You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اسلامی مضاربت کے نام پر نیا فراڈ۔۔۔۔۔
تحریر۔محمد احمد ترازی
تازہ ترین خبر کے مطابق پانچ سو ارب سے زائد کے مضاربہ اسکینڈل کے مرکزی ملزم مفتی احسان سے نیب نے تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور تحقیقات کا اختیار ملنے کے بعد نیب نے ملزم مفتی احسان کے خلاف ریفرنس داخل کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے،واضح رہے کہ مفتی احسان نے سود سے پاک مضاربہ اسکیم کے نام پر سادہ لوح افراد سے 220 ارب سے زائد رقم بٹوری تھی،
خبر کے مطابق 25 ستمبر کو نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے ایک اہم اجلاس کے بعد ڈی جی نیب راولپنڈی کرنل (ر) صبح صادق نے مفتی احسان سے تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا۔ کرنل (ر) صبح صادق نے کا کہنا ہے کہ ملزم کی طرف سے متاثرین کو رضاکارانہ طور پر رقم کی واپسی ممکن نظر نہیں آ رہی، لہٰذا ملزم کی طرف سے مایوسی کے بعداُس کے خلاف آرڈیننس 1999 کے تحت مقدمے کی کارروائی شروع کر رہے ہیں، انکوائری کا اختیار ملنے سے قبل ڈی جی کو نیب کے قانون (A)1999 25 NAO کے تحت یہ اختیار تھا کہ وہ ملزم کی طرف سے رقم کی رضاکارانہ طور پر واپسی کی صورت میں اُسے رہا کر سکتے تھے،چنانچہ 18جون کو ڈی جی نیب نے ملزم کے ساتھ 546 ملین روپے کی رضاکارانہ واپسی کا معاہدہ کرکے اُسے رہا کر دیا گیا تھا، تاہم مفتی احسان کو ماہانہ 10 کروڑ روپے حسب وعدہ ادا نہ کرنے پر دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ڈی جی نیب راولپنڈی کے مطابق مفتی احسان کے خلاف نیب کو دوبارہ 3700 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مفتی احسان نے مضاربہ فراڈ کے ذریعے _¿ اُن سے4 ارب روپے ہتھیا لئے ہیں ، خیال رہے کہ مفتی احسان اکیلا شخص ہے جو مضاربہ متاثرین کے 220 ارب روپے لوٹ کر چلتا بنا،جبکہ اِس اسکینڈل میں شامل چند دوسرے گروپوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور متاثرین سے سود سے پاک جعلی منافع بخش سکیم کے نام پر 500 ارب سے زائد رقم لوٹی ہے۔دوسری جانب نیب کو دیگر مضاربہ گروپوں الیگزر،میزان اور البراکہ کے خلاف ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اِن گروپوں نے ایک افغان ہیروں کے ا سمگلر کے ساتھ مشترکہ کاروبار پر تمام پیسہ لگا رکھا ہے،ہیروں کے اِس افغان سمگلر کا ایک ساتھی تھائی لینڈ کا رہنے والا ہے،جسے نیب نے دیگر 13 ایجنٹوں کے ہمراہ تحقیقات کیلئے 24 ستمبرکو نوٹس بھیجا تھا، مگر اُس نے نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکارکر دیا، ڈی جی نیب نے بتایا کہ انہوں نے مضاربہ اسکینڈل میں ملوث کچھ طاقتور شخصیات کی بھی نشاندہی کی ہے، جنھیں چیئرمین نیپ کی تقرری کے بعد شامل تفتیش کیا جائے گا۔باخبر ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیب نے اربوں روپے کے مضاربہ اسکینڈل کی تحقیقات کا دائر ہ وسیع کر دیاگیا ہے اوروسیع پیمانے پر تحقیقات کیلئے ڈی جی راولپنڈی کرنل (ر) صبح صادق کی سربراہی میں پانچ رکنی ٹیم تشکیل دے دی ہے،جو عنقریب مضاربہ گروپ کے چیئرمین مولانا ایوبی کی گرفتاری کیلئے دبئی روانہ ہوگی،ساتھ ہی الیگزر گروپ کے ایک اور اہم کردار مفتی ابراہیم جو اِس وقت ایف آئی اے کی تحویل میں ہے، سے نیب تحقیقات میں مصروف ہے۔
