You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آسمانی معجزات میں سے معراج کا واقعہ بھی بہت زیادہ اہمیت کاحامل اور ہماری مادی دنیا سے بالکل ہی ماوراء اور عقل انسانی کے قیاس و گمان کی سرحدوں سے بہت زیادہ بالاتر ہے۔
معراج کا دوسرا نام اسراء بھی ہے۔اسراء کے معنی رات کو چلانا یا رات کو لے جانا چونکہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے واقعہ معراج کو خداوند ِعالم نے قرآن مجید میں سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے اس لیے معراج کا ناماسراءپڑ گیا اور چونکہ حدیثوں میں معراج کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عُرِجَ بِیْ (مجھ کو اوپر چڑھایا گیا) کا لفظ ارشاد فرمایا اس لیے اس واقعہ کانام معراج پڑا۔
احادیث و سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کو بہت کثیر التعداد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ علامہ زرقانی نے ۴۵ صحابیوں کو نام بنام گنایا ہے جنہوں نے حدیث معراج کو روایت کیاہے (المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،المقصد الخامس فی تخصیصہ...الخ،ج۸، ص ۲۵۔۲۷)
"وہ سرورِ کِشورِ رِسالت ، جو عرش پر جلوہ گَر ہو ئے تھے
نئے نِرالے طَرَب کے ساماں عَرَب کے مہمان کے لیے تھے
معراج کب ہوئی؟
معراج کی تاریخ، دن اور مہینہ میں بہت زیادہ اختلافات ہیں۔ لیکن اتنی بات پر بلا اختلاف سب کااتفاق ہے کہ معراج نزول وحی کے بعداور ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے جو مکہ معظمہ میں پیش آیا اور ابن قتیبہ دینوری(المتوفی ۲۶۷ھ)اور ابن عبدالبر(المتوفی ۴۶۳ھ)اور امام رافعی وامام نووی نے تحریر فرمایا کہ واقعہ معراج رجب کے مہینے میں ہوا۔ اور محدث عبدالغنی مقدسی نے رجب کی ستائیسویں بھی متعین کر دی ہے اور علامہ زرقانی نے تحریر فرمایا ہے کہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے اور بعض مؤرخین کی رائے ہے کہ یہی سب سے زیادہ قوی روایت ہے۔ (زرقانی جلد ۱ ص ۳۵۵ تا ص ۳۵۸)
"خبر یہ تحویلِ مہر کی تھی ، کہ رُت سہانی گھڑی پھرے گی
وہاں کی پوشاک زیب تن کی ، یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے"
معراج کتنی بار اور کیسے ہوئی
جمہور علماء ملت کا صحیح مذہب یہی ہے کہ معراج بحالت بیداری جسم و روح کے ساتھ صرف ایک بار ہوئی جمہور صحابہ و تابعین اور فقہاء محدثین نیز صوفیہ کرام کا یہی مذہب ہے۔ چنانچہ علامہ حضرت ملا احمد جیون رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ (استاد اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ) نے تحریر فرمایا کہ
وَالْاَصَحُّ اَنَّہٗ کَانَ فِی الْیَقْظَۃِ بِجَسَدِہٖ مَعَ رُوْحِہٖ وَعَلَیْہِ اَھْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ فَمَنْ قَالَ اِنَّہٗ بِالرُّوْحِ فَقَطْ اَوْ فِی النَّوْمِ فَقَطْ فَمُبْتَدِعٌ ضَالٌّ مُضِلٌّ فَاسِقٌ (2)(تفسیرات احمدیہ بنی اسرائیل ص ۴۰۸)
اور سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ معراج بحالت بیداری جسم و روح کے ساتھ ہوئی یہی اہل سنت وجماعت کا مذہب ہے۔ لہٰذا جو شخص یہ کہے کہ معراج فقط روحانی ہوئی یا معراج فقط خواب میں ہوئی وہ شخص بدعتی و گمراہ اور گمراہ کن و فاسق ہے۔
---
"یہی سَماں تھا کہ پیکِ رَحمت ، خبر یہ لایا کہ چلیے حضرت
تُمہاری خاطِر کُشادہ ہیں جو ، کَلیم پر بند راستے تھے
---
دیدارِ الٰہی
