You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
ـــــــــــــــ ــــــــــ ـــــــــــــ
اس روئے زمین پر جب ظلم و ستم عروج پر تھا ہر سمت تاریکی پھیلی ہوئی تھی شعور انسانی سے لوگ غافل ہو چکے تھے لات و عزٰی و دیگر بتوں کی بت پرستی عام تھی قتل و غارت گری زناکاری حرام خوری اپنے شباب پر تھی اس دور پُرخطر میں تاریک دنیا کو روشن بنانے کیلئے راہ ہدایت دکھلانے کیلئے گمراہ قوم کو صراط مستقیم پر چلانے کیلئے عرب کی سر زمین پر ایک سورج طلوع ہوا ؟ مرحبا مرحبا صلی علٰی کا نعرہ کب لگا آئیے ہم سب اس کی تاریخ سے آشنا ہو جائیں حضور سیدنا سرکار دو عالم کی تاریخ پیدائش 12 ربیع النور مطابق اپریل 571 بروز دوشنبہ ہے۔ (سیرت رسول عربی ص30)
علماء متقدمین و متاخرین و محدثین نے بارہ ربیع النور کو ہی میلاد رسول قرار دیا دور جدید کے بعضاسلامی تاریخ کے سیاح ماہرین فلکیات اور بعض علماء نے 9 ربیع النور کی تاریخ بھی بیان کی ہے لیکن 12 ربیع النور کے دن کی تائید مندرجہ ذیل روایت سے مفصل طور پر معلوم ہوتی ہے جیسا کہ حضرت ابن اسحٰق کی مشہورو معروف روایت ہے، “ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین عشرۃ لیلۃ خلت من شھر ربیع الاول عام الفیل۔“ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ص158،ج1 )
ترجمہ:- رسول اللہ پیر کے دن بارہ ربیع الاول عام الفعل میں زینت آرائے بزم کائنات ہوئے۔ جدید تحقیق اور مورخین و محدثین کی روایات کے مطابق وہ مبارک گھڑی جب آفتاب نبوت حضرت سیدہ آمنہ کی گود میں جلوہ فگن ہوا اور خاتم الانبیاء کی آمد سے حضرت عبداللہ کا گھر نور سے چمکا وہ روشن گھڑی اپنے نظام الاوقات کے مطابق چار بجکر بیس منٹ کا وقت تھا رات ظلمتوں کو اپنے دامن میں لپیٹ کرجا رہی تھی اور افق خاور کی دہلیز پر سپیدہ سحر دن کے اجالے کرہء ارضی پر بکھیرنے کیلئے بیقرار تھا۔ ویسے تو کائنات ارضی و سماوی نے کئی صبحیں اس طرح طلوع ہوتے دیکھی ہونگی مگر آج کی سہانی صبح اپنے دامن میں جس روشنی کو لیکر طلوع ہو رہی تھی وہ نہ کبھی پہلے ہوئی اور نہ قیامت تک ہوگی۔بیشک صبح کی وہ گھڑی پورے زمانے کا خلاصہ اور قابل فخر لمحات اور بلاشبہ وہ لمحات اس قابل ہیں کہ پوری عقیدت سے ان کی نسبت یوں کہیں
جس سہانی گھڑی چمکا
طیبہکا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
(آعلٰی حضرت فاضل بریلوی)
پرچم لہرانے گئے
روشنیوں، قمقوں اور چراغوں کے علاوہ میلادالنبی کے جشن میں جھنڈیاں بھی لائی جاتی ہیں کیا ان کا کہیں سے ثبوت بھیملتا ہے؟
اگر ہم بنظر غائز مطالعہ کریں تو تاریخ و سیر کی کتابوں میں ہیں حضرت سیدہ آمنہ سے منقول روایت اس کی شہادت فراہم کرتی ہے کہ اس وقت بھی اللہ تعالٰی کے حکم سے جشن میلاد میں جھنڈے لہرائے گئے۔ آپ فرماتی ہیں۔ فکشف اللہ عن بصری فرایت مشارق الارض ومغاربھا ورایت ثلثۃ اعلام مضروبات علما بالمشرق علما بالمغرب وعلما علی ظھر الکعبۃ۔ (انوار محمدیہ ص33، سیرت الحلبیہص109)
ترجمہ:- پھر اللہ تعالٰی نے میری آنکھوں سے حجاب اٹھا دئیے تو مشرق تا مغرب تمام روئے زمین میرے سامنے کر دی گئی جس کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا نز میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے ایک بجانت مشرق نصب کیا گیا تھا دوسرا مغرب میں اور تیسرا پرچم کعبۃ اللہ کی چھت پر لہرا رہا تھا۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے میلادالنبی کے موقع پر مشرق و مغرب اور کعبہ کی چھت پر جھنڈے لہرائے تو اگر کوئی غلام اپنے آقا کے جشن ولادت کے پُرمسرت موقع پر جلسہ و جلوس کرکے اپنی عقیدت کا اظہار کرتا ہے یہ بہتر ہی نہیں بلکہ افضل در افضل ہے اور علماء کرام نے بھی بڑے اہتمام کے ساتھ عید میلادالنبی کے موقع پر جسن کا کام انجام دیا ہے جن کے نام بطورتصدیق سرفہرست ہیں۔
حضرت علامہ سیدنا جلال الدین سیوطی، حضرت علامہ عبدالحق محدث دہلوی، حضرت عبدالرحیم محدث دہلوی، حضرت علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت شاہ سیدنا امام احمد رضا بریلوی، حضرت مولانا فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین و دیگر تمام علماء عظام عید میلاد النبی پر جلوس محمدی کو باعث خیرو برکت اور اس کو اسلام کی عظمتسمجھتے اور متعدد جگہوں پر پابندی کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونے کی تاکید بھی کرتے رہے۔ لٰہذا عصر حاضر اور اسکے تقاضے مد نظر رکھتے ہوئے ہم تمام مسلمانوں کو بارہ ربیع الاول کے مہتمم بالشان موقع سے بھرپور فیضیاب ہوناچاہئیے اور جشن ولادت سرکار دو عالم کا علم لیکر جلوس محمدی میں کافی تعداد میں شرکت کرنا چاہئیے۔ اور عید میلادالنبی اپنے اپنے گھروںمیں کرانی چاہئیے تاکہ اس سے غیر مسلم بھی سبق آموز ہو اور اس پر اپنا رعب و دبدبہ ہو اللہ تعالٰی ہم سب کو دارین میں میلاد کے خیرو برکات سے مالامال فرمائے۔ آمین
تاکہ تاریخ ولادت کو نہ بھولیں نسلیں
بزم میلاد نبی یوں ہی سجائے رکھئے
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.