قارئین محترم! دین کے نام پر غریب و سادہ لوح عوام کو لوٹنے کا یہ طریقہ واردات نیا نہیں ہے، ماضی میں بھی ایک مخصوص مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اِس قسم کی دھوکہ دہی،فراڈ اور لوٹ مار میں ملوث ر ہے ہیں،الائینس گروپ اور ٹی جے ابراہیم اینڈ کمپنی وغیرہ کے نام آج بھی آپ کی یادداشت میںمحفوظ ہونگے،مگراِس مرتبہ پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے مضاربہ اسکینڈل کے مرکزی کردار مفتی احسان کے ساتھ وابستہ بعض بڑی بڑی شخصیات اورمفیان کرام کے نام بھی سامنے آرہے ہیں،جس میں خاص طور پر جامعہ بنوریہ کراچی کے ریئس مفتی نعیم،اُن کے بیٹوں،بھائی اور مفتی عبداللہ شوکت کے ساتھ کئی مشہور علماءکرام شامل ہیں،گو مفتی نعیم اور جامعہ بنوریہ اخبارات میں اشتہارات وغیرہ کے ذریعے اِس اسکینڈل سے اپنی برات کا اعلان کرچکے ہیں،جبکہ کچھ مدرسوں اور دارالعلوم کی جانب سے بھی وضاحتیں سامنے آئی ہیں، تاہم اِس کے باوجود بعض افراد کا دعویٰ ہے کہ اُن کے پاس اِن مفتیان کرام کی جانب سے دیئے گئے فتوے اور اُن سے ہونے والی گفتگو کی ویڈیو موجود ہے،چنانچہ اِس تناظر میں ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِس حوالے سے شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے تاکہ اصل حقائق قوم کے سامنے آسکیں۔
اِس تمام قضیئے میں سب سے زیادہ قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ اِس مخصوص مکتبہ فکر سے وابستہ مفتی اور علماءکے گروپ نے مختلف جعلی کمپنیوں ( البرکہ مارکیٹنگ،الیگزر گروپ وغیرہ ) کا سہارا لے کر مضاربہ اور مشارکہ کے نام پر ہزاروں شہریوں سے کھربوں روپئے ہڑپ کرلیے ہیں،اِن جعلی کمپنیوں نے ملک اور ملک سے باہر مبینہ طور پر ایسے منصوبوں میں کھربوں روپئے کی سرمایہ کاری ظاہر کی ہے، جن کا زمین پر کوئی وجود ہی نہیںہے،صرف ایک الیگزر نامی کمپنی نے نصف درجن کے قریب منصوبوں میں 7 ارب سے 26 ارب کی سرمایہ کاری کا دعویٰ کیا ہے،جس میں موٹر سائیکل تیار کرنے والی فیکٹری کے منصوبے پر ایک کھرب 30ارب روپئے دکھائے گئے ہیں،اِس مقصد کیلئے لاہور کے قریب 45 ایکٹر زمین کی خریدی ظاہر کی گئی ہے،لیکن فیکٹری کہاں ہے کسی کو نہیں معلوم۔اسی طرح الیگزر نے فضائی کمپنی کا منصوبہ بھی شروع کیاجس پر41ارب لگانے اور کمپنی کے فلیٹ میں بوئنگ 737شامل کرنے کا دعوی کیا گیا،مگریہ بوئنگ کس ائیر پورٹ سے اڑتا ہے، کہاں جاتا ہے اور کون لوگ اِس میں سفر کرتے ہیں،کوئی نہیں جانتا۔الیگزر کا دعویٰ ہے اُس نے فاسٹ موونگ کنزیومر گڈز پر ایک سو کروڑ امریکی ڈالر یعنی 95 ارب روپئے سے زائد کی سرمایہ کاری کی،جبکہ حصص کی مالیت 3 کھرب 80 ارب روپئے ہے،لیکن زمین پر یہ منصوبہ ہنوز لاپتہ ہے۔
