پوچھا يہ کہاں سے گرم ہوا؟ تو بیٹے نے معاملہ بيان کيا، تو باپ نے ہاتھ اُٹھائے اور دعا کی، اے اللہ اسے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھنا۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا:
وَاُوْلُوا الۡاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللہِ ؕ الآیۃ
ترجمہ کنزالایمان : اور رشتہ والے ايک سے دوسرے زيادہ نزديک ہيں اللہ کی کتاب ميں۔ (الأنفال:۸/۷۵)
ايک اور مقام پر ارشاد ہے:
وَالَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَیَخَافُوۡنَ سُوۡٓءَ الۡحِسَابِ ﴿ؕ۲۱﴾
ترجمہ کنزالایمان: اور وہ کہ جوڑتے ہيں اسے جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم ديا اور اپنے رب سے ڈرتے اور حساب کی بُرائی سے اندیشہ رکھتے ہيں۔ (الرعد:۱۳/۲۱)
اس آیت کی تفسیر میں فرمان جوڑتے ہیں جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا کے تحت صدر الافاضل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رقم طراز ہیں، يعنی اللہ کی تمام کتابوں اور اُسکے کل رسولوں پر ايمان لاتے ہيں اور بعض کو مان کر بعض سے منکر ہوکر ان ميں تفریق نہيں کرتے يا يہ معنی ہيں کہ حقوق قرابت کی رعايت رکھتے ہيں اور رشتہ قطع نہيں کرتے اِسی ميں رسولِ کريم صلی اللہ تعالیٰ عليہ والہ وسلم کی قرابتيں اور ايمانی قرابتيں بھی داخل ہيں سادات کرام کا احترام اور مسلمانوں کے ساتھ مودت واحسان اور اُن کی مدد اور ان کی طرف سے مدافعت اور اُن کے ساتھ شفقت اور سلام و دُعا اور مسلمان مریضوں کی عيادت اور اپنے دوستوں خادموں ہمسايوں سفر کے ساتھيوں کے حقوق کی رعايت بھی اس ميں داخل ہے اور شریعت ميں اسکا لحاظ رکھنے کی بہت تاکيديں آئی ہيں بہ کثرت احاديث صحيحہ اس باب ميں وارد ہيں-
اور فرمايا:
وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیۡنَ وَ ابْنَ السَّبِیۡلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیۡرًا ﴿۲۶﴾
ترجمہ کنزالایمان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دے اور مسکين اور مسافر کو اور فضول نہ اُڑا۔ (بنيۤ إسرائیل:۱۷/۲۶)
تفسیر خزائن العرفان میں ہے: حق دينے سے مرادہے، اُن کے ساتھ صلہ رحمی کر اور محبت اور ميل جول اور خبر گيری اور موقع پر مدد اور حسن معاشرت ۔
مسئلہ: اور اگر وہ محارم ميں سے ہوں اور محتاج ہوجائيں تو اُن کا خرچ اُٹھانا يہ بھی ان کا حق ہے اور صاحبِ استطاعت رشتہ دار پر لازم ہے بعض مفسّرين نے اس آيت کی تفسير ميں يہ بھی کہا ہے کہ رشتہ داروں سے سيد عالم صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم کے ساتھ قرابت رکھنے والے مراد ہيں اور اُنکا حق خُمُس دينا اور اُن کی تعظيم و توقير بجا لانا ہے۔
فضول نہ اُڑا يعنی ناجائز کام ميں خرچ نہ کر۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے فرمايا کہ تبذير مال کا ناحق ميں خرچ کرنا ہے۔
اور قرآن ميں ہے:
الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللہِ مِنۡۢ بَعْدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَیَقْطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَیُفْسِدُوۡنَ فِی الۡاَرْضِ ؕ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوۡنَ ﴿۲۷﴾
ترجمہ کنزالایمان:وہ جو اللہ کے عہد کو توڑ ديتے ہيں پکّا ہونے کے بعد اور کاٹتے ہيں اُس چيز کو جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم ديا اور زمين ميں فساد پھیلاتے ہيں وہی نقصان ميں ہيں۔(البقرۃ:۲/۲۷)
