You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
تھامس ایڈورڈ لارینس 1888 میں پیدا ہوا اور 1935 میں اپنی ساختہ موٹر سائیکل (انتہائی تیز رفتار انجن اس نے خود مرمت کیا تھا، ان دنوں دوسری ریٹائرمنٹ کے بعد اس کا یہی مشغلہ تھا) کے حادثے میں مرا
اس پر افسانوں کے علاوہ 1962 میں ایک فلم بنی "لارنس آف عریبیہ"
تاریخ نجد و حجاز، کتاب ميں اس فلم پر تنقید کی گئی ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کتاب علامہ غلام رسول سعیدی کی تصنیف ہے۔
مجھے 2010 میں ایک اردو کتاب "لارنس آف عریبیہ" ملی، وہ انگریزی کا ترجمہ تھا۔ اُسے اردو بازار سے چھاپا گیا تھا۔ یہ کتاب لارنس کے ایک دوست نے لارنس کی سوانح عمری کے طور پر لکھی تھی ۔
حسنین شاہ نے کہا تھا کہ یہ کتاب تو لارنس کو ایک طلسماتی شخصیت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اسے پڑھ کر قاری، لارنس کو ہیرو قرار دیتا ہے۔
پھر وہ کتاب میرا ایک خیرخواہ لے گیا اس کے گھر سے اس کی بہن لے گئی
[IMG]سچ تو یہ ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کے سقوط میں اکیلے لارنس نے وہ کردار کیا جو پانچ صدیوں سے لاکھوں کروڑوں فوجیوں پر مشتمل افواج کی جنگییں نہ کر پائیں۔
جدید عرب ممالک کے حدود اربع کے نقشے میں لارنس کا کردار پورے برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے زیادہ ہے۔
لارنس کے بارے ميں بہت سے افسانہ جات مشہور ہیں۔
ایک افسانہ یہ تھا کہ وہ افغانستان کے بادشاہ سے ملا تھا اور ملاقات کرکے فلاں فلاں سازشیں جنم دی تھیں۔
ایک افسانہ یہ تھا کہ وہ لاہور میں ایک طویل عرصہ تک جعلی پیر بن کے لوگوں کو بیوقوف بناتا رہا تھا۔
وہ برطانوی فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ "شاہ" کے نام بھرتی ہوگیا تھا
جارج برنارڈ شا نے اپنے نام کے ساتھ "شاہ" کا لاحقہ لارنس کی عقیدت میں لگایا تھا
وہ منفی درجہ حرارت میں کئی دنوں تک بھوکا اور ننگا زندہ رہ لیتا تھا۔ اور گرم جھلستے ریگستانوں میں پیاسا کئی روز زندہ رہ لیتا۔
پانی میں کئی گھنٹے سانس ڈوب کر زندہ رہ لیتا۔
وہ چاروں الہامی کتابوں کا حافظ تھا۔
اسے ایک لقب دیا جاتا تھا "درندے کی کھوپڑی میں دانشور کا دماغ"
وہ ایک ماہر آثار قدیمہ، ملٹری آفیسر (دوسری مرتبہ عام سپاہی) اور سفارت کار تھا
اس نے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کے لیے صحرائے سینا اور فلسطینی علاقہ جات میں عثمانی سلطنت کے خاتمے کیلئے عربوں کو بھڑکایا، مواصلات کے ذرائع خصوصاً ریلوے کی پٹڑیوں کو بموں کے ذریعے اس وقت اڑایا جب عثمانی افواج کے دستے ان جگہوں سے گزر رہے ہوتے، عربوں کو ترکی کی کاغذی کرنسی کے خلاف بھڑکا کر سونے کے سکوں کا لالچی بنایا، عرب قوم پرستی کا نعرہ لگوا کر مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کروایا، سازشوں کے لمبے چوڑے جال بننے میں کامیاب رہا
یہ پہلی عالمی جنگ کا دورانیہ تھا۔
مصر پر بھی برطانیہ کا قبضہ تھا اور قاہرہ میں ان کی افواج کا ہیڈ کوارٹر تھا ۔ لارنس ان سے تعلق رکھتا تھا مصر والی برطانوی ایجنسیاں عربوں کو خود مختاری کے نام پر گمراہ کر کے ترکی سے آزادی دلوا کر سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے کرنا چاہتی تھیں جبکہ متحدہ ہندوستان پر قابض برطانوی ایجنسی ایسی صورت حال کے اس لیے خلاف تھی کہ اگر عرب آزاد ہو گئے تو ہندوستانی لوگ بھی آزادی کے لیے بہت شدت سے مطالبہ کریں گے۔
اُدھر لارنس اینڈ کمپنی نے ترکی کے ٹکڑے کر کے جہاں جرمنی کو ناکوں چنے چبوا دیئے وہاں ساتھ ساتھ فرانس کو دھوکہ دے دیا اور عربوں کی آزاد حکومت کا ڈرامہ رچا دیا
دوسری جانب ہندوستان میں مقیم برطانوی ایجنسیوں نے آل سعود کے بدمعاشوں کو دوبارہ سے طاقتور بنا کر عرب نیشلزم کے لڑا دیا اور نجد و حجاز مقدس پر قومیت پرستی کی بجائے وہابی فرقہ پرستوں کی حکومت قائم کرا دی، اس ظلم کے بدلے آل سعود سے ایک آزاد یہودی ریاست کے قیام کے لیے فلسطین کی سرزمين پرقبضہ کرکے "ملک اسرائیل" ایک معاہدے پر دستخط کروائے جس کی رو سے فریقین (مملکت سعودی عرب اور ریاست اسرائیل) ایک دوسرے کی بقا کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.