You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اما م اعظم ابو حنیفہ اور فقہی بصیرت
راقم الحروف:۔ محمدبرھان الحق جلالیؔ(جہلم)
------------------------------------------------------
نام :۔
نعمان بن ثابت، کنیت :۔ابو حنیفہ، لقب :۔امام اعظم
-------
ولادت:۔
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت ٨٠ھ کو کوفہ میں ہوئی۔
-------------
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت:۔
جس دور میں امام اعظم پروان چڑھے علم زیادہ تر موالی میں پایا جاتا تھا وہ نسبی فخر سے محروم تھے خدا نے انھیں علم کا فخر عطاء کیا تھا جو سب کے مقابلے میں زیادہ مقدس اور زیادہ پھیلنے پھولنے والا زیادہ پائیدار نام زندہ رکھنے والا تھا رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیشن گوئی سچی ثابت ہوئی کہ اولاد فارس علم کی حامل ہوگی امام بخاری و مسلم وشیرازی و طبرانی کے الفاظ یہ ہیں
"لو کا ن العلم معلقاعند الثریا تناولہ رجال من ابناء الفارس"
اگر علم کہکشاں تک بھی پہنچ جائے تو اھل فارس کے کچھ لوگ اسے حاصل کر کے رھیں گے
-----------------------------
تحصیل علم کی طرف توجہ اور تعلیم و تربیت:۔
امام اعظم کی آنکھ کھلی تو انہوں نے مذاھب وادیان کی دنیا دیکھی غور و فکر کرنے سے ان سب کی حقیقت آپ پر آشکارا ہوگئی آغاز شباب سے ہی آپ نے مناظرہ بازوں سے معرکہ آرائی شروع کر دیساور اپنی فطرت مستقیم کے حسب ہدایت اہل بدعت و ضلالت کے مقابلے میں اتر آئے مگر اس کے باوجود آپ تجارتی مشاغل میں منہمک تھے اور علماء سے واجبی روابطرکھتے تھے اور بعض علماء نے آپ میں عقل و علم و ذکاوت کے آثار دیکھے اور چاہا کہ یہ بہترین صلاحیتیں تجارت کی ہی نظر نہ ہو جائیںانہوں نے آپ کو نصیحت کی کہ بازاروں میں آمدورفت کے علاوہ علماء کی طرف عنان توجہ ہونی چاہیے امام صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک بار شعبی کے ہاں سے گذرا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کا آنا جانا کہاںہے تو انہوں نے عرض کی میںبازار ۤآتا ہوں آپ نے فرمایا کہ میری مراد بازار نہیں بلکہ علماء کے ہاں آنے جانے سے ہے میں نے کہا کہ میری آمدو رفت علماء کے ہاں بہت کم ہےانہوں نے کہا کہ یہ غفلت نہ کیجیے علم کا درس اور مطالعہ اور علماء کی صحبت آپ کیلئے بہت ضروری ہے کیونکہ میں آپ میں حرکت وبیداری کے آثار دیکھتا ہوںمیرے دل میں بات اتر گئی اور میں نے بازار کی آمد ورفت چھوڑ کرعلم حآصل کرنا شروع کر دیا اللہ تعالی نے ان کی بات سے مجھے فائدہ پہنچایا
علم و کلام جدل و مناظرہ میں کامل مہارت حاصل کرنے کے بعد علم فقہ آپ کی جولان گاہ اورفکر و نظر بنا
آپ کوفہ میں پروان چڑھے اور وہیں رہ کر زندگی کابیشتر حصہ تعلیم و تعلم اور مناظرہ میں گزاراکتب تواریخ میں آپکے والد کے بارے میں کچھ اشارات ضرور ملتے ہیں کہ وہ متمول تاجر اور بہت اچھے مسلمان تھے اکثر سیرت نگاروں نے کھا ہے کہ آپکے دادا کی حضرت علی کرم اللہ وجہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ثابت کی اولاد کےلئیے دعا کی امام اعظم کی تربیت ایک خاص اسلامی گھرانے میں ہوئی
