You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
رمضان المبارک : معاشرتی و اخلاقی ذمہ داریاں اور چند اصلاح طلب باتیں
===================================
رمضان رب تعالیٰ کا انعام ہے۔ موسم بہار ہے۔ رحمتوں کی ساعت ہے۔ مانی ہوئی بات ہے کہ ایک لمحہ مقبولیت کا مل جانا خوش نصیبی ہے؛
رب کا کرم دیکھیے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایت ملاحظہ کیجیے؛ چند ساعتیں نہیں پورا مہینہ عطا کردیا۔ فطرت کے تقاضوں کی تکمیل ہے’’ماہِ رمضان‘‘۔ رحمتِ ایزدی چاہتی ہے کہ بندے پاکیزہ ہولیں، گناہوں سے تائب ہوں، ایسے ایسے مواقع دیے کہ عقل حیران ہے۔
ماہ رمضان کے انعام و اکرام و برکات کا شمار کیا۔ ایسا رحمت بھرا مہینہ ہمیں عطا ہوا۔ اس کی قدر کریں۔ تکریم کریں۔تعظیم کریں۔ ہر ہر لمحہ رب کا شکر اداکریں ۔ شب بھی افضل، صبح بھی برتر، شام بھی بڑھ کر، سحر بھی احسن۔ نعمتیں حدِ شمار میں نہیں آسکتیں، اِس لیے ضروری ہے کہ ماہِ مبارک میں اِن امور کا خیال رکھا جائے:
[۱]گناہوں سے توبہ ایسی کی جائے کہ آئندہ زندگی نیکیوں میں گزرے۔
[۲]ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھا جائے، کسی کا حق ذمہ باقی ہو تو رحمتوں سے واقعی حصہ پانے کے لیے ان کے حقوق پہلے ادا کردیں۔
[۳]روزے رب کی رضا، سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش نودی کے لیے رکھے جاتے ہیں اس لیے صبر اختیار کر کے ریاودکھاوے سے بچیں۔
[۴]نفس کی پاکیزگی و تقویٰ روزے کا اہم مقصد ہے،اس لیے تقویٰ کے منافی امور مثلاً حرام کام،غصہ کرنا،تصویر کھنچوانا، ویڈیو کو رواج دینا، فلمیں دیکھنا، نشہ کرنا جیسے امور سے بھی بچنے کا عہد کریں۔
[۵]اپنے مال کی زکوٰۃ اولین فرصت میں ادا کردیں، ٹال مٹول نقصان دہ ہے، پورا پورا حساب کریں۔ کہیں معمولی طمع ہمارے رزق کی برکت اٹھانے کا سبب نہ بن جائے!
[۶]زکوٰۃکے حق داروں کو جھڑک کر زکوٰۃ نہ دیں، نرمی و محبت وشفقت کے ساتھ دیں، احسان نہ جتائیں بلکہ عزتِ نفس کا پورا پورا خیال رکھیں۔
[۷]مدارسِ دینیہ دین اور ہماری روحانی و تعلیمی و قومی بقا کے مراکز ہیں، علما و طلبا کو حقیر ہرگز نہ جانیں، انھیں اگر زکوٰۃ دیتے ہیں تو پوری عزت کے ساتھ دیں، بے عزتی کے سلوک کے وہ ہرگز مستحق نہیں۔
[۸]رمضان میں برکت و رحمت کا خاص نزول ہوتا ہے، اللہ نے کشادگی دی ہے تو تشکر میں مفلسوں، تنگ دستوں، غریبوں کو بھی شریک کریں۔
[۹]ہم عمدہ کھانا بناتے ہیں، لذت کام و دہن میں مفلسوں، غریبوں، دبے کچلوں کو بھی شامل کریں۔
[۱۰] ہم چار اور پانچ بلکہ آٹھ دس ڈریس تک بنواتے ہیں؛ کیا کسی نئے کپڑے سے محروم کو ’’نیا ڈریس‘‘ عطا کرسکتے ہیں؟
[۱۱]اطراف کے غربا کاجائزہ لیں اور خاموشی سے ان کی ضرورت کی کفالت کردیں۔
[۱۲]ماہِ مبارک میں بیماریوں سے نبرد آزما افراد کی بھی مدد کردیں، مال نہ دے سکیں تو عیادت کر کے زندگی سے ٹوٹے افراد کے زخموں پر مرہم رکھ دیں۔