اِس کے علاوہ الیگزر گروپ،الیگزر جوسز،الیگزر منرل واٹر،الیگزر انرجی مشروبات،الیگزر چائے وغیرہ بنانے کا بھی دعویٰ کرتاہے مگر یہ تمام چیزیں آپ کو کسی مارکیٹ میں نظر نہیں آئیں گی،ساتھ ہی اِس گروپ کی جانب سے الیگزر الیکٹرونکس،الیگزر انرجی سیور اور گھریلوں استعمال کی اشیاءفریج ،ٹی وی وغیرہ بنانے کا بھی دعویٰ موجود ہے،لیکن تحقیقاتی رپورٹ کہتی ہیں کہ اِن تمام کمپنیوں کاسرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے،اِسی طرح الیگزر نے ”سکون سٹی “ کے نام سے رہائشی منصوبے لاہور،اسلام آباد اور راولپنڈی میں شروع کرنے کیلئے 2500ایکٹر اراضی حاصل کرنے کا بھی دعویٰ کیاہے،مگر یہ زمین کہاں ہے ،الیگزر کے لاہور آفس کو بھی نہیں معلوم۔ساتھ ہی اِس گروپ کا کہنا ہے کہ اُس نے بھاری سرمایہ کاری سے ایتھوپیا میں ایک لاکھ ایکٹر اراضی کی خرید اری کی ہے،اِس گروپ نے ایک چننگ اور سپننگ فیکٹری بھی خریداری میں ظاہر کی ہے، جس کی پیداوار تاحال صفر ہے،حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کمپنی نے اِن منصوبوں پر خرچ کی گئی رقم ظاہر نہیں کی ہے،البتہ بعض دیگر منصوبوں پر کھربوں روپئے کی سرمایہ کاری دکھائی گئی ہے،قابل ذکر بات یہ ہے کہ اِن کمپنیوں میں کیپ ایبل ایشیا الیگزر،آصف جاوید ٹریڈ کمپنی،حبیب کارپوریشن،میزان،سپیڈکس،ایم ایم قریشی پرائیوٹ لمیٹیڈ،الغفار ایسوسی ایشن،شفیق کیبل مرچنٹ،گرین کارپوریشن،المسلم ٹریڈنگ کمپنی، الحاشر مضاربہ کمپنی،البرکہ مضاربہ کمپنی اور مسیحا انٹر پرائزز وغیرہ بھی شامل ہیں،جنھیں سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے مضاربت کی اجازت نہیں ہے اورنہ ہی اِن کمپنیوں نے خود کو درست طریقے سے رجسٹرڈ کروایاہے،مگر اِس کے باوجود اسلامی مضاربت اور شراکت کے نام پر اِن کمپنیوں نے عوام سے کھربوں روپئے ہتھیالیے ہیں۔
اِس حوالے سے قومی روزنامے میں شائع ہونے والی رپورٹ کہتی ہے کہ ” 850 افراد نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے رجوع کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کے ساتھ 500 ملین روپے کا فراڈ کیا گیا، رپورٹ مزید بتاتی ہے کہ اِس کیس میں مفتیوں کی صرف ایک کمپنی ملوث ہے جو مضاربہ اور مشارکہ کے نام سے کاروبار کر رہی ہے،اِس بات کی بھی اطلاعات ہیں کہ مفتیوں کے مختلف گروپ مختلف کمپنیوں کیلئے کام کرتے ہیں، لیکن، چیئرمین نیب کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے ادارے نے فی الحال صرف ایک گروپ کے خلاف تحقیقات کی ہیں،رپورٹ کے مطابق سود سے پاک اسلامی سرمایہ کاری کے نام پر مفتیوں کے ایک گروپ نے ماہانہ 6 سے 8 فیصد منافع پر مضاربہ اسکیم میں پیسے لگانے کا لالچ دے کر مبینہ طور پر شہریوں کی ایک بڑی تعداد کا استحصال کیا ہے،اِن مفتیوں پر بھروسہ کرکے بہت سی خواتین نے اپنے زیورات اور لوگوں نے جائیدادیں اور کاروبار بیچ کر مضاربہ کمپنی میں سرمایہ کاری کی اور اپنی جمع پونجی اِس امید پر اِن حضرات کے حوالے کردی کہ سود سے پاک اچھا منافع کما سکیں گے۔
