You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
قائدین تحریک آزادی قسط ۸
مفتی عنایت احمد کاکوروی :جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے فراموش کردہ مجاہد
مرتب:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
=========================
غریق بحر رحمت مفتی عنایت احمد کاکوروی (متولد۱۲۲۸ھ/۱۸۱۳۔متوفی ۱۲۷۹ھ/۱۸۶۳ئ)دیوہ (بارہ بنکی، اودھ)میں پیدا ہوئے اور اپنی نانیہال کاکوری (لکھنؤ)میں اپنے والد منشی محمد بخش کے ساتھ مستقل رہائش پذیر ہوئے۔دیوہ اور کاکوری میں ابتدائی تعلیم کے بعد رام پور پہنچ کر مختلف علوم وفنون کی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد دہلی میں شاہ محمد اسحق اور علی گڑھ میں مولانابزرگ علی مارہروی سے درس حدیث اور دیگر علوم پڑھ کر علی گڑھ میں مدرس اور مفتی کے منصب پر فائز ہوئے۔مفتی عنایت احمد کاکوروی نے سرکاری ملازمت بھی۔پہلے علی گڑھ میں منصف ہوئے ۔کچھ عرصہ پھپھوند (اٹاوہ)میں بھی منصف رہے،پھر صدر امین بن کر بریلی گئے۔وہاں آپ زیادہ دنوں تک رہے اور کئی ایک دینی وعلمی کتابیں بھی لکھیں۔یہاں آپ نے ایک اصلاحی اور تبلیغی انجمن ’’جلسۂ تائید دینِ متین‘‘قائم کرکے لٹریچر کی نشرواشاعت کی۔اس انجمن کو بر صغیر کی پہلی اصلاحی انجمن کہاجاتا ہے۔۱۸۵۷ء کے شروع میں آپ صدرالصدور آگرہ بنایاگیا۔ابھی سفر کی تیاری جاری تھی کہ ماہ مئی میں انقلاب برپا ہوگیا اور آپ آگرہ نہ جاکر بریلی ورام پور میں انقلابیوں کے ہمنوا ومعاون بلکہ سرپرست کی حیثیت سے سرگرم ہوگئے۔
مجاہدین کے لیے مالی تعاون اور انگریزوں کے خلاف جہاد پر مشتمل ایک فتویٰ بریلی سے جاری ہواجس پر مفتی عنایت احمد کاکوروی کے دستخط تھے۔پروفیسر محمد ایوب قادری لکھتے ہیں:انقلاب سے پہلے بریلی میں اس تحریک کے دوممتاز کارکن موجود تھے۔مولوی سرفراز علی اور دوسرے مفتی عنایت احمد کاکوروی۔(جنگ آزادی ۱۸۵۷ئ۔مطبوعہ کراچی)میاں عبدالرشید کالم نگار روزنامہ نوائے وقت لاہور لکھتے ہیں:آپ (مفتی عنایت احمد)بریلی میں نواب خان بہادر خاں روہیلہ کی قیادت میں جہاد حریت کی تنظیم کے لیے سرگرم عمل رہے۔ان دنوں روہیل کھنڈ بریلی مجاہدین آزادی کا اہم مرکز تھا۔مولانا احمد رضا خاں کے دادا مولانا رضا علی خاںبریلوی اس تحریک کے قائدین میں سے تھے۔مفتی عنایت احمد کاکوروی نے مجاہدین کی تنظیم پر اکتفانہ کیا بلکہ نواب خان بہادر خاں روہیلہ کے دست وبازو کی حیثیت سے مختلف معرکوں میں عملی حصہ بھی لیا۔(جنگ آزادی نمبر،ماہنامہ ترجمان اہلسنّت کراچی،جولائی ۱۹۷۵ئ)
انقلاب کی چنگاری بجھنے کے بعد جب علما وقائدین انقلاب کی داروگیر کا سلسلہ شروع ہواتو مجاہدین کے لیے مالی امدادوتعاون پر مشتمل فتوی اور انقلابی سرگرمیوں کی پاداش میں مفتی صاحب کے خلاف انگریزوں نے مقدمہ چلایااور اس وقت کے عام دستور کے مطابق کچھ رسمی نمائشی عدالتی کاروائی کرکے آپ کو حبسِ دوام درجزیرۂ انڈمان (کالاپانی)کی سزا دی گئی۔جہاں آپ نے چار سال تک کسی طرح اپنے ایام اسیری کی مشقتیں جھیلیں۔