صدر الافاضل اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں کے تحت فرماتے ہیں،رشتہ و قرابت کے تعلقات، مسلمانوں کی دوستی و محبت، تمام انبياء کا ماننا، کتابِ الٰہی کی تصدیق حق پر جمع ہونا، يہ وہ چيزيں ہيں جن کے ملانے کا حکم فرمايا گيا ان ميں قطع کرنا بعض کو بعض سے ناحق جُدا کرنا تفرقوں کی بِنا ڈالنا ممنوع فرمايا گيا۔
اللہ تعالیٰ رشتہ داروں کا لحاظ رکھنے کا حکم فرماتا ہے:
وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَالۡاَرْحَامَ ؕ الآیۃ
ترجمہ کنزالایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو۔ (النساء:۴/۱)
يع
نی انہيں قطع نہ کرو۔ حديث شريف ميں ہے جو رزق ميں کشائش چاہے اس کو چاہے کہ صلہ رحمی کرے اور رشتہ داروں کے حقوق کی رعايت رکھے-
اور فرمايا:
فَہَلْ عَسَیۡتُمْ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمْ اَنۡ تُفْسِدُوۡا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرْحَامَکُمْ ﴿۲۲﴾
ترجمہ کنزالایمان: تو کيا تمہارے يہ لچھّن (انداز) نظر آتے ہيں کہ اگر تمہيں حکومت ملے تو زمين ميں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو۔ (محمد:۴۷/۲۲)
يوں ہی بے شمار احاديث ميں بھی صلہ رحمی کے متعلق ارشاد فرمايا گيا ہے، چنانچہ:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ رَضِيَ اللہُ عَنْھُمَا قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يا أَيھَا النَّاسُ تُوْبُوْا إِلَی اللہِ قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا، وَبَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ الصَّالِحَۃِ قَبْلَ أَنْ تُشْغَلُوْا، وَصِلُوْا الَّذِيْ بَينکُمْ وَبَين رَبِّکُمْ بِکَثْرَۃِ ذِکْرِکُمْ لَہُ، وَکَثْرَۃِ الصَّدَقَۃِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيۃ تُرْزَقُوْا وتُنْصَرُوْا وَتُجْبَرُوْا الحديث
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے فرماتے ہيں، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ہميں خطبہ ارشاد فرمايا، فرمايا اے لوگو! مرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو اور فرصت کے لمحات ختم ہونے سے پہلے نيک اعمال بجا لاؤ، اور اپنے رب کا ذکر کرکے، اور پوشيدہ وظاہری طور پر خوب صدقہ کرکے اپنے رب سے تعلق کو ملاؤ۔ (جزاء يہ ہوگی کہ) روزی پاؤگے، مدد الٰہی حاصل ہوجائے گی اور تمہارے احوال اچھے کردئيے جائيں گے۔
ايک اور مقام پر ہے:
عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الصَّدَقَۃُ عَلَی الْمِسْکِين صَدَقَۃٌ، وَعَلٰی ذَوِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ: صَدَقَۃٌ، وَصِلَۃٌ۔
حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہيں، تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمايا، عام مسکين پر صدقہ کرنا ايک صدقہ ہے اور وہی صدقہ اپنے قرابت دار پر دو صدقے ہيں ايک صدقہ دوسرا صلہ رحمی۔
پہلے مسکين سے مراد اجنبی مسکين ہے يعنی اجنبی مسکين کو خيرات دينے ميں صرف خيرات کا ثواب ہے اور اپنے عزيز مسکين کو خيرات دينے ميں خيرات کا بھی ثواب ہے اور صلہ رحمی کا بھی، صلہ رحمی يعنی اہلِ قرابت کا حق ادا کرنا بھی عبادت ہے، بہترين عبادت، پھر جس قدر رشتہ قوی اُسی قدر اُس کے ساتھ سلوک کرنا زيادہ ثواب ہے، اس لئے رب تعالیٰ نے اہلِ قرابت کا ذکر پہلے فرمايا کہ ارشاد فرمايا:
(وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیۡنَ وَ ابْنَ السَّبِیۡلِ) ( [بني إسرائیل:۱۷/۲۶]
