You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سر عرش پر ہے تیری گزر دل فرش پر ہے تیری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں جو تجھ پہ عیاں نہیں
یوں تو اہلسنت و جماعت کا ہر عقیدہ قرآن و سنت کے مطابق اور بہت ہی خوبصورت ہے ،میں یہاں اہلسنت و جماعت کے ایک خوبصورت عقیدے حاضرو ناظر کے بارے میں کچھ عرض کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ سب سے پہلے یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ عقیدہ کیا ہے ، پھر بس کے اجزا کتنے ہیں اور آخر میں کیا یہ عقیدہ صحابہ کرام کا بھی تھا یہ دیکھنا ہو گا اور قرآن و حديث اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں یہ جاننا ہو گا ۔
اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ
"حضور سید عالم ، جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جسم اقدس کے ساتھ اپنے روضہ مبارکہ میں تشریف فرما ہیں ۔۔۔۔۔۔اور اللہ تعالی نے ساری کائنات آپ کے سامنے حاظر کر دی ہے ۔۔۔۔۔ جسے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں۔۔۔۔۔ اور قدرت خداوندی سے آپ جب چاہیں جہاں چاہیں تشریف لے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔اور ایک وقت میں متعدد جگہ تشریف لے جانا چاہیں تو وہ بھی ممکن ہے"
اس عقیدہ کے اجزا یہ ہیں ؛
1- کہ حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روضہ اقدس میں اپنے جسم منور کے ساتھ تشریف فرما ہیں
2- اللہ تعالی نے تمام کائنات آپ کے سامنے حاضر کر دی ہے
3- آپ اس کائنات کا مشاہدہ بھی فرما رہے ہیں یعنی آپ شاہد ہیں
4- اور قدرت خداوندی سے آپ جہاں چاہیں تشریف بھی لے جا سکتے ہیں ۔۔۔ مطلب یہ ہوا کہ خدا کی قدرت سے یہ سب ہوتا ہے ۔
5- اور ایک وقت میں متعدد جگہ بھی تشریف لے جانا چاہے تو آپ کے لیے ممکن ہے۔
جزو نمبر 1 میں تو کسی کو شک کی گنجائش ہی نہیں
جزو نمبر 2 اور 3 ۔۔۔۔ کائنات آپ کے سامنے حاضر ہے ۔ اور آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ؛
" اللہ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی پس میں نے زمین کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا"(صحیح مسلم ج 4 ص 2216 )
شرح مواہب لدنیہ للزرقانی میں حضرت عبداللہ ابن عمر کی روایت سے ہے
”اللہ تعالی نے ہمارے سامنے ساری دنیا کو پیش فرما دیا پس ہم اس دنیا کو اور جو اس میں قیامت تک ہونے والا ہے اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے اپنے اس ہاتھ کو دیکھتے ہیں "
ان دونوں احادیث سے ثابت ہوا کہ اللہ عزوجل نے حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس دنیا کو منکشف فرما دیا اور آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں ۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس شان سے سب ملاحظہ فرما رہے ہیں آپ کا رب عزوجل آپ کی شان قرآن مجید فرقان حمید میں یوں بیان فرماتا ہے کہ
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ شٰہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿۴۵﴾ۙ
اے غیب کی خبریں بتانے والے بیشک ہم نے تمہیں بھیجا گواہ اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا
تفسیر خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت مفتی سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ رحمۃ فرماتے ہیں کہ
شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے ، مفرداتِ راغب میں ہے '' اَلشُّھُوْدُ وَ الشَّھَادَۃُ الْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاھَدَۃِ اِمَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃِ '' یعنی شہود اور شہادت کے معنٰی ہیں حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ اور گواہ کو بھی اسی لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے اس کو بیان کرتا ہے ۔ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام عالَم کی طرف مبعوث ہیں ، آپ کی رسالت عامّہ ہے جیسا کہ سورۂ فرقان کی پہلی آیت میں بیان ہوا تو حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قیامت تک ہونے والی ساری خَلق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال و افعال و احوال ، تصدیق ، تکذیب ، ہدایت ، ضلال سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں ۔ (ابوالسعود وجمل)
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شان سے سب ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گواہ بن گۓ ہیں ہر ایک چیز کے۔