ایک انگریز نے ’’تقویم البلدان‘‘ کی خواہش ظاہر کی جسے آپ نے قبول فرمایااور دوسال کی مدت میں اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔یہی علمی کام آپ کی رہائی کا سبب بن گیا اور ۱۲۷۷ھ/۱۸۶۰ء میں آپ جزیرۂ انڈمان سے رِہا ہوکر ہندوستان واپس آئے۔جزیرۂ انڈمان میں مفتی عنایت احمد کوروی وعلامہ فضل حق خیرآبادی کی تاریخی وعلمی خدمات کے بارے میں مولانا عبدالشاہد شیروانی لکھتے ہیں:علامہ (فضل حق)جزیرۂ انڈمان پہنچے۔مفتی عنایت احمدکاکوروی صدرامین بریلی وکول،مفتی مظہر کریم دریابادی اور دوسرے مجاہدین علما وہاں پہنچ چکے تھے۔ان علما کی برکت سے یہ جزیرہ دارالعلوم بن گیا تھا۔ان حضرات نے تصنیف وتالیف کا سلسلہ وہاں بھی قائم رکھا۔خرابی ِ آب وہوا،تکالیف شاقہ وجدائیِ احباب واعزہ کے باوجود علمی مشاغل جاری رہے۔(باغی ہندوستان)
کالا پانی میں مفتی صاحب نے سیرت النبی پر ایک مختصر ’’تواریخ حبیب الٰہ‘‘اور فن صرف کی کتاب ’’علم الصیغہ‘‘تحریر کی جو آج بھی مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ان کے علاوہ بھی آپ کی لکھی ہوئی لگ بھگ دودرجن کتابیں ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے مراجعت کتب کے بغیر محض اپنے حافظہ کی مدد سے ’’تواریخ حبیب الٰہ‘‘(اردو)اور ’’علم الصیغہ‘‘(فارسی)لکھی۔ہندوستان واپسی کے بعد جب ان دونوں کتابوں کا مواد اصل مراجع ومآخذ سے ملایا تو بالکل درست پایا۔ان حضرات کے سینے علم کے ایسے سفینے بن گئے تھے کہ تاریخی یادداشت ،ترتیب واقعات، قواعد فنون ، ضوابط علوم وغیرہ سبھی حیرت انگیز کرشمے دکھا رہے تھے۔علامہ فضل حق خیرآبادی نے بھی ایام اسیری میں ’’الثورۃ الہندیہ‘‘اور ’’قصائد فتنۃ الہند‘‘تحریرکیا تھا جو مفتی عنایت احمد کاکوروی کے ذریعہ ۱۲۷۷ھ میں اپنے فرزند مولاناعبدالحق خیرآبادی کے پاس بھیجا تھاجو پنسل اور کوئلے سے لکھے ہوئے مختلف پرچے تھے۔جن کو کئی ماہ کی محنت کے بعد درست اور مرتب کیاگیا۔ اس کتاب پر مولانا ابوالکلام آزاد نے تعارف لکھا اور مولانا محمد عبدالشاہد خاں شیروانی نے ۱۹۴۶ء کو ترجمہ کرکے شائع کیا۔
۱۲۷۷ھ/۱۸۶۰ء میں جزیرۂ انڈمان سے رہائی کے بعد مفتی صاحب نے کان پور کو اپنی دینی وعلمی آماج گاہ بنایااور مدرسہ فیض عام قائم کرکے درس وتدریس میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔اپنے مدرسہ فیض عام کانپور کی کچھ خدمت کرکے آپ حج وزیارتِ حرمین شریفین کی نیت سے حجاز مقدس کے سفر پر روانہ ہوئے۔آپ کو امیرالحجاج بنایاگیااور شوق ووارافتگی کے ساتھ ساراقافلۂ حجاج بحری جہاز سے سرزمین حجاز کی جانب روانہ ہوا۔اثنائے سفر ایک سخت چٹان سے آپ کا جہازٹکرایااور شدت ضرب سے پاش پاش ہوگیا۔باون سال کی عمر میں ۱۷؍شوال ۱۲۷۹ھ/۱۸۶۳ء میں آپ مع قافلۂ حجاج شہید اور غریق ِ رحمت ہوگئے۔
(ماخوذ: [۱] چند ممتاز علمائے انقلاب ۱۸۵۷،[۲]۱۸۵۷ء پس منظر وپیش منظر،از:علامہ یاسین اختر مصباحی صاحب[۳]باغی ہندوستان،از: مولانا محمد عبدالشاہد خاں شیروانی)
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.