You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
کیوں کہ ہم میلادی ہیں؟
*********************
رب تعالیٰ نے فرما یا کہ:
وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ O
ترجمہ کنز الایمان :اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو (ف۱۲)۔(پ ۳۰، الضحٰی:۱۱)
ف : (12) نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا فرمائیں اور وہ بھی جن کا حضور سے وعدہ فرمایا ۔ نعمتوں کے ذکر کا اس لئے حکم فرمایا کہ نعمت کا بیان کرنا شکر گذاری ہے ۔
سرکار علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے انبیاء کی امتیں اگر عبادت و اطاعت میں کوتاہی کرتیں تو اس کاخمیازہ ان کو فوری طور پر بھگتنا پڑتا حتی کہ ان کی عبادت گاہوں کے لیے مقامات بھی مخصوص تھے جہاں جا کر ان کو عبادت کرنا پڑتی مگر شاہ حجاز ﷺکی آمد بابرکات کی وجہ سے رب ذوالجلال نے پورے خطہ ارض کو ہمارے لیےپاک فرما کر مسجد بنا دیا ۔رب کعبہ کی قسم اگر سرکار علیہ الصلوۃ والسلام ہم گناہگاروں کے درمیان تشریف فرما نہ ہوتے تو آج ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے ہم پر بھی ابابیلیں کنکریاں برساتی، اوندھے منہ زمین پر پٹخ دیا جاتا ،شکلیں بدل دی جاتی ، بندر بنا دیا جاتا، ہوائیں لے اڑتیں، پانی میں غرق کر دیا جاتا۔
فرمان رسول صلى الله عليه وسلم: ميري حيات تمہارے لیے بہتر هے اور میرا رب سے وصال بھی تمہارے لیے بہتر ہے۔ تم ميرے ساتھ همکلام هوتے هو اورمیں تمہارے ساتھ اور قبر ميں تمہارے اعمال ميرے حضور پیش کیے جائیں گے اگر اچھے اور نیک هوئے تو رب کا شکر ادا کرونگا اور اگر اچھے نہ هوئے تو تمہارے لیے رب سے بخشش مانگ لوں گا۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے ، ترجمہ کنزالایمان:
او رہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے (ف۱۷۵)
اور
اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں (ف۱۷۶) تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں (ف۱۷۷)۔۔۔(پ:۵، سورہ:۴، آیہ:۶۴)
ف : (175) جب کہ رسُول کا بھیجنا ہی اس لئے ہے کہ وہ مُطَاع بنائے جائیں اور اُن کی اطاعت فرض ہو تو جواُن کے حکم سے راضی نہ ہو اُس نے رسالت کو تسلیم نہ کیا وہ کافر واجب القتل ہے۔
ف: (176)معصیت و نافرمانی کرکے۔
ف: (177)اس سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ الہٰی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ اور آپ کی شفاعت کار بر آری کا ذریعہ ہے سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات شریف کے بعد ایک اعرابی روضہء اقدس پر حاضر ہوا اور روضۂ شریفہ کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا یارسول اللہ جو آپ نے فرمایا ہم نے سُنا اور جو آپ پر نازل ہوا اس میں یہ آیت بھی ہے وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ کے حضور میں اللہ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا تو میرے رب سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تیری بخشش کی گئی۔
اس سے چند مسائل معلوم ہوئے :
۱: اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرضِ حاجت کے لئے اُس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا ذریعہ کامیابی ہے۔
۲: قبر پر حاجت کے لئے جانا بھی جَآءُ وْکَ ' میں داخل اور خیرُ القرون کا معمول ہے۔
مسئلہ: بعد وفات مقبُولان ِحق کو( یا )کے ساتھ ندا کرنا جائز ہے ۔
مسئلہ:مقبُولانِ حق مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے۔