جبکہ نیب ذرائع کے مطابق اُسے مفتی احسان الحق اور اُن کے گروپ کے خلاف شکایت موصول ہوئی جو نفع نقصان کی بنیاد پر عوام کے پیسوں پر کاروبار کرتے تھے، اِس گروپ کو عوام نے مضاربہ کے نام پر پیسے دیئے، جس کے پاس کوئی اتھارٹی یا اجازت نامہ نہیں تھا اور یہ بطور مضاربہ کمپنی سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے پاس رجسٹر بھی نہیں تھی، اِس شکایت کی وجہ سے نیب نے باقاعدہ تحقیقات شروع کردیں اور عوام کی آگاہی کیلئے نیپ نے ایک اشتہار بھی شایع کروایا کہ عوام مذکورہ کمپنی میں سرمایہ کاری نہ کریں اور جن لوگوں کو پہلے ہی ٹھگ لیا گیا ہے، وہ اپنے دعوے نیب کے پاس درج کروائیں،چنانچہ گزشتہ ماہ کے وسط تک 856 افراد نے نیپ سے رابطہ کرکے اپنے دعوے درج کرائے،جبکہ بہت سے متاثرین ایسے بھی ہیں،جنہوں نے اِن کمپنیوں میں لاکھوں کروڑوں میں سرمایہ کاری کی ہے، وہ اپنی شکایات نیب میں درج کرانے سے اِس لیے ہچکچا رہے ہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ ادارہ اُن لاکھوں کروڑوں روپے کے ذرائع آمدنی سے متعلق اُن کے خلاف بھی تحقیقات شروع نہ کردے جو انہوں نے فراڈ مضاربہ اسکیم میں منافع کیلئے لگائے تھے۔“
ابتدائی تحقیقات کے بعد نیب کو یہ بھی معلوم ہوا کہ مفتیوں کے اِس گروپ نے بدنیتی کے تحت عوام سے بطور مضاربہ کمپنی اپنی رجسٹریشن کا معاملہ بھی چھپایا اور عوام سے بھاری رقوم وصول کیں اور انہیں میسرز فیاضی گوجرانوالہ انڈسٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ (جو کہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ ہے اور اِس کے پاس مضاربہ کمپنی چلانے کا اختیار نہیں ہے)کے نام سے رسیدیں جاری کیں،چنانچہ عوامی شکایات پر نیب نے مفتی احسان کو گرفتار کرلیا،جہاں ملزم نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999ءکی شق25 اے کے تحت رضاکارانہ طور پر رقم واپس کرنے پر آمادگی ظاہر کی،چنانچہ 18جون کو نیب نے ملزم کی VR کی درخواست قبول کر لی اور اِس حوالے سے 55 کروڑ 20 لاکھ روپے کی مجموعی رقم میں سے ملزم نے 44 لاکھ 60 لاکھ روپے کے 20 پے آرڈر جمع کرادیئے اور ملزم کی درخواست پر باقی رقم ایک ماہ بعد ادا کرنے کی اجازت دی گئی،جبکہ ملزم کی 6 غیر منقولہ جائیدادوں کے کاغذات بھی نیب نے اپنے پاس بطور ضمانت رکھ کر اُسے رہا کردیا تھا۔باخبر ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ مفتی احسان کی کمپنی کے علاوہ بھی دیگر دو کمپنیاں اسی طرح کے غیر قانونی دھندے میں ملوث ہیں،اِس حوالے سے ایک متاثرہ شخص کا کہنا ہے کہ اُس نے مفتی عثمان نامی شخص کی کمپنی میں 2 کروڑ روپے لگائے جو مفتی عثمان نے ربا فری (سود سے پاک) کاروبار کے نام پر حاصل کئے تھے،اِس متاثرہ شخص کے مطابق کئی اعلیٰ علماءاور مذہبی گروپس کا نام بھی اِس کاروبار میں لیا جاتا ہے۔
باخبر ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں اِس اسکینڈل کے نمایاں کرداروں میں مفتی احسان الحق 280 ارب سے زائد،زید شاہان صدیقی المعروف سیٹھ میمن ڈیفنس والا 125 ارب، شفیق الرحمن 80 ارب سے زائد اورمفتی اسامہ ضیاء20 ارب سے زائدکے فراڈمیں ملوث ہیں،اسی طرح مختلف چھوٹے گروپ بھی ہیں،جن کا فراڈ کروڑوں میں بتایا جاتاہے،جبکہ مفتی اسامہ ضیاءکا فراڈ چند ماہ قبل ہی راولپنڈی میں منظر عام پر آیاہے،جس کے بعد یہ شخص مفرور اور ایک اطلاع کے مطابق پاکستان سے فرار ہوچکاہے،ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ مفتی احسان الحق اور مفتی اسامہ ضیاء10سے 20 فی صد تک منافع اپنے ایجنٹوں کو دیتے اور وہ ایجنٹ 5 سے 15فی صد تک عوام کو منافع کی مد میں ادا کرتے