You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
جب جرم کیلئے لوگ اجازت طلب کرنے لگیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تحریر :۔محمد احمد ترازی
بائیس سالہ ریاض ملتان کا رہنے والا ہے جو اِس امید پر اپنے گھر سے ہزاروں میل دور کراچی آیا کہ یہاں محنت مزدوری کرکے اپنے بوڑھے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کا انتظام بہتر کرسکے گا،لیکن اُس کے یہ خواب خواب ہی رہ گئے،کراچی جیسے شہر میں چھ ہزار روپئے ماہانہ کی نوکری میں کرائے پر رہنا اور پیٹ کی آگ بجھانا بہت مشکل کام ہے،بھلا بوڑھے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی کفالت کیسے ہوسکتی ہے،دن رات محنت مشقت کرنے کے بعد بالآخر ریاض کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اُس کی تمام تر کوشش کے باوجود اُس کے اور اہل خانہ کے حالات میں کوئی تبدیلی آتی دکھائی نہیں دیتی ۔
یہی حال 55سالہ بزرگ مزدور زین شاہ ہے،جو سائٹ کی ایک دوا ساز کمپنی میں کام کرتے ہیں اور سلطان آباد میں رہتے ہیں،بڑھتی ہوئی مہنگائی نے اُن کی زندگی عذاب بنادی ہے،بچے اپنی تعلیم کو خیر آباد کہہ کر مختلف فیکٹریوں میں کام کررہے ہیں، لیکن اِس کے باوجود گھر کے ا خراجات پورے ہونے کا نام نہیں لیتے،کرائے کے مکان میں رہنے والے سات بچوں کے باپ لعل زادہ کا کہنا ہے کہ وہ طویل عرصے سے سائٹ میں واقع ایک میڈیسن کمپنی میں 9ہزار ماہوار پر کام کررہا ہے،گذشتہ دس برسوں کے دوران اُس کی تنخواہ میں صرف 4ہزار روپئے کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اِس کے مقابلے میں اخراجات میں کئی گنا بڑھ چکے ہیں،لعل زادہ کے نزدیک اِن حالات میں بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے اخراجات پورے کرنا ناممکن ہوگیا ہے ۔
نوجوان نذر کا تعلق مالاکنڈ ڈویژن کے ضلع دیر سے ہے،ابھی وہ میڑک کا طالبعلم تھا کہ عسکریت پسندوں نے اُس کے والد کو زخمی کردیا،جس سے وہ محنت مزدوری کے قابل نہ رہے،تعلیم ادھوری چھوڑ کر ڈیڑھ سال قبل نذر سات افراد پر مشتمل کنبے کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائے کراچی آگیا،لیکن آج تک اُسے کوئی مستقل روزگار نہیں مل سکا،بلکہ اکثر اوقات مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے اُسے بھوکا ہی سونا پڑتا ہے،ایسی صورت میں وہ اپنے گھروالوں کیلئے کیا بھیجے ۔
قارئین محترم یہ اُن دوہزار لوگوں میں سے چند لوگوں کی زندگی کی مختصرکہانیاں ہیں،جو حالات سے تنگ آکر گذشتہ دنوں ایک معروف دینی ردسگاہ میں علمائے دین اور مفتیان کرام کے پاس یہ درخواست لے کر پہنچے کہ انہیں شریعت مطہرہ کی روشنی میں حرام اور ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے کی اجازت دی جائے کیونکہ وہ اب اپنے اہل خانہ کو مزید صعوبتیں برداشت کرتا نہیں دیکھنا چاہتے،اِن لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر انہیں اجازت نہیں ملی تو وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوجائیں یا پھر بھوک سے موت اُن کا مقدر ہوگی ۔
یہ ملک کے اُن لاکھوں کروڑوں لوگوں میں شامل وہ چند لوگ ہیں،جو خط غربت سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں،جو اشیاءخودونوش اور روزمرہ استعمال کی دیگر بنیادی اشیاءمیں روز بروز اضافے سے تنگ آچکے ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جو مکان کا کرایہ، بجلی کا بل اور پانی کا بل ادا کرتے ہیں تو کھانے کو کچھ نہیں بچتا،یہ وہ لوگ ہیں جو ڈیوٹی پر آنے جانے کیلئے چار پانچ کلومیٹر پیدل سفر کرکے کرایہ بچاتے ہیں لیکن اِس کے باوجود اِن کے بچوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی،یہ وہ لوگ ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ یا روزانہ اجرت اِس قدر قلیل ہے کہ مہنگائی کے طوفان کا مقابلہ کرنا اِن کے بس سے باہر ہوگیا ہے،یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھروں میں فاقے ہورہے اور علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اہل خانہ اِن کی آنکھوں کے سامنے سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں ۔