-----------------------------------------
امام اعظم اور حماد بن سلیمان رضی اللہ عنہم:۔
آغاز فقہ اور حضرت حماد کے حلقہ تلمذ میں آنے کے وقت آپ کی عمر کا صحیح صحیح تعین تو مشکل ہے البتہ امام صاحب کے آغاز تعلیم و تدریس سے یہ اندا ذہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ امام حماد کی زندگی کے آخری لمحے تک ان کے دامن سے وابستہ رہےَ
------------------------------------------------------------------
آپ کے اساتذہ:۔
امام ابوحفص کبرٰی نے آپ کے اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی ہے اوردوسروں نے آپ کے استذہ کی تعداد صرف تابعین رضی اللہ عنہم میں چار ہزار بتائی ہے تو غیر تابعین کی تعداد کا کون خیال کر سکتا ہے آپکے مشہور اساتذہ:۔ حضرت امام حماد ،امام زید ابن علی زین العابدین،حضرت امام جعفر صادق ،حضرت عبداللہ ابن حسن بن حسن بن علی،امام شعبی، عکرمہ تلمیذ ابن عباس، نافع تلمیذ ابن عمر
-----------------------------------------------------------
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ملاقات:۔
امام اعظم نے پانچ یا آٹھ صحابہ کرام سے ملاقات کی جن میں چند کے نام یہ ہیں حضرت سیدنا انس بن مالک، حضرت عبداللہ ابن ادفی، حضرت سہل بن سعد، حضرت سیدناابو طفیل، حضرت عامر بن واصلہ رضی اللہ عنہم
حضرات محدثین کے نزدیک جو شخص صحابی سے ملاقات کرے اگرچہ ساتھ نہ رہے وہ تابعی کہلاتا ہےاور اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ امام اعظم ان معززین تابعین میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ
والذین اتبعوہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ واعد لہم جنت تجری تحتھا النھار خلدین فیھا ابدا
اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں اور وہ ہمیشہ پمیشہ اس میں رہیں گے
امام اعظم اور امام باقر کا مکالمہ:۔
محمد باقر بن زین العابدین زید ابن علی کے بھائی تھے اما م باقر بہت بڑے عالم دین تھے امام ابوحنیفہ کی ان سے ملاقات اسوقت ہوئیجب ان کی فقہ و رائے کا نیا نیا چرچا ہوا تھا
ملاقات کا یہ واقعہ مدینہ طیبہ میں پیش آیا امام باقر نے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایاآپ نے تو میرے نانا کے دین کو اور ان کی حدیث کو قیاس سے بدل دیا ہے امام اعظم نے کہا معاذاللہ جناب باقر بولے آپ نے ایسا ہی کیا ہے امام اعظم بولے آپ تشریف رکھئے تا کہ میں بھی مؤدب ہو کر بیٹھ جاؤں کیونکہ میری نظر میں آپ اسی طرح لائق احترام ہیں جیسے آپ کے نانا صحابہ کی نظر میں۔جناب باقر تشریف فرما ہوئے امام اعظم بھی زانوئے ادب طے کر کے آپ کے سامنے بیٹھ گئے امام اعظم بولے میں آپ سے ےین باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں ان کا جواب مرحمت فرمائیں
سوال نمبر ١:۔
مرد کمزور ہوتا ہے یا عورت؟امام باقر بولے عورت۔پھر امام اعظم بولے وراثت میں عورت کیا حصہ ملتا ہے آپ نے فرمایا مرد کو دو اورعورت کو ایک ۔امام اعظم بولے یہ آپ کے نانا کا فرمان ہے اگر میں ان کے دین کو بدل دیتا تو قیاس کے مطابق مرد کو ایک حصہ دیتا اور عورت کو دو کیونکہ عورت کمزور ہوتی ہے