تھے،یوں یہ منافع عام بینکوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھا،اعتماد وبھروسہ حاصل کرنے کیلئے فراڈکرنے والوں نے ابتدائی طورپر لوگوں کو بروقت ادائیگیاں بھی کیں، جس سے لوگوں کا اعتماد بڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے طول وعرض میں یہ وبا پھیل گئی،اگرچہ فراڈ میں ملوث افراد اور ادارے رقوم کے لین دین کیلئے بینکوں کو ذریعہ بناتے تھے، لیکن یہ کسی ادارے کی بجائے انفرادی ناموں کو استعمال کرتے تھے ، جبکہ ایجنٹ رقوم کے حصول کے لیے بینکوں یا دیگر ذرائع پر انحصار کرنے کے بجائے نقد رقم پر توجہ دیتے اور متاثرین کو کو ئی مصدقہ ثبوت فرائم کرنے کی بجائے اپنے نام نہاد اداروں کی پرنٹ شدہ رسیدیں دیتے،جبکہ بعض تو کوئی ثبوت بھی نہیں دیتے اور اگر کوئی مطالبہ کرتا تو کہا جاتا اگر آپ کو اعتماد نہیں تو اِس کاروبار میں شرکت نہ کریں،یہ وہ طریقہ واردات تھا جس نے عوام کو مزید گمراہ کیا،یہی وجہ ہے کہ متاثرین کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے، جن کے پاس اپنی انویسمینٹ کے حوالے سے کوئی ثبوت ہی موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ نہ کسی جگہ اپنی رقم کی وصولیابی کا دعویٰ کرسکتے اور نہ ہی قانونی طور پر اُن کی داد ر سی آسان ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ ساری مشکوک سرگرمیاں دیوبندی مکتبہ فکر اور اِس مکتبہ فکر کی ” تبلیغی جماعت“ کا نام استعمال کرکے کی گئیں اوراِن لوگوں نے مضاربت کے نام پر پاکستان کے بڑے بڑے مدارس سے فتاوی بھی لیے ،جنھیں دکھا کر یہ لوگ باآسانی لوگوں کواپنے جال میں پھنسا لیتے تھے،مگرقابل غور پہلو یہ ہے کہ جس وقت یہ کام عروج پر تھا اُس وقت تبلیغی جماعت سمیت تمام ذمہ داران خاموش تھے ،لیکن اب بھانڈہ پھوٹنے کے بعدیہ لوگ اِس کاروبار سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں،اِس کے ساتھ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اِن جعلی مضاربہ کمپنیوں کے فرنٹ مین کے طور پر جو لوگ سامنے آئے اُن کا تعلق بھی اِس مخصوص مکتبہ فکر اور تبلیغی جماعت سے ہے،مثال کے طور پر تبلیغی جماعت کے ایک دیرینہ ساتھی مفتی ضیاءالحسن جن کا تعلق راولپنڈی کے مشہور و معروف تبلیغی مرکز ”ذکریہ“ مسجد سے ہے اور جو الیگز ر گروپ کی تخلیق کار، روح رواںاور ابتدائی طور پر مضاربہ کار کے طور پر سامنے آنے والے مفتی اسامہ ضیاءاور مفتی احسان ضیاءکے والد ہیں،جبکہ ناصر لالیکا مفتی اسامہ ضیاءاور مفتی احسان ضیاءکا برادر نسبتی ہے،اِن حضرت نے اسلام آباد،راولپنڈی کے علماءاور مدارس پر توجہ مرکوز کی اور دیکھتے ہی دیکھتے مفتی اسامہ ضیاءنے اپنے ہم مسلک نوعمر مفتیوں،مدارس کے اساتذہ اور خطباءکو مڈل مین بنا کراُن لوگوں تک رسائی حاصل کرلی یہ جواپنا سرمایہ سودی کاموں میں تو نہیں لگانا چاہتے تھے مگر اپنے سرمائے سے غیر معمولی منافع حاصل کرنے میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔
ایسے لوگوں تک رسائی کیلئے مفتی اسامہ اور اُن جیسے لوگوں نے دینی طبقے سے وابستہ حلقہ اثر رکھنے والوں لوگوں کو بطور ایجنٹ استعمال کیا،اِن میں اسلام آباد راولپنڈی کے علاوہ دوسرے شہروں کے بیسیوں خطیب،آئمہ مساجد اور مدارس کے اساتذہ بھی شامل ہیں،اِس طرح یہ لوگ محض چند برسوں کے دوران کھربوں روپے اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگئے اور لوگوں نے اِ ن کے جھانسے اورپر کشش منافع کے لالچ میں اپنی زمینیں،زیورات،رہائشی مکانات،مال مویشی فروخت کر کے تمام جمع پونجی اِن مفتیوں کے حوالے کردی،اسی طرح ہزارہ ڈویڑن کے چھ اضلاع میں فراڈ اور نوسربازی میں ملوث مفتیوں اور قاریوں کا تعلق بھی اسی مکتبہ فکر ہے،اِس کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً پنجاب اور سرحد کے بڑے شہروں میں جعلی مضاربہ کاروبار کرنے والی کمپنی کیپ ایبل ایشیا کے کرتا دھرتاوں میں بھی اِس جماعت سے وابستہ اہم لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں،یوں ضلع اٹک کی 5 تحصیلوں سے 200 ارب روپئے اکٹھے کرنے والے مفتی بشیر،مفتی عبدالرافع،مفتی عبدالخالق،مفتی اسامہ،مفتی احسان ضیاءاور ناصر لالیکا سمیت اِس کاروبار سے منسلک 95 فی صد افراد کا تعلق اسی مکتبہ فکر سے ہے،جبکہ ضلع دیر لوئر کی عوام بھی تبلیغی جماعت سے وابستہ کچھ افراد کے ملوث ہونے کی وجہ سے اپنی تمام جمع پونجی اِس اَن دیکھے کاروبار میں جھونک کر اپنی زندگی برباد کرچکے ہیں ۔
قارئین محترم ! اَمر واقعہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر کارباری مشارکت اور مضاربت کا یہ عمل اسلام کے وضع کردہ اصولوں پر نہیں بلکہ فراڈ اور دجل و فریب کی بنیادپر شروع کیا گیا تھا،جس کی وجہ سے حالیہ مضاربہ اسکینڈل ملکی کی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی اسکینڈل بن کر سامنے آیاہے،اِس اسکینڈل کے تمام مرکزی کردار دینی حال،حلیہ،حوالہ اور تعلق رکھنے کی وجہ سے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناکر کھربوں روپئے لوٹ چکے ہیں،لباس خضر میں ملبوس اِن نوسرباز مفتیوں اور قاریوں کے اِس شرمناک طرز عمل کی وجہ سے ناصرف اسلام اوراسلامی اسلامی تعلیمات کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اِن کے اس غیر دینی طرز عمل سے اُن مکتبہ فکر جو اِس قسم کے مضاربتی اور مشارکتی معاملات سے قطعی لاتعلق ہیں، کی نیک نامی اور شہرت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے،دوسری جانب اِس فراڈ ،لوٹ مار،دھوکہ دہی اور جعل سازی کی وجہ سے عوام کا اُن پر سے اعتماد وبھروسہ بھی مجروع ہوا ہے،لہٰذا حکومت وقت ،ارباب اختیار قومی احتساب بیورو اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں کی اوّلین ذمہ داری بنتی ہے کہ دین کی آڑ میں اِس سنگین فراڈ میں ملوث تمام خفیہ اور ظاہری کرداروں کو بے نقاب کرکے قوم کے سامنے لایا جائے،ساتھ ہی متاثرین اسکینڈل کی ڈوبی ہوئی رقوم کی واپسی کے انتظامات کیے جائیں اور اِس فراڈ میں ملوث تمام غاصبوں کو کڑی سے کڑی سزا دے کر نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کسی مذہبی حال،حلیئے اور حوالہ رکھنے والے شخص کو یہ جرات نہ ہوسکے کہ وہ اسلام کے نام پر سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیل سکے اور اُن کے اعتماد و بھروسے کا خون کرسکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.