[۱۳]کوئی غربت زدہ ذہین بچہ معاشی تنگی کے باعث تعلیم سے محروم ہو رہا ہو تو اس کی ضرورت کا تصفیہ بھی ماہِ رمضان کی خوشی دوبالا کرنے کا باعث ہے۔
[۱۴]تلاوتِ کلام اللہ کا معمول لائق قدر ہے؛ کبھی قرآن کریم ترجمے کے ساتھ بھی مکمل کرلیں،رمضان اس میں بڑا معاون ثابت ہوگا، اردو میں ترجمہ ’’کنزالایمان‘‘ از اعلیٰ حضرت بڑا آسان و منشاے قرآن سے قریب تر ترجمہ ہے،اس لیے اسے ضرور مطالعہ میں لائیں۔
[۱۵]مزدوروں سے ان کی ہمت کے مطابق کام لیں، ضعیف افراد پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں، محنت کم لیں اور معاوضہ عمدہ دیں۔
[۱۶]دینی کتابوں کا مطالعہ معمول بنائیں۔ ہم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں، ماہِ مبارک میں ’’سیرتِ مصطفی‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم[از مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی] کا مطالعہ بھی کرلیں۔
[۱۷] علم دین کا حاصل کرنا حدیث کی رُو سے فرضِ عین ہے اس لیے مسائلِ دینیہ سے واقفیت کے لیے ’’قانونِ شریعت‘‘ از مفتی شمس الدین جون پوری کا مطالعہ بھی کرلیں تا کہ ایمانی نسبت مضبوط ہو۔
[۱۸]اخلاقی خوبیاں پیدا کریں، روزہ اخلاق کو بھی نکھارتا ہے، کردار کو سنوارتا ہے، ضرورت فلسفۂ روزہ سمجھنے کی ہے۔
[۱۹]۶؍۱۰؍اور تین دن تراویح پڑھ لینے سے بقیہ رمضان تراویح ہرگز معاف نہیں؛ روزانہ تراویح کا اہتمام کریں۔
[۲۰]ماہِ رمضان میں ’’من‘‘ کی دُنیا کی آرائش کے لیے ’’سچ‘‘ کا عہد کریں؛ جھوٹ سے تائب ہوں۔ ’’تن‘‘ کی دُنیا کی آرائش کے لیے انگریزی رہن سہن ’’مغربی اسٹائل‘‘ سے دوری کا عزم کریں۔
[۲۱]اپنی دُنیا اپنے دین کے تابع کردیں، یعنی نقطۂ نظر Point of viewتبدیل کریں، دُنیوی نقطۂ نظر کی بجائے دینی سوچ وفکر سے آگے بڑھیں۔
[۲۲]روزے کے فوائدِ روحانی کا بھی خیال رکھیں، غیبت، چغلی، گالی گلوچ، دل آزاری، مکاری سے بالکل اجتناب برتیں۔
[۲۳]اسلاف کے اندازِزندگی کو رہبر بنائیں تاکہ فرقہ پرستوں کی چالیں ناکام ہوں، اسلافِ کرام مثلاً امام اعظم، امام غزالی، غوث اعظم، غریب نواز، داتا گنج بخش، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، مجدد الف ثانی، مخدوم سمنانی، اعلیٰ حضرت جیسے راہ بروں کے نقوشِ قدم معیارِ زندگی بنائیں۔
[۲۴]بڑوں کی عزت، چھوٹوں پہ شفقت، والدین سے حسن سلوک، بوڑھوں کی قدر کریں۔
[۲۵]تمام عبادات، معمولاتِ رمضان دکھاوے کے بجائے خوش نودیِ رب کریم و رضاے مصطفی علیہ التحیۃوالثناء کے لیے کریں۔
اس نوع کے اور بھی نکات ہیں جن کو اپنا کر ماہِ رمضان کے تربیتی لمحات سے گلستانِ حیات کو مہکایا جا سکتا ہے۔ قوم کی عملی تربیت کر کے صہیونی عزائم کو خاک میں ملایا جاسکتا ہے۔ضرورت بیداری کی اور احساس کی ہے، ورنہ ؎
رزقِ خدا کھایا کیا، فرمانِ حق ٹالا کیا
شکرِ کرم ترسِ سزا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.