سوال نمبر ٢:۔
فرمائے نماز بہتر ہے یا کہ روزہ؟امام باقر بولے نماز ۔امام اعظم بولے یہ آپ کے نانا کا فرمان ہے اگر میں اس کو قیاس سے بدل دیتا تو تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ حیض سے پاک ہو کر روزہ کی بجائے وہ فوت شدہ نمازیں ادا کرے
سوال نمبر ٣:۔
فرمائے پیشاب زیادہ نجس ہے یا کہ نطفہ؟ امام باقر بولے پیشاب۔ اما م اعظم بولے اگر میں قیاس کو ترجیح دیتا تو فتویٰ دیتا کہ پیشاب سے غسل کرے اور نطفہ سے وضو معاذاللہ بھلا میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں
جناب باقر اٹھے اور اٹھ کر بغل گیر ہو گئے چہرہ کا بوسہ لیا اور آپ کی تکریم بجا لائے
-----------------
امام اعظم کے تدریس و افتاء کی ابتدائ:۔
جب کوفہ کے رئیس العلماء اور آپکے استاد گرامی حضرت حماد کا وصال ہوگیا اور مسند تدریس خالی ہو گئی تو لوگوں کو ضرورت کا احساس ہوا کہ آپ کی جگہ کوئی رونق افروز ہو کر تشنگان علم کو سیراب کرے تو لوگو ں نے پہلے حضرت حماد کے صاحبزادے کو بٹھایا لیکن آنے جانے والوں کو تشفی نہ ہوئی کیو نکہ زیادہ ےر ان کی توجہ فن نحو وعلم کلام پر مرکوز تھی پھر موسیٰ بن کثیر بیٹھے لیکن وہ بڑے ڑوں کو ملا کرتے تھے اس لئے لوگوں نے ان کو پسند نہ کیا اس کے بعد باتفاق رائے امام اعظم منتخب ہوئے آپ نے بھی سب کی بات تسلیم کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ علم مر جائے پھر تشنگان علم آپ کے پاس جوق در جوق حاضر ہونے لگے اور آپ کا وسیع ترین علم و حسن اخلاق اور تحمل دیکھ کر لوگوں نے اوروں کو چھوڑ دیا اور وہ سب انہی کے ہو گئے بقول( ایک جاگیر محکم گیر ) پھر وہ ترقی کرتے کرتے علوم دینیہ کے ملازم ہوئے یہاں تک کہ آپ کا حلقہ درس تمام درس گاہوں سے وسیع ہو گیا۔اور لوگو ں کے قلوب آپ کی طرف مائل ہو گئے اور امراء آپ کی تعظیم و تکریم کرتے خلفاء ان کو یاد کرتے اس لئے کہ جو مسند تدریس امام حماد کی وفات کے بعد سونی ہو گئی تھی اس کو ہمارے امام اعظم نے زینت بخشی اور یہ ایک تاریخی مسلمہ حقیقت ہے کہ امام حماد کا انتقال ١٢٥ھ میں ہوا اور آپ پورے اٹھارہ سال امام حماد کی صحبت میں رہے اس طرح کل تلمذ کی مدت اٹھارہ سال بنتی ہے امام حماد کی وفات کے بعد آپ چالیس سال کے تھے آغاز شاگردی میں ٢٢ سال کے ہوں گے اور چالیس سال تک اخز واستفادہ کا سلسلہ جاری رکھا اور اس کے بعد باستقلال مسند تدریس پر فائز ہوئے
----------
بنائے مذہب حنفی:۔
تاریخ بغداد جلد نمبر ١٣ ص ٣٦٨میں امام صاحب سے منقول ہے کہ میں کتاب اللہ سے سند لیتا ہوں اور اگر اس میں کوئی مسئلہ نہ ملے تو حدیث رسولؐ سے اور اگر قرآن سنت دونوں سے نہ ملے تو اقوال صحابہ سے اخذ کرتا ہوں متعدد مقامات پر آپ کے اقوال مروی ہیں
مطالعہ کے بعد پےہ چلتا ہے کہ امام اعظم کی رائے میں فقہی دلائل سات ہیںکتاب اللہ،سنت رسولؐ ،اقوال صحابہ ،اجماع امت،قیاس ،استحسان،عرف۔حضرت فضیل بن عیاض،ابن مبارک،مزنی اور ابن حزم نے کہا ہے کہ امام اعظم کتاب اللہ،سنت رسول ؐ،اقوال صحابہ اور اجماع امت سے مسئلہ اخذ کرتے اگر ان میں سے نہ ملتے تو قیاس کرتے اور ان کے قیاس دقیق ہوا کرتے اور یہی وجہ ہے کہ امام مزنی کے بھانجے علامہ طحاوی مذہب شافعی چھوڑ کر حنفی ہو گئے