اِن سائلین کا کہنا ہے کہ جب اسلام بھوک کی موت مرنے سے بچنے کیلئے سُور کا گوشت کھاکر زندگی بچانے کی اجازت دیتا ہے اور خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے،تو کیا وہ اِس دلیل کو سامنے رکھتے ہوئے چوری،ڈکیتی یا دیگر ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ مال حرام سے اپنے اور اہل خانہ کے پیٹ کی آگ بجھاسکتے ہیں،فتویٰ کی درخواست لے کر آنے والے اِن سائلین کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی تنظیموں،نام نہاد اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقے کو اپنے دکھڑے سنا سنا کر تھک چکے ہیں اور اب مجبور ہوکر علماءکرام کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں کہ ایسی صورت میں اسلام انہیں اِس بات کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ اور اگر اِن میں سے کوئی حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایسے کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اُس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
ایک طرف جہاں اِن سائلین کے سوال نے علمائے کرام اور مفتیان دین کو مشکل امتحان میں ڈال دیا ہے وہیں عوام کا علماءسے جرائم کیلئے اجازت کا طلب کرنا حکومت وقت کیلئے کسی انتباہ اور طمانچے سے کم نہیں،بنیادی طور پر عوامی حقوق کی حفاظت اور انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے جس میں ہماری حکومت قطعی طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے،ایک طرف غربت ،بھوک اور بیروزگاری کے باعث لوگوں کا زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے تو دوسری جانب حکمرانوں کی سرپرستی میں سرکاری وسائل کو بے دریغ لوٹا جارہا ہے،حکمرانوں کی عیاشیاں اور شاہ خرچیاں ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آرہی،ہر روز دو ارب روپے کے نوٹ چھاپے جارہے ہیں جس سے افرا ط زر میں اضافہ اور مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے،اِن حالات میں اگر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے حلال روزی کمانے والے افراد جرم کی اجازت طلب کرنے لگیں تو یقینا یہ حکمرانوں کیلئے باعث شرم اور ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
عامة الناس کی معاشی ضروریات کی تکمیل حکومت وقت کا اوّلین فرض اور بنیادی ذمہ داری میں شامل ہے،
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
”انی حریص علی ان لا اری حاجة“ ”
میں چاہتا ہوں کہ کسی محتاج کی کوئی حاجت باقی نہ رہے“،
آپ فرماتے ہیں
”میری مملکت کے ہر فرد کی ہر قسم کی کلّی ذمہ داری مجھ پر ہے،
اسلامی حکومت پر لازم ہے کہ بھوکے کو روٹی،بے خانماں کو مکان اور ننگے کو کپڑے پہنچائے،ہم پر لازم ہے کہ رعایا کو خوشحال کریں،اُن کی ضروریات کا خیال رکھیں،یہ نہ ہو کہ حکومت بھی قائم ہو اور غربت و افلاس بھی عوام کو تنگ دستی کی چکی میں پیستے رہیں‘‘آپ فرماتے ہیں ”اگر دریائے نیل کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرجائے تو روز محشر مجھے اُس کا جواب دینا ہوگا“
