You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
منصب امامت اور اسکی عظمت
اس مضمون میں ابھی تک آپ یہ جان چکے ہیں کہ امام ایک معلم ہے جو دین سکھاتا ہے ، نصیحت کرنے والا ہے جو راہ ِ راست پر چلانے کی انتھک کوشش کرتا ہے،ایک مصلح ہے جو ہمہ وقت اصلاح میں لگا رہتا ہے، عقلوں پر دنیا داری کے لگے ہوئے گردوغبار کو صیقل کرکے دینی رنگ بھرتا ہے، اور نفوس کا تزکیہ کرکےانکو اتنا ہموار کرتا ہے کہ اب ان میں اخلاق ِحمیدہ اور اقدارِ عظیمہ کے پودے بآسانی نشوونما پا سکتےہیں لہٰذااسکا دائرہ کار صرف اور صرف فریضئہ صلوٰۃ کی ادائگی تک محدود نہ رہا(اگرچہ یہ اسکی اہم ذمہ داری ہے ) بلکہ یہ دائرہ اپنے اندر عظیم وسعت اور بڑا پھیلاؤرکھتا ہے۔یہاںیہ سوال ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے ،کیا ہر امام یہ ذمہ داری پوری کر رہا ہے اسکا جواب انشاءاللہ آپ کو مضمون مکمل ہونے سے پہلےضرور مل جائےگا۔
اسلام نے جہاں امام مسجد کو عظمتوںاور رفعتوں کا تاج پہنایا ہے وہیں اسکے لئےکچھ ضابطے بھی مقررفرما ئےہیں جن میں سے کچھ تو شرط کی حد تک لازم ہیں کہ اگر امام میںوہ نہ پائی جائیں تو وہ بحثیت امام اسلام کو گوارا ہی نہیں ہے ۔ جیسے امام کا مسلمان،عاقل،بالغ مرد ہونا وغیرہ جنکی تفصیل فقہ کی کتابوں میں درج ہے۔اگر ہم اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث پاک کو زیر مطالعہ لائیں تو ہمیں ان خوبیوں کا بھی پتہ چلےگاجو ایک امام کے لائق تر ہیں،بلکہ وہ شان امامت ہے ۔
حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں
قوم کی امامت وہ شخص کرے جس کو سب سے زیادہ قرآن کا علم ہو اگر قرآن پاک کے علم میں سب برابر ہوں توپھر وہ امامت کرےجس کو حدیث کا سب سے زیادہ علم ہو اور اگر علم حدیث میں سب برابر ہوں تو جس شخص نے سب سے پہلے ھجرت کی ہو اور اگر ھجرت میں سب برابر ہوں تو جو سب سے پہلے اسلام لایا ۔ایک روایت میں اسلام کی جگہ یہ الفاظ ہیں جو عمر میں سب سے زیادہ بڑا ہو۔( صحیح المسلم کتاب المساجدباب من احق بالامامۃ)
یہ حدیث اگرچہ اس بارے میں وارد ہوئی ہے کہ امامت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے لیکن حضور کے اس فرمان سے ہمیں یہ ضرور معلوم ہو رہا ہے کہ اسلام کیسے شخص کی امامت کو سب سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔
مذکورہ حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث سے استخراج کرتے ہوئے فقہائے کرام نے مسئلہ بیان فرمایا: ’’لایقدم احد فی التزاحم الابمرجح‘‘ تزاحم کی صورت میں جو شرعی ترجیح رکھےگا وہی امامت کا زیادہ حقدار ہوگا ــ ـ ( الدر المختار ج ۱ ص ۶۰۱)
حدیث پاک اور اس فقہی ضابطے سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام نے ایک امامت کے شرائط کے ساتھ ساتھ دیگر شرعی ترجیحات کو بھی ملحوظ رکھا ہے ۔ اے کاش قوم مسلم بھی ان ترجیحات کو ملحوظ خاطر رکھتی تو شاید قوم کی حالت موجودہ بہترسے ہوتی۔