---------------------------------------------------
آئمہ کرام کے ارشادات:۔
علماء فرماتے ہیں کہ جو مسائل امام اعظم سے حل نہ ہوسکے قیامت تک مضطرب رہیں گے
امام ابو یوسف بعض مسائل میں پریشان ہو کر فرماتے جہاں ہمارے استاذ کا کوئی قول نہیں ہمارا بھی یہی حال ہے
عن ابی یوسف انہ کان یضطرب فی بعض المسائل وکان یقول فی کل مسئلۃ لیس لشیخنا فیھا قول فتحنا ھکذا
---------------------------------------------
امام عرف باللہ سیدی عبدالوھاب شعرانی قدس سرہ میزان الشریعۃ الکبریٰ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
سمعت علیا الخواص رضی اللہ عنہ یقول مدارک الامام ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ دقیقۃلایکاد یطلع علیھا الا اہل الکشف من کبار الاولیاء
میں نے اپنے سردار حضرت علی خواص کو فرماتے سناکہ امام ابو حنیفہ کے مدارک باریک ہیں قریب ہے کہ ان پر مطلع نہ ہوں مگر اکابر اولیاء اھل مشاہدہ
----------
استاذا لمحدثین امام اعمش شاگرد حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ امام اعظم سے فرماتے ہیں کہ گروہ فقہا تم طبیب ہو اور ہم محدثین عطار ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ تم نے دونوں کنارے لیئے ہیں
----------------------------------------------------------------
امام سفیان ثوری کا ارشاد ہے کہ آپ پر وہ علم کھلتا ہے کہ جس سے ہم غافل ہیں
------------
امام شافعی فرماتے ہیں کہ تمام جہان میں کسی کی عقل ابوحنیفہ جیسی نہیں
---------------
امام عاصم بن عاصم نے کہا کہ امام اعظم ابوحنیفہ کیعقل اگر تمام روئے زمین پر بسنے نصف لوگوں کی عقل کے ساتھ تولی جائے تو امام اعظم ابوحنیفہ کی عقل غالب آجائے گی
------------------------------------------
امام بکر بن حبش فرماتے ہیں کہ اگر ان کی عقل کو تمام اہل زمانہ کی مجموع عقلوں کے ساتھ وزن کیا جائے تو ایک ابوحنیفہ کی عقل آئمہ و اکابر و مجتہدین و محدثین و عارفین سب کی عقل پر غالب آ جائیگی
خطیب نے امام شافعی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ امام مالک سے پوچھا گیا کہ آپ نے ابوحنیفہ کو کیسا پایا فرمایا کہ اگر اس ستون کو سونے کا کہتے تو اس کو اپنے دلائل سے سونے کا ثابت کر دیتے
اما م شافعی فرماتے ہیں کہ جو شخص چاہے کہ فقہ میں کمال حاصل کرے وہ ابوحنیفہ کا عیال بنے
------------------------------------
امام اوزاعی نے ابن مبارک سے فرمایا امام صاحب کی کثرت علم اور کمال عقل پر غبطہ (رشک) کرتا ہوں
----------------------------------
امام احمد فرماتے ہیں کہ امام صاحب اہل ورع صاحب زہد و ایثار ہیں ان کے رتبہ کو کوئی نہیں پہنچ سکتا
-----------------------------------
مکی ابن ابرہیم کہتے ہیں کہ امام اعظم اعلم اہل زمانہ تھے فقہا میں امام ابوحنیفہ چکی کے قطب کی مانند ہیں یا ان کی مثل اس نقاد سی ے جو سونے کو پرکھتا ہے
----------------------------
تحصیل حدیث:۔
