You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
الــقــرآن ســورہ جــن 26-27
عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿26﴾ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا ﴿27﴾
" غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے کہ ان کے آگے پیچھے پہرا مقرر کردیتا ہے "
تو قرآن کی نص صریح سے ثابت ہے کہ اللہ نے اپنے حبیب کو غیب کا علم عطا فرمایا اور کتنا عطا فرمایا تو یہ عطا فرمانے والا اللہ جانے اور جس کو عطاء ہوا وہ نبی جانیں.
*******************
ہاں البتہ صحابہ کرام یہ فرماتے ہیں کہ
ایک بار سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ہم میں کھڑے ہو کر ابتدائے آفرنیش سے لے کر جنتیوں کے جنت اور دوزخیوں کے دوزخ جانے تک کا حال ہم سے بیان فرمادیا۔ یاد رکھا جس نے یاد رکھا اور بھول گیا جو بھول گیا
(صحیح بخاری شریف میں حضرت امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت )
( صحیح البخاری کتاب بدء الخلق باب ماجاء فی قول اﷲ وھو الذی یبدء الخلق الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۵۳)
*اور صحابہ کرام کے عقیدے سے ہٹ کر الگ راہ پر چلنے والے علم غیب نبی کے منکروں کو
قــرآن فرماتا ہے کہ*
سورہ نساء آیت 115
وَمَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الْمُؤْمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَسَآءَتْ مَصِیۡرًا﴿۱۱۵﴾
"اور جو رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی "
خود نبیٔ کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس علم غیب کی عطا کے بارے میں فرماتے ہیں
"میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا اس نے اپنا دستِ قدرت میری پشت پر رکھا کہ میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا۔"
(جامع ترمذی شریف وغیرہ کتب کثیرئہ آئمہ حدیث میں باسانید عدیدہ و طرق متنوعہ دس صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت ہے)
ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اسی معراجِ منامی کے بیان میں ہے
رسول ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :
"جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب میرے علم میں آگیا۔"
( سنن الترمذی کتاب التفسیرحدیث ۳۲۴۴ دارالفکر بیروت ۵ /۱۵۹)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں :
چنانچہ میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ تعبیر ہے تمام علوم کے حصول اور ان کے احاطہ سے چاہے وہ علوم جزوی ہوں یا کلُی ۔(ت)
(اشعۃ اللمعات کتاب الصلوۃ باب المساجد و مواضع الصلوۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱ /۳۳۳)
1)تو علم غیب نبی کا انکار کرنے کا مطلب براہ راست قرآن کا انکار کرنا ہے
2)علم غیب نبی کا انکار کرنے کا مطلب صحیح احادیث کو جھٹلانا ہے
3)اور علم غیب نبی کا انکار کرنے کا مطلب صحابہ کرام اور 1400سال کے تمام علماء و محدثین کی راہ سے جداہ را چلنا ہے
اور یہ انکار کرنے والے لوگ قرآن سے واضح کفر کے مرتکب ہیں اور اور ساتھ ساتھ قرآن کے حکم کے مطابق مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ پر چلنے کے سبب دوزخ میں داخل کیٔے جانے کی وعید کے حقدار ہیں اور وہ کیا ہی بری پلٹنے کی جگہ ہے
تو اے مسلمان بچ ان انکار کرنے والے منکروں سے کہ جو ان کے عقیدے ہیں وہ جہنم میں اترنے کے زینے ہیں
اور اے عزیز تو صحابہ کے عقیدے کو اپناے رکھیو جو کہ آج اھلسنت والجماعت کے عقیدے ہیں .
اور یہی آخرت میں کامیاب ہونے کے لیٔے لازم نگینے ہیں..
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.