ترجمہ: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دے اور مسکين اور مسافر کو (کنزالايمان))۔
ايک اور حديث شريف:
عَنْ أُمِّ کُلْثُوْمٍ بِنْتِ عُقْبَۃَ رَضِيَ اللہُ عَنْھَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَفْضَلُ الصَّدَقَۃِ عَلٰی ذِي الرَّحِمِ الْکَاشِحِ
حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمايا، ايسے اہلِ قرابت پر صدقہ کرنا افضل ہے جو پوشيدہ دشمنی رکھتا ہو۔
فقيہ ابو الليث سمرقندی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں، اگر کسی شخص کے رشتہ دار قريب ہوں تو اس پر لازم ہے کہ ان کے ساتھ تحائف و ملاقات کے ذريعہ صلہ رحمی کرے، اگر مالی طور پر صلہ رحمی پر قادر نہ ہو تو ان سے ملا کرے اور ضرورتاً ان کے کاموں ميں ہاتھ بٹائے اور اگر دور ہوں تو ان سے مراسلہ کرے اور (سفر کرکے) ان کے پاس جانے کی طاقت رکھتا ہوتو (خط لکھنے سے) خود جانا افضل ہے۔
اہلِ قرابت پر صدقہ کرنے سے اس کا ثواب دونا ہوجاتا ہے، چنانچہ:
عَنْ أَبِيْ أُمَامَۃَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آقائے مظلوم، سرورِ معصوم، حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم قَالَ: إِنَّ الصَّدَقَۃَ عَلٰی ذِيْ قَرَابَۃٍ يُضَعَّفُ أَجْرُھَا مَرَّتَين.
بے شک اہلِ قرابت پر صدقہ کا ثواب دوگنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
فقيہ ابو الليث سمرقندی رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ فرماتے ہيں، کہ صلہ رحمی ميں دس اچھی خصلتيں ہيں؛
ايک يہ کہ اس سے اللہ راضی ہوتا ہے کيونکہ صلہ رحمی خود اسی کا حکم ہے۔
دوسری يہ کہ صلہ رحمی سے انہیں دلی اطمينان حاصل ہوتا ہے اور حديث شريف ميں بھی ہے کہ افضل اعمال وہ ہيں جو مومن کو مطمئن کريں۔
تيسری اچھی خصلت يہ ہے کہ فِرشتے خوش ہوتے ہيں۔
چوتھی يہ کہ لوگ اس کی تعريف کرتے ہيں۔
پانچويں يہ کہ صلہ رحمی سے شیطان لعين غمناک ہوتا ہے۔
چھٹی يہ کہ عمر ميں برکت ہوتی ہے۔
ساتويں اچھی خصلت رزق ميں برکت۔ آٹھويں اچھی خصلت اچھی موت۔
نويں، محبت ميں زيادتی، کيونکہ جن پر اس نے احسان کئے ہوں گے سب اس کی خوشی و غم ميں شريک ہوں گے اور اس پر اس کی مدد بھی کرتے رہيں گے جس کی وجہ سے اس کی محبت لوگوں کے نزديک اور بڑھے گی
اور دسويں اچھی خصلت موت کے بعد زيادتی اجر ہے، کيونکہ لوگ اس کی موت کے بعد اس کے احسانات کو ياد کرکے اس کے لئے ايصالِ ثواب و دُعا کريں گے۔
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے صلہ رحمی کرنے والوں کے لئے عذابِ قيامت سے بچاؤ کا مژدہ عطا فرمايا، چنانچہ:
عَنْ أَبِيْ ھُرَيرۃَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِيْ بَعَثَنِيْ بِالْحَقِّ لَا يعَذِّبُ اللہُ يومَ الْقِيامَۃِ مَنْ رَحِمَ الْيتيم، وَلَانَ لَہُ فِي الْکَلَامِ، وَرَحِمَ يتمَہُ وَضُعْفَہُ، وَلَمْ يتطَاوَلْ عَلٰی جَارِہِ بِفَضْلِ مَا آتَاہُ اللہُ. وَقَالَ: يا أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ وَالَّذِيْ بَعَثَنِيْ بِالْحَقِّ لَا يقْبَلُ اللہُ صَدَقَۃً يومَ الْقِيامَۃِ مِّنْ رَجُلٍ، وَلَہُ قَرَابَۃٌ مُّحْتَاجُوْنَ إِلٰی صِلَتِہِ. وَيصْرِفُھَا إِلٰی غَيرھِمْ، وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيدہِ لَا ينظُرُ اللہُ إِلَيہ يومَ الْقِيامَۃِ