یقیناََ ہر مسلمان اس بات کا تو متمنی رہتا ہے کہ وہ تمام محاسن جن کا ابھی اوپر ذکر ہوا امام صاحب میں بدرجۂ اتم پائے جائیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ آپکی ہر چاہت مکمل ہوجائے اتنا ضرور ہے کہ جب انسان کسی چیز کو طلب کرتا ہے اور اسکی طلب سچی ہوتی ہے تو سب سے پہلے وہ اس راستے کا پتہ لگاتا ہے جو راستہ اسے مطلوب تک پہنچاتا ہے، پھر وہ اس راستے پر اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ چلنا شروع کرتا ہے رب کا کرم اگر شامل حال ہوتا ہے تو وہ اپنے مطلوب کو پالیتا ہے ،لیکن جب ہم اما م طلب کرتے ہیں تو اس راستے کو منتخب کرنےیا پھر اس راہ کی مسافرت کا حق ادا کرنے میں ہم غفلت کا شکار ہوتے ہیں اور ہماری چاہت نامکمل رہتی ہیں۔ہم اس غفلت کو اس کے مقام پر تفصیل سے بیان کریںگے۔ سردست ہم ائمہ کرام کی منصبی ذمہ داریوں سے متعلق کچھ گزارشات پیش کریںگے۔
جنکے رتبے ہیں سوا انکو سوا مشکل ہے: بالکل سیدھی سی بات ہے کہ انسان کو اپنی شخصیت کی تعمیراپنی ذمہ داری کے اعتبار سے کرنی پڑتی ہے ، ایک مکان بنانے والے کاری گر کو و ہ سب کچھ سیکھنا پڑتا ہے جس کی مکان بنانے میں ضرورت پیش آتی ہے صرف سیکھنے بھر سے کام نہیں چل جاتا، بلکہ میدان عمل میں اسے اپنے سیکھے ہوئے فن کے جوہر بھی دکھانا پڑتے ہیں، بلا تشبیہ و تمثیل امام نماز پڑھانے کے ساتھ ساتھ قوم اور اسکے بہتر مستقبل کی تعمیر کرتا ہے اب اس عظیم ذمہ داری سے عہدہ براں ہونے کے لئےجن اوصاف اور خوبیوں کا ہونا لازم ہے ایک امام میں وہ تمام تر خوبیاں پائی جانا اسکے منصب کا لازمی تقاضا ہے اس اجمال کی قدرے تفصیل آتی ہے۔
امام کا علم و تقوٰی : ہم جس زمانے میں جی رہے ہیں وہ زمانہ جدید عصری علوم کی برتری اور سائنسی ترقی کا دور ہے اس زمانہ میں جینے والے لوگ خصوصاََ نئ نسل کے دماغ پہلے کے لوگوں سے جدا ہیں پہلے کسی عالم کا کسی عقیدے یا مسٔلہ سے متعلق بیان قوم کی تسلی کے لئے کافی ہوتا تھا ، آج حالات بدل گئے بیان ختم ہوتے ہی نئ نسل کا ایک گروہ دلائل کا مطالبہ شروع کر دیتا ہےاور اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتا جب تک اسکے سامنے مسئلہ سے متعلق دلائل کی کتابوں کے نام ،جلد اور صفحات کو بیان نہ کر دیا جائے۔ بصورت دیگر ان نوجوانوں میں اس عقیدے یا مسئلے سے متعلق عدم اطمنان کی لہردوڑ جاتی ہے جسے انکی باتوں یا چہرہ کے جغرافیوں سے صاف محسوس کیا جا سکتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو بےاطمنانی کی لہریں انہیں گمراہی کے دریا میں ہمیشہ کے لئے غرق کر دیتی ہیں ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوم کاتعلق بحثیت رہبر و رہنما ایک امام کے ساتھ جتنا مضبوط و مستحکم ہے وہ نہ کسی پیر کے ساتھ ہے نہ کسی اور معظم دینی کےساتھ ، اسی طریقے سے جتنے معاملات قوم کے امام سے متعلق ہیں وہ کسی اور سے نہیں ۔ ان احوال کے پیش نظر امام کے علم و دانش کا معیار کیا ہونا چاہئے یہ بہت ہی سنجیدگی سے غور کرنے کا معاملہ ہے۔