جزو نمبر 4 اور 5۔ قدرت خداوندی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں چاہے جا سکتے ہیں اور ایک سے ذیادہ مقامات پر بھی ایک وقت میں جانا چاہیں تو وہ بھی آپ کے لیے ممکن ہیں ، اس پر دلیل یہ ہے کہ
حدیث شریف میں ہے کہ
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کسوف جماعت صحابہ کو پڑھائی ، بحالت نماز ہاتھ اٹھایا جیسے کچھ لینا چاہتے ہیں بعد نماز صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں یہ جنبش کیسی تھی ۔
فرمایا؛
ہم پر جنت پیش کی گئی چاہا کہ ہم اس کا ایک خوشہ توڑ لیں مگر چھوڑ دیا تا کہ لوگوں کا علم بالغیب قائم رہے ۔ اگر یہ توڑ لیتے تو قیامت تک اسے کھاتے رہتے ۔
اس سے پتہ لگا کہ حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ شریف میں کھڑے ہیں اور ہاتھ جنت الفردوس کے خوشہ پر ہے ۔ مطلب آپ اپنے رب کی بے مثال قدرت سے جہاں چاہے جا سکتے ہیں۔ اورکسی صحابی نے اعتراض نہیں کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ سب نے دل و جان سے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کو دل و جان سے مانا ۔یعنی صحابہ کا یہ ایمان تھا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی نگاہ مبارک سے کچھ پوشیدہ نہيں اور جہاں چاہیں پہنچ سکتے ہیں ۔
یہ تو حضور سید عالم کی بلند و بالا اور عظمت والی شان ہے ،ان کے صدقے میں ان کے صحابہ اور غلام بھی یہ کرسکتے ہیں یہاں میں دو واقعات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا
پہلا واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ہے ، چنانچہ مشکوۃ شریف جلد دوم باب الکرامات میں سے یہ واقعہ اپنے الفاظ میں عرض کرتا ہوں
"حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کا سردار حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو بنا کر نہاوند بھیجا ۔ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مدینہ شریف میں خطبہ پڑھتے ہوے پکارنے لگے کہ اے ساریہ پہاڑ کی پناہ لو ۔ کچھ عرصہ بعد اس لشکر سے قاصد آیا اور اس نے کہا کہ فلاں تاریخ کو جمعہ کے دن ہمیں دشمن شکست دینے ہی والا تھا کہ ہم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آواز سنی کے ساریہ پہاڑ کی پناہ لو تو حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ نے پہاڑ کو اپنی پشت پر لے لیا جس سے دشمن شکست کھا گیا۔
اب کہاں نہاوند جہاں حضرت ساریہ موجود ہیں اور کہاں مدینہ شریف درمیان میں ایک ماہ کی مسافت ، حضرت عمر فاروق مدینہ شریف میں بیٹھے بیٹھے ناصرف یہ واقعہ ملاحظہ فرما رہے تھے بلکہ نہاوند میں لشکر اسلام کی مشکل کشائی بھی فرما رہے ہیں۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ صرف انبیاء حاضر و ناظر نہیں بلکہ اولیاء سے بھی کچھ پوشیدہ نہیں اور وہ بھی جہاں چاہے آ جا سکتے ہیں رب عزوجل کی مدد ان کے شامل حال ہوتی ہے۔
اسی لیے تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ
یہ شان ہے ان کے غلاموں کی تو سردار کا عالم کیا ہو گا
دوسرا واقعہ میں حضرت ملک الموت علیہ السلام کا عرض کرونگا کہ وہ روح قبض فرماتے ہیں اور ایک وقت میں کتنے ممالک میں ایک ساتھ کتنے لوگوں کی روح قبض فرماتے ہیں اس کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا ۔یہ خدا کا فضل ہے اپنے محبوبوں پر کہ وہ ان کو طاقت بخشتا ہے کہ وہ ایک وقت مختلف مقامات پر جا سکتے ہیں ۔تو یہ شان ہے ان کے غلاموں کی سردار کا عالم کیا ہوگا ۔
حضرت عمر فاروق اور حضرت ملک الموت کے واقعات سے اور قرآن و حدیث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ
"حضور سید عالم ، جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جسم اقدس کے ساتھ اپنے روضہ مبارکہ میں تشریف فرما ہیں ۔۔۔۔۔۔اور اللہ تعالی نے ساری کائنات آپ کے سامنے حاظر کر دی ہے ۔۔۔۔۔ جسے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں۔۔۔۔۔ اور قدرت خداوندی سے آپ جب چاہیں جہاں چاہیں تشریف لے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔اور ایک وقت میں متعدد جگہ تشریف لے جانا چاہیں تو وہ بھی ممکن ہے"
عقائد اہلسنت کے بارے میں قرآن و سنت اور آثار صحابہ کیا کہتے ہیں یہ جاننے کے لیے
مفتی احمد یا خان نعمیا رحمۃ اللہ علیہ کی
تصنیف لطیف
"جاء الحق "
کا
مطالعہ فرمائیں۔
اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ عزوجل صحابہ کرام علیھم الرضوان کے سچے عقائد کا صدقہ ہمیں بھی صحابہ کرام اور اولیاء عظام کے عقائد پر زندہ رکھے اور انہیں پر ہمارا خاتمہ کرے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
طالب دعا،
ڈاکٹر صفدر علی قادری
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.