کیا معراج میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خداوند تعالیٰ کو دیکھا؟ اس مسئلہ میں سلف صالحین کا اختلاف ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور بعض صحابہ نے فرمایا کہ معراج میں آپ نے اﷲ تعالیٰ کو نہیں دیکھا اور ان حضرات نے مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۱﴾ (پ۲۷،النجم:۱۱) کی تفسیر میں یہ فرمایاکہ آپ نے خدا کو نہیں دیکھا بلکہ معراج میں حضرت جبریل علیہ السلام کو انکی اصلی شکل و صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پرتھے اور بعض سلف مثلاً حضرت سعید بن جبیر تابعی نے اس مسئلہ میں کہ دیکھایا نہ دیکھا کچھ بھی کہنے سے توقف فرمایا مگر صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک بہت بڑی جماعت نے یہ فرمایا ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے سر کی آنکھوں سے اﷲ تعالیٰ کو دیکھا۔(شفاء جلد۱ ص ۱۲۰ تا ۱۲۱)
چنانچہ عبداﷲ بن الحارث نے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباس اور حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایک مجلس میں جمع ہوئے توحضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کوئی کچھ بھی کہتا رہے لیکن ہم بنی ہاشم کے لوگ یہی کہتے ہیں کہ بلاشبہ حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یقیناً اپنے رب کو معراج میں دو مرتبہ دیکھا۔ یہ سن کر حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس زور کے ساتھ نعرہ مارا کہ پہاڑیاں گونج اٹھیں اور فرمایا کہ بے شک حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا سے کلام کیا اور حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا۔
اسی طرح حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۱﴾ کی تفسیر میں فرمایا کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ''رَأیْتُ ربِّیْ'' یعنی میں نے اپنے رب کو دیکھا۔
محدث عبدالرزاق ناقل ہیں کہ حضرت امام حسن بصری اس بات پر حلف اٹھاتے تھے کہ یقینا حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اور بعض متکلمین نے نقل کیا ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی مذہب تھا اورابن اسحق ناقل ہیں کہ حاکم مدینہ مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ کیاحضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ''جی ہاں''
اسی طرح نقاش نے حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ آپ نے یہ فرمایا کہ میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے مذہب کا قائل ہوں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا، دیکھا ،دیکھا، اتنی دیر تک وہ دیکھاکہتے رہے کہ ان کی سانس ٹوٹ گئی۔(شفاء جلد۱ ص ۱۱۹ تا ص ۱۲۰)
صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شریک بن عبداﷲ نے جو معراج کی روایت کی ہے اس کے آخر میں ہے کہ
حَتّٰی جَآءَ سِدْرَۃَ الْمُنْتَھیٰ وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّۃِ فَتَدَلّٰی حَتّٰی کَانَ مِنْہُ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ۔(بخاری جلد ۲ ص ۱۱۲۰ با ب قول اﷲ: وکلم اﷲ ۔ الخ)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ پر تشریف لائے اور عزت والا جبار (اﷲ تعالیٰ) یہاں تک قریب ہوا اور نزدیک آیا کہ دو کمانوں یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا۔
بہرحال علماء اہل سنت کا یہی مسلک ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے شبِ معراج میں اپنے سر کی آنکھوں سے اﷲ تعالیٰ کی ذات مقدسہ کا دیدار کیا۔