تو کون ہے جو اپنے مالک کریم کا حکم ماننے سے انکار کرے اور تمام نعمتوںکا محور ذات اقدس جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا چرچا نہ کرے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک ۔ (پ:۳۰،سورۃ:۹۴،آیۃ:۴)
اور ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کردیا(ف۴)
ف : (4) حدیث شریف میں ہے سیّدِعالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت جبریل سے اس آیت کو دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر کیا جائے ۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اذان میں ، تکبیر میں ، تشہد میں ، منبروں پر ، خطبوں میں ۔ تو اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے ہر بات میں اس کی تصدیق کرے اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت کی گواہی نہ دے تو یہ سب بے کار وہ کافر ہی رہے گا ۔
قتادہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دنیا و آخرت میں بلند کیا ہر خطیب ہر تشہد پڑھنے والا اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کے ساتھ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ پکارتا ہے ۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے آپ پر ایمان لانے کا عہد لیا ۔
وہ کریم آقا ﷺ جن کے صدقے ہم سے آفات و بلائیں دور ہوئیں اور بے شک آپ ﷺ ہی ہماری بخشش کا سامان ہونگے۔ ان شاءاللہ
اس سرکار عالی وقار ﷺ کا میلاد ہم کیوں کر دھوم دھام سے نہ منائیں:
حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائش مولا کی دھوم :::: مثل فارس نجد کے قلعے گراتے جائیں گے
خاک ہو جائیں عدو جل کر مگر ہم تو رضا :::: دم میں جب تک دم ہے ذکر ان کا سناتے جائیں گے
آج ہم ماہ ربیع النو ر میں برقی قمقمے لگا کر، چراغاں کر کے محافل سجا کر، نعت خوانی کر کے، بیان سن کر، اپنے زعم میں سمجھتے ہیں کہ ہم نے محبت رسول ﷺ کا حق ادا کر دیا۔ارے دوستو! ہم کیسے ’’میلادی ‘‘ ہیں کہ ساری رات نعتیں سنی ، بیان سنے، نعرے لگائے ،خوشی منائی مگر یہ کیسا عشق ہے کیسی محبت ہے؟ ساری رات اتنے بلند و بانگ دعوے کہ: غلامی رسول ﷺ میں موت بھی قبول ہے ، جو ہو نہ عشق مصطفی ﷺ تو زندگی فضول ہے۔ مگر جب نماز کا وقت آتا ہے تو غلامی رسول ﷺ میں موت قبول کرنے والے نیند قبول کر کے شیطانی وار کے اندھے کنوئیں میں غرق ہو جاتے ہیں۔ مؤذن الصلوۃ خیرمن النوم کہتا رہ جاتا ہے، مگر ! شرم ہم کو مگر نہیں آتی۔
سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان عالیشان ہے کہ:
مجھے تمہاری دنیا میں سے تین چیزیں محبوب ہیں: خوشبو ،عورتیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز بنائی گئی۔
(سنن النسائی، کتاب عشرۃ النسآء، باب حب النسآء، الحدیث۳۳۹۱/۳۳۹۲،ص۲۳۰۷)
مگر کیا جس کی خاطر یہ روشنی کی وہ ہم سے خوش ہوا؟ نہیں ہرگز نہیں کیوں کہ وہ مبارک ہستی کہے نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور ہم خود ہی یہ کہہ کر سب نمازیں ہی معاف کرا لیتے کیوں کہ’’ ہم میلادی ہیں ‘‘۔ ہم میں سے کتنےہیں جو ربیع النور کے جلوس میں توشرکت کرتےہیں، مگر ہائے افسو س کہ اس دن بھی نماز کے وقت جلوس کے راستے میں آنے والی مساجد ہماری لاپرواہی کا رونا روتے روتے اگلی نماز کے وقت کی منتظر ہوتی ہیں۔
ایک ایک نماز کی پوچھ کل حشر میںہوگی اسکی کوئی معافی نہیں ۔کیا ہی اچھا ہو ہم عیدمیلاد النبی ﷺ کاجلوس جس شان سے نکالیں اسی شان سے اپنی مساجد بھی آباد کریں۔