حضرت امام اعظم نے زیادہ تر احادیث اجلہ تابعین سے لی ہیں ان تابعین سے احادیث لیں جو مدت تک صحابہ کی صحبت میں رہے اور جو تقویٰ ور ع علم و فضل میں اعلیٰ درجے پر فائز تھے کوفہ جو اس وقت مر کز حدیث تھا امام صاحب نے حدیث کی تحصیل کی ابتداء وہیں سے کی
کوفہ کا کوئی ایسا محدث نہ تھا کہ جس سے آپ نے حدیث کی تحصیل نہ کی ہو کوفہ کے ٩٣کے قریب محدثین سے احادیث اخذ کیں جن میں اکثر تابعی تھے اس کے علاوہ بصرہ کے تمام محدثین سے احادیث اخذ کیں یہ وہ شہر ہے کہ جس حضرت عمر فاروق نے بسایا تھا اور یہ شہر انس بن مالک کی وجہ سے مرکز حدیث بن گیا امام صاحب نے ان دونوں مراکز سے ہزاروں احادیث حاصل کیں
------------------------------------------
تصانیف امام اعظم :۔
فقہ الاکبر ،العالم والمتعلم، کتاب السیر، کتاب الاوسط،الفقہ الابسط، کتاب علیٰ رد القدریہ، رسالۃ الامام ابی عثمان الیتیمی فی الارجائ، کتاب
الرائے، کتاب اختلاف صحابہ، کتاب الجامع وغیرہم
-----------------------------------------------------
لباس:۔
آپ کے صاحبزادے حضرت حماد نے فرمایا آپ جامہ زیب تھے خوشبو بہت لگاتے تھے قبل اس کے کہ لوگ آپ کو دیکھیں آپ کو خوشبو کی وجہ سے پہچان لیتے تھے امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ آپہ اہنے جوتے کے تسمے کا بھی بہت خیال رکھا کرتے تھے کبھی بھی نہ دیکھا گیا کہ آپ کے جوتے کا تسمہ ٹوٹا ہوا ہو آپ لمبی ٹوپی سیاہ رنگ کی پہنتے تھے آپ کی چادر اور پیرہن کی قیمت تقریبا ٤٠٠ درہم لگائی گئی ہے آپ کا جبہ فنک سنجاب ثعلب تھا جس کو پہن کر آپ نماز پڑھتے تھے اور خط دار چادر تھی اورسات ٹوپیاں تھیں جن میں سے ایک سیاہ رنگ کی تھی
----------------------------------------------------------------------
وفات امام اعظم:۔
بنی امیہ کے خاتم کے بعد سفاح اور پھر منصور نے اپنی حکومت جمانے اور لوگوں کے دلوں میں اپنی ہیبت بٹھانے کیلئے وہ مظالم کیے جو تاریخ کے خونی اوراق میں سرفہرست ہیں اور جس میں امام اعظم کو بھی قید کیا گیااور قید بھی آپ کی عظمت اور اثر کو کم نہ کرسکی بلکہ آپ کی عظمت اور بڑھ گئی اور لوگ جیل خانہ میں جا کر ان سے فیض حاصل کرتے امام محمد آخری وقت تک آپ سے تعلیم حاصل کرتے رہےجب حضرت امام اعظم کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو خالق بے نیاز کی بارگاہ میں سجدہ کیا اور سجدہ میں ہی آپ کی روح پرواز کر گئی
انا للہ وانا الیہ راجعون
--------------------------------
بعد وصال غیبی آوازیں:۔
صدقہ مغابری سے منقول ہے کہ جب لوگ امام اعظم کو دفن کر چکے تو تین رات ندائے غیبی سنی گئی کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ
ذھب الفقہ فلا فقہ لکم فاتقواللہ وکونوا خلفا
مات نعمان فمن ھذالذی یحیی اللیل اذا ما سجفا
فقیہ جاتا رھا اب تمھارے لیئے فقہ نہیں ہے تو اللہ سے ڈرو اور ان کے خلف بنو
امام ابوحنیفہ انتقال کر گئے تو کون ھے اس رتبہ کا جو شب کو عبادت کرتا ہو جب رات تاریک ہو جائے
اللہم اغفر لقارئہ ولکاتبہ ولسامعہ ولحافظہ و جمیع المومنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.