حقیقت یہ ہے کہ اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے رعایا کے حقوق بلاتفریق رنگ و مذہب تمام لوگوں کو عطا کئے،خلفائے راشدین کے دور میں کفالت عامہ کی ذمہ داری صرف مسلمان شہریوں تک محدود نہ تھی،بلکہ غیر مسلم عوام کی معاشی ضروریات کا بھی خیال رکھا جاتا تھا،جس کا اندازہ ہم سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے اوپر بیان کئے گئے ارشاد سے لگاسکتے ہیں،عام لوگوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے کیلئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اعلان عام کررکھا تھا کہ”ومن اراد ان یسال عن المال فلیاتنی فان اللہ جعلنی خازناً و قاسماً“یعنی جو مال مانگنا چاہے وہ میرے پاس آئے کیونکہ اللہ نے مجھے اُن کے مال کا تقسیم کنندہ اور خزانچی بنایا ہے۔“حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے ماتحت حکام کو بھی لوگوں کی ضروریات کا احساس دلاتے رہتے تھے،بصرہ کے گورنر حضرت ابو موسیٰ الاشعری کو حکم دیا کہ ”الا واوسعو الناس فی بیوتھم واطعمو اعیالھم“سنو ! لوگوں کے گھروں میں اُن کیلئے فراخی کا سامان پیدا کرو اور اُن کے متعلقین کو راحت دینے کا انتظام کرو ۔“
اَمر واقعہ یہ ہے کہ رعایا کی مجموعی حالت کے بارے میں خلفائے راشدین ہمیشہ پریشان رہتے تھے،اُن کا منشا یہ تھا کہ ریاست کاہر فرد اعلیٰ معیار زندگی اپنائے، پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور میں غربت اور تنگ دستی کے خاتمے کے بعد جب مسلمانوں کو خوشحالی میسر آئی تو اِس خطرے کے پیش نظر کہ ریاستوں کی آمدنی کا اکثر حصہ چند خاندانوں تک محدود نہ ہوجائے،خلفائے راشدین نے اعلیٰ معاشی اصول قائم فرمائے،پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ خلفاءکسی بھی صورت میں معاشی عدم توازن کو برداشت نہ کرتے تھے،وہ جس علاقے کو اسلام کی دولت سے بہرہ ور کرتے،وہاں کی تمام معاشی اور اقتصادی ضروریات کا سب سے پہلے خیال کرتے،اُن کا مقصد ہر علاقے سے مال غنیمت حاصل کرنا نہیں تھا،بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں اور ستم رسیدہ اقوام کی خوشحالی اور انہیں فراخی عطا کرنا ہوتا تھا ۔
اُن کے کسی عمل سے ایسا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا کہ انہوں نے معاشی رعایتوں کے معاملے میں کبھی مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کی ہو،وہ مجموعی طور پر مملکت کے لوگوں کی حالت کا خیال رکھتے تھے،جب کہیں سے انہیں کوئی اطلاع ملتی کہ وہاں لوگ معاشی تنگ دستی میں مبتلا ہیں وہ بے چین ہوجاتے،کیونکہ اُن کے پیش نظر ہمیشہ پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک ہوتا تھا ”ما من امّتی حد ولی عن امر النا س شیئاً لم یحفظھم بما حفظہ بہ نفسہ واھلہ الالم یجدرائحة الجنة“”میری اُمت میں سے کوئی شخص لوگوں کے معاملات کا نگران بنا اور اُس نے اُن کے معاملات کی اس طرح حفاظت نی کی جس طرح اپنی اور اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتا ہے تو جنت کی خوشبو نہیں پاسکے گا۔“
ان ارشادات کی روشنی میں ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے اور اپنے انسانیت کش اعمال سے پناہ مانگتے ہوئے اِس جمہوریت کی غا صب طرز زندگی پر غور کرنا چاہیے،کیا یہ بھوکے،ننگے اور بے بس لوگ اِس ملک کے باشندے نہیں ہیں،جو زندگی اور مو ت کی کشمکش میں مبتلا ہیں،جو عبرت ناک، ٹیکس کلچر کے ڈسے ہوئے ہیں، جواسی طرح ملک اور شہر کی ملوں،فیکٹریوں اور کارخانوںمیں اتنی کم تنخواہ پر کام کررہے ہیں کہ اگر وہ منہ میں نوالہ ڈ ا ل لیں،تو جسم ننگے،اور اگر جسم ڈ ھانپیں تو پیٹ خالی،اِن کے ظالم مالکان انتہائی کم اجرت پر اِن سے کام لیتے ہیں،مہنگائی، غربت اور افلاس کا اژدہا اُن کا خو ن چو س رہا ہے ۔
