You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
عربی میں شہد کی مکھی کو نحل کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک سورہ نازل فرمائی جس کا نام سورہ نحل ہے۔ اس سورہ میں شہد اور شہد کی مکھی کے فضائل اور اس کے فوائد و منافع کا تذکرہ فرمایا ہے، جو قابل ذکر ہے اور درحقیقت یہ مکھیاں عجائباتِ عالم کی فہرست میں ایک بہت ہی نمایاں مقام رکھتی ہیں۔
اس مکھی کی چند خصوصیات حسب ِ ذیل ہیں:۔
(۱)اس مکھی کے گھروں یعنی چھتّوں کا ڈسپلن اور نظام ِ عمل اتنا منظم اور باقاعدہ ہے گویا ایک ترقی یافتہ ملک کا نظام سلطنت ہے۔ جو پورے نظام و انتظام کے ساتھ نظم مملکت چلا رہا ہے جس میں کوئی خلل اور فساد رونما نہیں ہوتا۔
(۲)ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں یہ مکھیاں اس طرح رہتی ہیں کہ ان کا ایک بادشاہ ہوتا ہے جو جسم اور قد میں تمام مکھیوں سے بڑا ہوتا ہے۔ تمام مکھیاں اسی کی قیادت میں سفر اور قیام کرتی ہیں اس بادشاہ کو یعسوب کہتے ہیں۔
(۳)ان کا یعسوب ان مکھیوں کے لئے تقسیم کار کرتا ہے اور سب کو اپنی اپنی ڈیوٹی پر لگا کر کام کراتا ہے۔ چنانچہ کچھ مکھیاں مکان بناتی ہیں جو سوراخوں کی شکل میں ہوتا ہے یہ مکھیاں ان سوراخوں کو اتنی خوبصورتی اور یکسانیت کے ساتھ مسدس (چھ گوشوں والا)شکل کا بناتی ہیں کہ گویا کسی ماہر انجینئر نے پرکار کی مدد سے ان سوراخوں کو بنایا ہے۔ سب کی شکل بالکل یکساں اور ایک جیسی، سب کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی بالکل برابر ہوتی ہے۔
(۴)کچھ مکھیاں یعسوب کے حکم سے انڈے بچے پیدا کرنے کا کام انجام دیتی ہیں، کچھ شہد تیار کرتی ہیں، کچھ موم بناتی ہیں، کچھ پانی لاتی ہیں، کچھ پہرہ دیتی رہتی ہیں، مجال نہیں کہ کوئی دوسری مکھی ان کے گھر میں داخل ہوسکے۔
(۵)یہ مکھیاں پھلوں پھولوں وغیرہ کا رس چوس چوس کر لاتی ہیں اور شہد کے خزانے میں جمع کرتی رہتی ہیں اور پھلوں پھولوں کی تلاش میں جنگلوں اور میدانوں میں سینکڑوں میل الگ الگ دور دور تک چلی جاتی ہیں مگر یہ اپنے چھتوں کو نہیں بھولتی ہیں اور بلا تکلف کسی تلاش کے سیدھے سینکڑوں میل کی دوری سے اپنے چھتوں میں پہنچ جاتی ہیں۔
(۶)یہ مکھیاں مختلف رنگوں اور مختلف ذائقوں کا شہد تیار کرتی ہیں، کبھی سرخ، کبھی سفید، کبھی سیاہ، کبھی زرد، کبھی پتلا، کبھی گاڑھا، مختلف موسموں میں اور مختلف پھلوں پھولوں کی بدولت شہد کے مختلف رنگ اور ذائقے بدلتے رہتے ہیں۔
(۷)یہ اپنے چھتے کبھی درختوں پر ،کبھی پہاڑوں پر ،کبھی گھروں میں ،کبھی دیواروں کے سوراخوں میں ،کبھی زمین کے اندر بنایا کرتی ہیں اور ہر جگہ یکساں ڈسپلن اور نظام کے ساتھ ان کا کارخانہ چلتا رہتا ہے۔
(۸)نافرمان اور باغی مکھیوں کو ان کا یعسوب مناسب سزائیں بھی دیتا ہے یہاں تک کہ بعض کو قتل بھی کروادیتا ہے اور سب کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے۔ کبھی کوئی شہد کی مکھی کسی نجاست پر نہیں بیٹھ سکتی اور اگر کوئی کبھی بیٹھ جائے تو ان کا بادشاہ یعسوب اس کو سخت سزا دے کر چھتے سے نکال دیتا ہے۔
قرآن مجید نے اس شہد کی مکھیوں کے مسائل کا خطبہ پڑھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔
وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوۡنَ ﴿ۙ68﴾ثُمَّ کُلِیۡ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُکِیۡ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا ؕ یَخْرُجُ مِنۡۢ بُطُوۡنِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿69﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھا اور اپنے رب کی راہیں چل کہ
تیرے لئے نرم و آسان ہیں اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ برنگ نکلتی ہے جس میں لوگوں کی تندرستی ہے بیشک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں کو۔(پ14،النحل:68۔69)
درسِ ہدایت:اللہ تعالیٰ نے شہد کو تمام بیماریوں کے لئے شفا فرمایا ہے چنانچہ بعض امراض میں تنہا شہد سے شفاء حاصل ہوتی ہے اور بعض امراض میں شہد کے ساتھ دوسری دواؤں کو ملا کر بیماریوں کا علاج کرتے ہیں جیسا کہ معجونوں اور جوارشوں اور طرح طرح کے شربتوں کے ذریعے تمام بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے اور ان سب دواؤں میں شہد شامل کیا جاتا ہے اسی طرح سکنجبین میں بھی شہد ڈالی جاتی ہے جو پیٹ کے امراض کے لئے بے حد مفید ہے۔ بہرحال ہر مسلمان کو یہ ایمان رکھنا چاہے کہ شہد میں شفاء ہے اس لئے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شہد کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ؕ
یعنی اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے
(پ14،النحل:29) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.