حضرت ابو ہريرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہيں،نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمايا، اس ذاتِ پاک کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمايا، اللہ تعالیٰ اس شخص کو بروز قیامت عذاب نہ دیگا جو يتيم پر رحم کھائے اور اس سے نرم گفتگو کرے اور اسکی يتيمی اور کمزوری پر رحم کھائے۔ اور اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ (مال و متاع) کی وجہ سے اپنے ہمسائے پر نہ اِترائے، اور فرمايا اے امتِ محمد!اس ذات مقدس کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمايا اللہ تعالیٰ بروزِ قيامت اس شخص سے صدقہ قبول نہ فرمائے گا جس کے اہلِ قرابت محتاجِ رحم ہوں اور وہ غيروں کو بانٹتا پھِرے۔ اس ذات اقدس کی قسم ايسے شخص پراللہ تعالیٰ بروزِ قيامت نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔
ايک اور حديث شريف ميں ہے:
عَنْ بَھْزِ بْنِ حَکِيم عَنْ أَبِيہ عَنْ جَدِّہِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ: قُلْتُ: يا رَسُوْلَ اللہِ مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: أُمَّکَ، ثُمَّ أُمَّکَ، ثُمَّ أُمَّکَ، ثُمَّ أَبَاکَ، ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ
صلہ رحمی کرتے رہنا، ہمیشہ اللہ کی راہ ميں جہاد کرتے رہنا، پانی کے اسراف کے بغير ہمیشہ باوضو رہنا، اور ہمیشہ والدين کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔
يوں ہی اہلِ قرابت رشتہ دار کے ساتھ استطاعت ہوتے ہوئے، بخل کرنے پر وعيد ہے، چنانچہ:
عَنْ جَرِير بْنِ عَبْدِ اللہِ الْبَجَلِيِّ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ ذِيْ رَحِمٍ
پانچ چيزيں ايسی ہيں جن کی ہمیشگی بندے کی نيکيوں ميں اضافے کا سبب ہے، ہمیشہ کم يا زيادہ صدقہ کرتے رہنا، ہمیشہ تھوڑی يا زيادہ
ايک اور حديث ميں ہے:
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيب عَنْ أَبِيہ عَنْ جَدِّہِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَيما رَجُلٍ أَتَاہُ ابْنُ عَمِّہِ يسالُہُ مِنْ فَضْلِہِ فَمَنَعَہُ، مَنَعَہُ اللہُ فَضْلَہُ يومَ الْقِيامَۃِ
حضرت عمرو بن شعيب اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے روايت کرتے ہوئے فرماتے ہيں، سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃ لِّلْعالَمِیْن صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمايا، جس شخص سے اُس کا چچازاد بھائی اس کے فضل (یعنی ضرورت سے زائد مال میں) سے کچھ طلب کرنے کے لئے آئے اور وہ اسے نہ دے تو بروزِ قيامت اللہ تعالیٰ اُس شخص سے اپنا فضل روک لے گا۔
ايک اور حديث ميں ارشاد نبوی ہے:
عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہيں، ميں نے اللہ عزوجل کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ عَنِ الْعُیوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلمسے عرض کی، بندے کو کونسی چيز آگ سے بچاتی ہے؟ فرمايا، اللہ تعالیٰ پر ايمان، ميں نے عرض کی، اے اللہ کے نبی کيا ايمان کے ساتھ کوئی عمل بھی ہے؟ فرمايا، جو کچھ اللہ عزوجل نے تمہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے تھوڑا بہت صدقہ کرنامیں نے عرض کی یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اگر کوئی فقیر ہو کہ صدقہ دینے کے ليے کچھ نہ پائے تو؟ارشاد فرمایا نیکی کا حکم کرے اور برائی سے روکے، میں نے عرض کی، اگر کوئی نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کی استطاعت بھی نہ پائے تو؟ فرمایا کسی بے ہنر کی مدد کرے،میں نے عرض کی،یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ کیا فرماتے ہیں کہ اگر وہ اسے بھی بخوبی نہ کرسکے؟توفرمایا کہ کسی مظلوم کی مدد کرے،میں نے عرض کی اے اللہ کے نبی! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ کی کیا رائے ہے کہ اگر وہ کمزور ہو اور مظلوم کی مدد نہ کرسکے تو؟فرمایا کیا تو اپنے ساتھی کے ليے کوئی بھلائی نہیں چھوڑنا چاہتا، اسے چاہيے کہ لوگوں کو اپنی ذات سے تکلیف پہنچنے سے بچائے،میں نے عرض کی،
یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ کیا فرماتے ہیں کہ اگروہ یہ اعمال کرے تویہ اسے جنت میں داخل کردیں گے؟ فرمایا جو بھی مومن بندہ ان خصائل میں سے کسی خصلت کو اختیار کرلے گا وہ خصلت اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جنت میں لے جائے گی۔
اپنے دینی بھائی کو کھلانا، ايک درہم صدقہ کرنے سے زيادہ محبوب ہے اور اپنے دینی بھائی پرايک درہم صدقہ کرنا، غير پر سو درہم صدقہ کرنے سے زيادہ محبوب ہے،
چنانچہ حديث شريف ميں ہے:
عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْھُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَأَنْ أُطْعِمَ أَخاً لِيْ فِي اللہِ لُقْمَۃً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَلٰی مِسْکِين بِدِرْھَمٍ، وَلَأَنْ أُعْطِيَ أَخاً لِيْ فِي اللہِ دِرْھَماً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَلٰی مِسْکِين بِمِائَۃِ دِرْھَمٍ
حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے آپ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال،، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے روايت بيان کرتے ہيں کہ آپ نے فرمايا، مجھے کسی اجنبی مسکین پر ايک درہم خرچ کرنے سے زيادہ محبوب ہے کہ ميں اپنے دینی بھائی کو ايک لقمہ کھلاؤں اور کسی اجنبی مسکين کو ايک سو درہم صدقہ کرنے سے زيادہ پسند ہے کہ اپنے دینی بھائی کو ايک درہم دوں۔
اسی طرح کا مفہوم ايک اور حديث ميں ہے:
عَنْ عَلِيٍّ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ: لَأَنْ أَجْمَعَ نَفَراً مِنْ إِخْوَانِيْ عَلٰی صَاعٍ، أَوْ صَاعَين مِنْ طَعَامٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَدْخُلَ سُوْقَکُمْ فَأَشْتَرِيَ رَقَبَۃً فَأُعْتِقَھَا.
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہيں، مجھے تمہارے بازار ميں آکے غلام خريد کر آزاد کردينے سے زيادہ عزيز ہے کہ ميں اپنے بھائيوں کو ايک يا دو صاع کھانا کھِلادوں۔
تين قسم کے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا سایہ رحمت ہے:
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے فرماتے ہيں، خاتم الْمُرْسَلین، رَحْمَۃ للْعالمین، شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین، مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمايا، تین صفات ایسی ہیں کہ جس شخص میں ہوں گی اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت کا سایہ کردے گااور اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا۔
(وہ صفات یہ ہیں)
کمزور کے ساتھ نرمی برتنا،
والدین پر شفقت کرنا
اور غلاموں کے ساتھ احسان کرنا۔
اور تین صفات وہ ہیں کہ جس شخص میں ہوں گی اسے اللہ عزوجل اس دن اپنے عرش کے سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا
(وہ صفات یہ ہیں)
سخت مشکل میں وضو کرنا،
اندھیرے میں مساجد کو جانا،
اور بھوکے کو کھانا کھلانا۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.