اس معاملہ میں رویت کے علاوہ ایک روایت بھی خاص طور پر قابل تو جہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے محبوب کو اﷲ تعالیٰ نے انتہائی شوکت و شان اور آن بان کے ساتھ اپنا مہمان بنا کر عرش اعظم پر بلایا اور خلوت گاہ راز میں ۔۔۔۔۔کے نازو نیاز کے کلاموں سے سرفراز بھی فرمایا ۔مگر ان بے پناہ عنایتوں کے باوجود اپنے حبیب کو اپنا دیدار نہیں دکھایا اورحجاب فرمایا یہ ایک ایسی بات ہے جو مزاج عشق و محبت کے نزدیک مشکل ہی سے قابل قبول ہو سکتی ہے کیونکہ کوئی شاندار میزبان اپنے شاندار مہمان کو اپنی ملاقات سے محروم رکھے اور اس کو اپنا دیدار نہ دکھائے یہ عشق و محبت کا ذوق رکھنے والوں کے نزدیک بہت ہی ناقابل فہم بات ہے۔ لہٰذا ہم عشق بازوں کا گروہ تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرح اپنی آخری سانس تک یہی کہتا رہے گا کہ
؎ اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درو
(اعلیٰ حضرت رحمہ اﷲ تعالیٰ )
"اُٹھے جو قصرِ دنى' کے پردے ، کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
واں تو جاہی نہیں دُوئی کی ، نہ کہہ کے وہ بھی نہ تھے اَرے تھے
"حِجاب اُٹھنے میں لاکھوں پردے ، ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عَجَب گھڑی تھی کہ وصل و فُرقت ، جَنَم کے ِبچھڑے گلے مِلے تھے
مختصر تذکرۂ معراج
معراج کی رات آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گھر کی چھت کھلی اور ناگہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ساتھ نازل ہوئے
-----------------------------------------------------------------
"یہی سَماں تھا کہ پیکِ رَحمت ، خبر یہ لایا کہ چلیے حضرت
تُمہاری خاطِر کُشادہ ہیں جو ، کَلیم پر بند راستے تھے
-----------------------------------------------------------------
اور
آپ کوحرم کعبہ میں لے جا کر آپ کے سینہ مبارک کو چاک کیا اور قلب ِانور کو نکال کر آب ِزمزم سے دھویا پھر ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے ایک طشت کو آپ کے سینے میں انڈیل کر شکم کا چاک برابر کر دیا۔
پھر آپ براق پر سوار ہو کر بیت المقدس تشریف لائے۔
-----------------------------------------------------------------
"ابھی نہ آئے تھے پُشتِ زیں تک ، کہ سر ہوئی مغفرت کی شِلِّک
صدا شفاعت نے دی مُبارک ، گناہ مستانہ جھُومتے تھے"
-----------------------------------------------------------------
براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی۔
-----------------------------------------------------------------
"عجب نہ تھا رخش کا چمکنا ، غزالِ دم خوردہ سا بھڑکنا
شعاعیں بُکے اُڑا رہی تھیں ، تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے
"بُراق کے نقشِ سُم کے صدقے ، وہ گُل کِھلائے کہ سار ے رستے
مہکتے گلبُن لہکتے گلشن ، ہرے بھرے لہلہارہے تھے
-----------------------------------------------------------------
بیت المقدس پہنچ کر براق کو آپ نے اس حلقہ میں باندھ دیا جس میں انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے پھر آپ نے تمام انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کو جو وہاں حاضر تھے دو رکعت نماز نفل جماعت سے پڑھائی۔ (تفسیر روح البیان جلد ۵ ص ۱۱۲)
-----------------------------------------------------------------
. پرانے قبلے میں اپنے صادر ، ہوئے جو وہ شہسوارِ نادر
وہاں اِنھیٖں مقتدا کی خاطر ، کھڑے تھے سب اولین اکابر
یہ رمز پاتی نہ عقلِ قاصر ، ہُوا یہ نکتہ اِسی سے ظاہر
"نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سِرّ ، عیاں ہوں معنیِ اوّل آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر ، جو سلطنت آگے کر گئے تھے
-----------------------------------------------------------------