امام کے لئےعلم کی پختگی کے ساتھ ساتھ سیرت و کردارکی شگفتگی بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ امام جو ایک داعی مبلغ اور قائدہے اسکے سیرت و کردار کی بھی وہی سطح ہو جو عام لوگوں کی ہے ،اسکی صلاحیت،تقویٰ اور طہارت کابھی وہی حال ہو جوعام لوگوں کا ہوتا ہے تو اسکو امام بننے یا کہلانے کا کیا حق پہونچتا ہے۔اگر طبیب میں بھی وہی جراثیم موجود ہوں جو عام مریضوں میں پائے جاتے ہیں تو طبیب کا علاج کبھی کار آمد نہیں ہو سکتا ۔
لہٰذا منصب امامت کا تقاضا یہی ہے کہ امام علم و عمل کا پیکر مجسم ہو ۔
عادت و اخلاق: اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی ذات اور مشن کی مقبولیت کا راز اپنے کلام معجز نظام میں یوں بیان فرماتا ہے ــ ـ’’ فبمارحمۃمن اللہ لنت لہم ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوامن حولک‘‘ ترجمہ : اے محبوب آپ اللہ کی رحمت سے لوگوں کے لئے نرم ہو گئے اور اگر آپ تند مزاج سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے ( آل عمران ۱۵۹ )
ٓٓٓآ یت پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت علامہ سید سعادت علی رقم طراز ہیں
پیارے! اللہ تعالیٰ کے بے شمار خصوصی انعامات میں سے آپ پر یہ بھی ایک انعام ہے کہ آپ نرم مزاج ہیں اگر آپ تند مزاج اور سخت دل ہوتے تو نہ موجودہ لوگ آپ پر جان نثاری کے لئے تیار ہوتے اور نہ ہی بعد میں آنے والےآپکے پیغام کو قبول کرتے اور آپ پر جانیں قربان کرتے ، کیونکہ انسان فطرۃ حسن پسند واقع ہو اہے اور زبا ن و دل کا حسن اس کی نرمی ہے ، جو بھی چاہتا ہےکہ لوگ اس سے متاثر ہوں وہ معاشرے میں عزت و وقار کی نظر سے دیکھا جائے اس کے لئے نا گزیر ہے کہ اسکی زبان سے انگارے نہیں بلکہ پھول جھڑیںیعنی اسکی گفتگو میں اس درجہ کی نرمی ہو کہ ہر شخص اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر آمادہ ہو جائے اور اسکا قلب اتنا نرم ہو کہ کسی کی معمولی تکلیف پر بھی تڑپنے لگے اور وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مجبور ہو ، اے پیارے محبوب علیہ الصلوٰۃوالسلام آپ کے اندر یہ خوبی آپ کی دیگر خوبیوں کی طرح پورے کمال کے ساتھ موجود ہیں ۔ اس لئے آپ محروم انسانیت لوگوں کو انسان اور انسان گر بنانے میں کامیاب ہوئے ۔ اور آپکے گرد جمع ہونے والے جس طرح آپ پر شیدا و فریفتہ ہیں اس کی نظیر کسی قائد رھبرکی تاریخ میں نہیں پائ جاتی ( یاایھاالذین امنوا ، ج ۱ ، ص ۴۳۱ )
نائبین نبی سے زیادہ اس وراثت کا مستحق اور کون ہو سکتا ہے ایک امام کویہی خوبیاںمقبولیت کا جامہ پہناتی ہیں، اسکی شخصیت و دعو ت کو مستجاب بناتی ہیں اور اسکی تقریر و تحریر میں وہ اثر پیدا کرتی ہیں کہ امام لوگوں کا محبوب نظر بننے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ایمانی اور عملی زندگی کو بہتربنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔
جاری۔۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.