ان گنت لنگرجلوس محفل میلاد النبیﷺمیں تقسیم ہوتاہے، مگر ہم میں سے کتنےہیں جو دعوت عام ہونے کے باوجودپھٹے پرانے کپڑے پہنے غریب شخص کو سب سے پہلے لنگر دیتےہیں؟ اسے یا توآخر تک انتظار کرتا پڑتا یا بچا ہوا پلیٹوں میںپڑا لنگر اس کے پیٹ کی بھوک مٹا نے کے کام آتا ہے۔اور اس سے بھی بڑا ظلم ہم کرتے کہ لنگر کو شاپنگ بیگز یا تھرموکول کے ڈبوںمیں ڈال کر تقسیم کرتے ہیں جو کے لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے زمین پر بکھر جاتا ہے۔
دوستو۔۔! کیا اُس وجہ تخلیقِ کائنات نے پھٹے پرانے کپڑوں والے غلام کو سب سے یکتہ نہیں کردیا کہ اگر وہ غلام آذان فجر نہ دے تو رات اپنی تنہائیوں بھری آغوش سمیٹنے کو راضی نہیں ہوتی۔تو پھر ہم کیوں نہ دنیاوی رتبے کو چھوڑ کر سنت ِحبیب اﷲﷺ کو اپنا ئیں۔اگر ہم اپنے مہمانوں کو آرام سے بیٹھا کر کھانا کھلا سکتے تو لنگرِمیلاد آقا کے مہمانوں کو بیٹھا کے کیوں نہیں کھلا سکتے ؟
جہاںمرد حضرات بے پردہ خواتین کو اپنے ساتھ لگائے شرکت کرتے ہیں تووہیں چند غلط عناصرکا شرکاء کو اپنے طرف راغب کرنے کے لیے چال چلن ہی انوکھا ہوتا ہے اور ہم سب جانتے ہوئے بھی ان کی طرف کھچے چلے جاتے ہیں۔بینڈ باجے والے بے دھڑک جلوس میں اپنی کاروائی زوروشور سے جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں کیوں کہ’’ ہم میلادی ہیں‘‘۔کیا رب تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے وسیلہ سے ہمیں خواتین کے پردہ کا حکم نہیں دیا۔کیا نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اس بینڈ باجے سے دور رہنے کا حکم نہیں دیا،کیوں ہم اس بابرکت دن وہ کام کرتے ہیں جس سے اﷲ تعالیٰ اور اس کے نبیﷺ نے سختی سے منع کیا؟
ہم محافل میلاد میں شرکت کرتے ہیں ، پانچ چھ گھنٹوں تک جاری رہنے والی محافل میں مشہور نعتوں کا گلدستہ تو ہم باربار سننے کو تیاررہتے ہیں۔ مگر جب کوئی عالم دین ذرا سی اپنی تقریر دوہرا دے تو فوراََ بول اٹھتےہیں کہ وہی پرانی تقریر!
نعتیں تو ہم سب کو یاد مگرہم میں سےکتنے ہیں جو میلاد النبیﷺ کو قرآن و حدیث کی روشنی سے ثابت کرسکیں ؟جب کوئی بد مذہب اس بارے پوچھ لے تو ہم میں سے کتنےہیں جن کو سوا لڑائی کے اور کچھ نہیں آتا۔جہاں لاکھوں روپے ہم نعت خوان حضرات کو دینے کو تو تیاررہتے ہیں مگر وہیں محافل میلاد میں مدعوکیے جانے والے علماء گھنٹوں بس سٹاپ یا کسی کے گھر بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمیں محفل تک پہنچا دے۔آخر کیوں؟ کیوں کہ’’ ہم میلادی ہیں‘‘۔
گو کہ نعت خوانی بھی سنت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہے مگر رسول اﷲ ﷺ نے جن علماء دین کو انبیاء کا وارث قرار دیا ان سے دور ہو کر رسوائی کے سواکیامل سکتا ہے؟۔کیوں نہ جس طرح آقا ﷺ کے نعت خواں کو عزت بخشی جاتی ہے اس سے بڑھ کر آقاﷺ کے دین کے علمداروں کو ، آقا کے وارثوں کو عزت دیں ۔
ٓآخر میں صرف ایک بات ان سے جن کو ہمارے عید میلادالنبی ﷺ منانے پر اعتراض ہے کہ بھائی آقاﷺ ہمارے،پیسےہمارے، اب ہم اپنے آقاﷺ کے میلاد پر اپنا پیسہ خرچ کریں یانہ کریں، ہم جانیں ہمارےآقاﷺ جانیں اور آقا ﷺ کا رب جانے ،ہم پھر بھلے دوزخ جائیں یا جنت جائیں، تم اپنے کا م سے کام رکھو۔اور تمہارا کام تو جلنا ہے تو جلتے رہو۔
ً!!!! کوئی سڑدا اے سڑ جاوے کوئی مردا اے مر جاوے !!!!
ً!!!! سنیاں نے تے گج وج کے میلاد منانا ہے !!!!
پیارے آقا کے غلاموں! آئیں ہم مل کرمیلاد النبیﷺ کے حوالے سے ان چند خامیوں کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کریں اوردوسروں کو بھی ان سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔اﷲ تعالیٰ اپنے پیارے حبیبﷺ کے صدقے ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.