جب یہاں سے نکلے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے شراب اور دودھ کے دو پیالے آپ کے سامنے پیش کیے آپ نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ یہ دیکھ کر حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ نے فطرت کو پسند فرمایا اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔ پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ کو ساتھ لے کر آسمان پر چڑھے پہلے آسمان میں حضرت آدم علیہ السلام سے، دوسرے آسمان میں حضرت یحیی و حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے جو دونوں خالہ زاد بھائی تھے ملاقاتیں ہوئیں اور کچھ گفتگو بھی ہوئی۔ تیسرے آسمان میں حضرت یوسف علیہ السلام ،چوتھے آسمان میں حضرت ادریس علیہ السلام اورپانچویں آسمان میں حضرت ہارون علیہ السلام اورچھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ملے اور ساتویں آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی وہ بیت المعمور سے پیٹھ لگائے بیٹھے تھے جس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں۔ بوقتِ ملاقات ہر پیغمبر نے ''خوش آمدید! اے پیغمبر صالح ''کہہ کر آپ کا استقبال کیا۔ پھر آپ کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ اس کے بعد آپ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے۔ اس درخت پر جب انوار الٰہی کا پر توپڑا تو ایک دم اس کی صورت بدل گئی اور اس میں رنگ برنگ کے انوار کی ایسی تجلی نظر آئی جن کی کیفیتوں کو الفاظ ادا نہیں کر سکتے۔ یہاں پہنچ کر حضرت جبریل علیہ السلام یہ کہہ کر ٹھہر گئے کہ اب اس سے آگے میں نہیں بڑھ سکتا۔
-----------------------------------------------------------------
"تھکے تھے رُوحُ الاَمِیں کے بازو ، چُھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رِکاب چُھوٹی اُمید ٹُوٹی ، نِگاہِ حسرت کے ولولے تھے
-----------------------------------------------------------------
پھر حضرت حق جل جلالہٗ نے آپ کو عرش بلکہ عرش کے اوپر جہاں تک اس نے چاہا بلا کر آپ کو باریاب فرمایا
-----------------------------------------------------------------
"سُنا یہ اِتنے میں عرشِ حق نے ، کہ لے مبارک ہو تاج والے
وہی قدم خیر سے پھر آئے ، جو پہلے تاجِ شرَف تِرے تھے
"یہ سُن کے بے خُود پُکار اُٹھّا ، نِثار جاؤں کہاں ہیں آقا
پھر اُن کے تلووں کا پاؤں بوسہ ، یہ میری آنکھوں کے دن پِھرے تھے
"جُھکا تھا مجُرے کو عرشِ اَعلی' ، گِرے تھے سجدے میں بزمِ بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مَل رہا تھا ، وہ گِرد قُربان ہورہے تھے
-----------------------------------------------------------------
اور
خلوت گاہ راز میں نازو نیاز کے وہ پیغام ادا ہوئے جن کی لطافت و نزاکت الفاظ کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتی۔ چنانچہ قرآن مجیدمیں فَاَوْحٰۤی اِلٰی عَبْدِہٖ مَاۤ اَوْحٰی ﴿ؕ۱۰﴾ (1) کے رمزو اشارہ میں خداوند قدوس نے اس حقیقت کو بیان فرما دیا ہے۔
-----------------------------------------------------------------
"زبان کو انتظارِ گُفتَن ، تو گوش کو حسرتِ شُنیدَن
یہاں جوکہنا تھا کہہ لیا تھے ، جو بات سُننی تھی سُن چکے تھے"
-----------------------------------------------------------------
بارگاہ الٰہی میں بے شمار عطیات کے علاوہ تین خاص انعامات مرحمت ہوئے جن کی عظمتوں کو اﷲ و رسول کے سوا اور کون جان سکتا ہے۔
(۱) سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں۔ (۲) یہ خوشخبری کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی امت کا ہر وہ شخص جس نے شرک نہ کیا ہو بخش دیاجائے گا۔ (۳) امت پر پچاس وقت کی نماز۔
جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان خداوندی عطیات کو لے کر واپس آئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ سے عرض کیاکہ آپ کی امت سے ان پچاس نمازوں کا بار نہ اٹھ سکے گا لہٰذا آپ واپس جاےئے اور اﷲ تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کیجئے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے چند بارآپ بارگاہ الٰہی میں آتے جاتے اور عرض پرداز ہوتے رہے یہاں تک کہ صرف پانچ وقت کی نمازیں رہ گئیں اور اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے فرمایا کہ میرا قول بدل نہیں سکتا۔ اے محبوب ! آپ کی امت کے لیے یہ پانچ نمازیں بھی پچاس ہوں گی۔ نمازیں تو پانچ ہوں گی مگر میں آپ کی امت کو ان پانچ نمازوں پر پچاس نمازوں کااجرو ثواب عطا کروں گا۔
-----------------------------------------------------------------
"اِدھر سے تھیں نذرِ شہ نمازیں ، اُدھر سے انعامِ خُسروری میں
سلام و رحمت کے ہار گُندھ کر ، گُلوۓ پُر نور میں پڑے تھے
-----------------------------------------------------------------
پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عالم ملکوت کی اچھی طرح سیر فرما کر اور آیات الٰہیہ کا معاینہ و مشاہدہ فرما کر آسمان سے زمین پر تشریف لائے اوربیت المقدس میں داخل ہوئے اور براق پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے۔ راستہ میں آپ نے بیت المقدس سے مکہ تک کی تمام منزلوں اور قریش کے قافلہ کو بھی دیکھا۔ ان تمام مراحل کے طے ہونے کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد حرام میں پہنچ کر چونکہ ابھی رات کا کافی حصہ باقی تھا سوگئے اور صبح کو بیدار ہوئے اور جب رات کے واقعات کا آپ نے قریش کے سامنے تذکرہ فرمایا تو رؤسائے قریش کو سخت تعجب ہوا یہاں تک کہ بعض کو رباطنوں نے آپ کو جھوٹا کہا اور بعض نے مختلف سوالات کیے چونکہ اکثر رؤسائے قریش نے بار بار بیت المقدس کو دیکھا تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی بھی بیت المقدس نہیں گئے ہیں اس لیے امتحان کے طور پر ان لوگوں نے آپ سے بیت المقدس کے درودیوار اور اس کی محرابوں وغیرہ کے بارے میں سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے فوراً ہی آپ کی نگاہ نبوت کے سامنے بیت المقدس کی پوری عمارت کا نقشہ پیش فرما دیا۔ چنانچہ کفار قریش آپ سے سوال کرتے جاتے تھے اور آپ عمارت کو دیکھ دیکھ کر ان کے سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دیتے جاتے تھے۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ، کتاب الانبیاء ،کتاب التوحید، باب المعراج وغیرہ مسلم باب المعراج و شفاء جلد۱ ص ۱۸۵ و تفسیر روح المعانی جلد ۱۵ ص ۴تا ص ۱۰ وغیرہ کا خلاصہ)
سفر معراج کی سواریاں
امام علائی نے اپنی تفسیر میں تحریر فرمایا ہے کہ معراج میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پانچ قسم کی سواریوں پر سفر فرمایا
* مکہ سے بیت المقدس تک براق پر،
* بیت المقدس سے آسمان اول تک نور کی سیڑھیوں پر،
* آسمان اول سے ساتویں آسمان تک فرشتوں کے بازوؤں پر،
* ساتویں آسمان سے سدرۃ المنتہیٰ تک حضرت جبریل علیہ السلام کے بازو پر،
* سدرۃ المنتہیٰ سے مقام قاب قوسین تک رفرف پر۔ (تفسیر روح المعانی جلد ۱۵ ص ۱۰)
سفر معراج کی منزلیں
بیت المقدس سے مقام قاب قوسین تک پہنچنے میں آپ نے دس منزلوں پر قیام فرمایا اور ہر منزل پر کچھ گفتگو ہوئی اور بہت سی خداوندی نشانیوں کو ملاحظہ فرمایا۔
(۱)آسمان اول (۲)دوسراآسمان (۳)تیسراآسمان (۴)چوتھاآسمان (۵) پانچواں آسمان (۶) چھٹاآسمان (۷) ساتواں آسمان (۸)سدرۃ المنتہیٰ (۹) مقام مستویٰ جہاں آپ نے قلم قدرت کے چلنے کی آوازیں سنیں (۱۰) عرش اعظم
(2)(تفسیر روح المعانی جلد ۱۵ ص ۱۰)
=====
وه بُرجِ بطحا کا ماه پارا , بہشت کی سیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارا , کہ اس قمر کے قدم گئے تھے
.......
صلی الله علیه وآله وسلم
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.