وہ سسک سسک کر زندگی گذار رہے ہیں،دوسری طرف ننانوے فیصد عوام کا خون پینے والا وہ عیاش،غاصب سپر نیچرل طبقہ ہے ،جو بد مست ہا تھی کی طرح ملک کے شاہی محلوں میں عیاشیاں کررہا ہے، سرکاری خزانے کو آ گ لگارہا ہے،شاہی گاڑیوں میں دندناتا پھر رہا ہے،ٹیکسوں اور مہنگائی کے کلچر سے کسانوں،مزدوروں اور غریبوں کی محنت و مشقت کی کمائی اور ملکی دولت،قومی خزانہ اور وسائل کو لوٹ رہا ہے،عوامی حقوق اور مساوات کوقتل کررہا ہے،عدل و انصاف کا خون کررہا ہے،ملک کا خزانہ اور قومی وسائل،اِن کرگسوں،گدھوں، درندوں اور بھیڑیوں کے قبضے میں ہے ،اگر یہ کسی اللہ اور اُس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمرانی کو تسلیم کرنے والے امین و صالح حکمران کے ہاتھ میں ہوتا، تو یقینا عدل وانصاف ہر اہل وطن کو بلا معاوضہ،بغیر کسی اخراجات اور پریشانی کے اُس کے دروازے پر میسر آتا ۔
آج اگرمعاشی اعتدال اورسماجی انصاف ملک میں قائم ہو تاتو ملک کے مفلوک الحال عوام اِس کسمپرسی کی حالت میں ہر گز نہ ہوتے،نہ یہ تفا وت پر مبنی جمہوریت کا باطل اور غاصب نظام ہوتا اور نہ ہی یہ فاسق و فاجر، ظالم و جابر اور غلام حکمران ٹولہ ہوتا،یہ سب اللہ کی ناراضی کی واضح علامات ہیں،حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ” اللہ فرماتا ہے جب میں تم پر تم سے بہتر لوگوں کو حاکم بناؤں تو اِس بات کی علامت ہے کہ میں تم سے راضی ہوں اور جب میں تم پر تم سے بدترین لوگوں کو حاکم بناؤں تو یہ اِس بات کی علامت ہے کہ میں تم سے ناراض ہوں۔“
حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا”یہ اُمت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور تائید میں رہے گی جب تک کہ اِس اُمت کے قراء،حکمرانوں کی طرف مائل نہ ہوں گے اور نیک لوگ فاسقوں اور فاجروں کو پاک و صاف نہ بتائیں گے اور اچھے لوگ برے لوگوں کی چاپلوسی نہیں کریں گے،جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ اپنی تائید اٹھالے گا اور پھر جابر اور ظالم لوگ اُن پر تکلیف دہ عذاب مسلط کریں گے،پھر (وہ) فقروفاقہ کا شکار ہوجائیں گے۔“
یہ درست ہے کہ آج ہماری شامت اعمال ہمیں اِس نہج پر لے آئی ہے،لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سے زیادہ اِس المناک صورتحال کے ذمہ دار ہمارے ارباب اختیار ہیں،جنھوں نے اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے،اگر اب بھی ہمارے حکمران اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لاتے اور اپنی روش نہیں بدلتے تووہ دن دور نہیں جب جرائم کی آگ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔
آج مہنگائی کے ہاتھوں مجبور افراد کا علماءسے ناجائز کاموں کی اجازت کا طلب کرنا،ارباب اقتدار،ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور فلاحی و رفاعی تنظیموں کیلئے لمحہ فکریہ ہے،ہماری نظر میں جرم کیلئے شرعی اجازت کا طلب کرنا ارباب اقتدار،سیاسی جماعتوں اور طبقہ اشرافیہ سے عوام کی بڑھتی ہوئی مایوسی کا عکاس اور انہیں متنبہ کرر ہاہے کہ ملک کے غریب اور مفلوک الحال طبقے کی بہتری کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں،وگرنہ یہی مزدور مختلف جرائم کا سہارا لے کر اپنے خاندان کی کفالت کو جائز سمجھنے لگیں گے اور پھر اِس آگ میں جلنے سے ملک کا کوئی طبقہ بچ نہیں پائے گا،یاد رکھیں جب معاشرے میں لوگ جرم کرنے کیلئے مذہبی حوالے سے اجازت طلب کرنے لگیں تو سمجھ لیجئے کہ تباہی و بربادی آپ کے دروازے پر دستک دے رہی ہے ۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.