You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضرت مظہر جانِ جاناںمجددی اور ان کی اصلاحی تعلیمات
غلام مصطفی رضوی، نوری مشن مالیگاؤں
[email protected]
ہر دور میں سلفِ صالحین واولیائے کرام نے اپنے مواعظ و ارشادات اور مخلصانہ خدمات سے دین کی اشاعت کا فریضہ انجام دیا۔خلقِ کثیر کو ہدایت کی راہ پر گامزن کیا۔ دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ پراگندہ طبیعتوں کی اصلاح کی۔ ان کی اصلاحی خدمات کو دوجہتوں پر منقسم کیا جاسکتا ہے:
[۱] اصلاح عقائد
[۲]اصلاح اعمال…اسی ضمن میں روحانی و ظاہری اصلاح بھی ہے۔
اس مختصر تحریر میں سلسلۂ نقشبندیہ کے شیخ طریقت، عظیم صوفی و صاحبِ تقویٰ بزرگ حضرت مرزا مظہر جانِ جاناںنقشبندی مجددی علیہ الرحمہ کی حیاتِ مبارکہ اور آپ کی تعلیمات جو اصلاحِ عقائد و اعمال پر مشتمل ہیں کے چند گوشوں کو پیش کیا جائے گا۔
سوانحی خاکہ:
حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں علیہ الرحمہ علوی سادات گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سلسلۂ نسب ۲۸؍واسطوں سے مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم تک پہنچتا ہے۔مروت، عدالت،شجاعت، سخاوت اور کمالِ دین داری کی وجہ سے آپ معروف تھے۔ آپ کے اجداد میں امیر عبدالسبحان تھے جو کہ دو واسطوں سے اکبربادشاہ کے نواسے تھے، آپ کے والد مرزا جان نے جاہ، دولت اور شاہی منصب ترک کر کے فقر و قناعت کی سلطنت اختیار کرلی تھی…کمالاتِ انسانی اور اخلاقِ رحمانی میں یگانۂ روزگار تھے۔حضرت مرزا مظہر کی ولادت ۱۱؍رمضان ۱۱۱۱ھ یا ۱۱۱۲ھ بوقتِ فجر جمعہ کو ہوئی۔[۱]
وہ زمانہ بڑا پُر فتن تھا۔مغلوں کے آخری سلاطین کی دین سے دوری، عیاشی اور آرام طلبی، مشرکین کی ریشہ دوانیاں، روافض کی سازشوں نے ملت کو زوال سے دوچار کیا۔۱۷۳۹ء میںنادر شاہ کے حملے تک ملک عجیب صورتِ حال سے دوچار رہا، زوال پذیر ماحول میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی رہنمائی نے مسلمانوں کو حوصلہ دیا۔ مرزا مظہر جان جاناں و شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے مسلم سلطنت کو بچانے کے لیے احمد شاہ درانی و روہیلوں کو ترغیب دی۔جس کا اندازا حضرت مظہر کے خطوط سے ہوتا۔ان کی اشاعت حضرت شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی نقشبندی علیہ الرحمہ نے بھی کروائی تھی۔[۲]حضرت مظہر نے اورنگ زیب عالم گیر [م۱۷۰۷ئ]سے کے کر شاہ عالم ثانی تک ۱۱؍بادشاہوں کا زمانہ پایا۔[۳]مولانامیرسید غلام علی آزاد چشتی بلگرامی[م۱۲۰۰ھ در خلدآباد] کی درخواست پر مرزا مظہر جان جاناں نے اپنی خود نوشت تحریر کی، جو’’ سرو آزاد‘‘ میں شامل ہے۔یہ تحریر۱۱۶۶ھ کی نوشتہ قرار دی جاسکتی ہے۔[۴]
آپ کی ’’تنبیہات الخمسہ‘‘ کے نام سے عقائد اہل سنت؛ اور ردِ شیعہ میںایک تحریر ’’بشاراتِ مظہریہ‘‘ کے نام سے موجود ہے۔[۵]اس عہد میں شیعوں کا خاصہ زور تھا، اقتدار پر بھی وہ اثر انداز تھے، ان کی ریشہ دوانیوں کا ہی نتیجہ تھا کہ بعد کو نجف خان نے تحفۂ اثناء عشریہ کے مؤلف حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور شاہ رفیع الدین کو دہلی سے نکل جانے کا حکم دیا تھا، یہ دونوں بزرگ اپنے خاندان سمیت شاہدرہ تک پیدل گئے تھے۔[۶]ان مصائب نے دو ہستیوں کو خاص طور پر مجروح کرنے کی کوشش کی ایک شاہ ولی اللہ محدث دہلوی دوسرے حضرت مرزا مظہر جان جاناں۔روہیلہ سنی تھے، ان سے حضرت مظہر کے مراسم تھے، تورانی جو شیعوں کے دشمن تھے، ان کے حامی تھے حضرت مظہر۔ایرانی [شیعوں] نے علما و مشائخ سے سخت دشمنی روا رکھی،انھیں حالات میں حضرت مظہر۱۱۹۵ھ/۱۷۸۰ء میں شیعوں کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے۔آپ دہلی میں دفن ہوئے۔شاہ ابوالحسن زید فاروقی مجددی نے ۱۹۸۰ء میں ایک شان دار گنبد تعمیر کروایا۔ سلسلۂ مجددیہ کے شیخ حضرت شاہ غلام علی دہلوی علیہ الرحمہ حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں کی خانقاہ کے عملی وروحانی جانشین ہوئے۔
فیضِ غوثیت:
حضرت مظہر نے حضرت شیخ محمد عابد سے استفادۂ خصوصی فرمایا،اس دوران فیض قادریت سے متعلق حضرت مظہر نے عرض کیا جس پر حضرت شیخ محمد عابد نے فرمایا: تمھیں اس [قادری] خاندان کی اجازت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلواتے ہیں۔ اور جناب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے۔[حضرت مظہر فرماتے ہیں] میں نے آپ کے حکم کے موجب مراقبہ کیا تو دیکھا کہ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہِ عالی میں اصحابِ عظام اور اولیائے کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ اور حضرت غوث الثقلین [رحمۃاللہ علیہ] حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھڑے ہیں… حضرت شیخ نے جناب مبارک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مرزا جانِ جاناں خاندانِ قادریہ کی اجازت کے امیدوار ہیں۔ فرمایا کہ اس امر میں سید عبدالقادر سے رجوع کرو۔ پس انھوں نے حضرت شیخ کے التماس کو قبول کر کے بندہ کو خرقہ تبرکاً عطا کیااور اجازت سے ممتاز کیا اور مجھے اپنے باطن میں نسبتِ شریفہ قادریہ کے حالات و برکات کا احساس ہوا اور میراسینہ اس کے انوار سے لبریز ہوگیا۔[۷]
فیض مجددیہ:
حضرت شاہ غلام علی دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’حضرت [مظہر جانِ جاناں] نے طریقۂ نقشبندیہ [کا فیض] حضرت سید نور محمد بدایونی [مجددی]رحمۃاللہ علیہ سے حاصل کیا۔ انھوں نے حضرت شیخ سیف الدین سے نیز حضرت مظہر نے حضرت حافظ محمد محسن سے بھی استفادہ کیا تھا اور انھوں نے عروۃالوثقی حضرت محمد معصوم سے اور انھوں نے اس طریقہ کے امام مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی سے۔‘‘[۸]
ایمان افروز ملفوظات و ارشاداتـ:
nایک روز میں اپنے پیر حضرت حافظ محمد محسن کے مزار کی زیارت کے لیے گیا۔وہاں جا کر میں نے مراقبہ کیا تو بے خودی کی حالت میںمیں نے دیکھا کہ آپ کابدن شریف اور کفن تو درست ہے۔ ‘‘ [۹]
nان مخلصوں پر تعجب ہے کہ اپنی عمر میں ایک بار بھی حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار اقدس کی زیارت کا شرف حاصل نہیں کرتے حالاں کہ جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دُنیاوی و اخروی مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔‘‘[۱۰]
nموت تحفۂ الٰہی ہے، جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا موجب ہے۔[۱۱]
nسالک کے دل میں خدا اور دُنیا کی طلب جمع نہیں ہوسکتی۔[۱۲]
nخدا و رسول [صلی اللہ علیہ وسلم] کے دوستوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے نفرت رکھتا ہوں۔[۱۳]
nاہل بیت سے اظہارِ محبت اور اصحابِ کبار رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی یکساں تعظیم لازم ہے۔اور یہی صراطِ مستقیم ہے۔[۱۴]
nاولیاء اللہ کی تعظیم اور تمام مشائخ رحمۃاللہ علیہم سے محبت لازم ہے۔[۱۵]
nافاضۂ فیوض اور حل مشکلات کے لیے ان کے پیر و مرشد واقعات[مکاشفات و خواب] میں دکھائے جاتے ہیں اور بعض اوقات اس بزرگ کے لطائف اس کی صورت میں متمثل ہو کر ان کے کاموں کے پورا ہونے کا وسیلہ بنتے ہیں۔[۱۶]
nحضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور رویتِ الٰہی جسے تجلی صوری کہا گیا ہے، خدائے عزوجل کی نعمت ہے۔[۱۷]
nقلیل نعمت کو بے شمار خیال کرتے ہوئے شکرورضا اختیار کرے۔[۱۸]
nدعائے حزب البحر، وظیفۂ صبح وشام اور ختم حضرات خواجگان قدس اللہ اسرارہم حلِ مشکلات کے لیے ہر روز پڑھنا چاہیے۔[۱۹]
nحضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت دل و جان سے کرو……عقیدۂ اہل سنت وجماعت کا التزام کر کے حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرو…جہاں تک ممکن ہو سکے اپنی زندگی صبر و توکل سے بسر کرو۔[۲۰]
nقناعت اختیار کرو، حرص وطمع دل سے نکال دو۔[۲۱]
nاولیا کے مزارات کی زیارت کو فیض جمعیت کا دریوزہ بناؤ۔ مشائخ کرام کی ارواحِ طیبہ کو فاتحہ اوردرود سے ثواب پہنچا کر جنابِ الٰہی میں انھیں وسیلہ بناؤ کیوں کہ اس امر سے ظاہری و باطنی سعادت حاصل ہوتی ہے۔[۲۲]
nعالم خواب کا معاملہ بیان کرتے ہیں: ’’ایک مصفٰی حجرے کا ظہور ہوا جو کمال درجہ منور تھا، وہ [مشائخ کرام]تمام حضرات اس حجرہ میں آگئے، میں نے پوچھا کہاں جا رہے ہیں؟ کسی نے کہا آج حضرت غوث الثقلین [رحمۃاللہ علیہ] کا -عرس- ہے جس کی تقریبات میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں۔[۲۳]
nہماری نسبت [نسب] جناب امیرالمومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ تک پہنچتی ہے، اور مجھے آں جناب میں خاص نیاز ہے۔ جسمانی عوارض کے وقت میری توجہ آں جناب کی طرف متوجہ ہوتی ہے جس سے مجھے شفاہو جاتی ہے۔[۲۴]
nاہل بیت اطہار رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی محبت ایمان کا موجب اور تصدیق وایقان کا سرمایہ ہے۔ ہمارے لیے تو ان کی محبت کے سوا اورکوئی عمل وسیلۂ نجات نہیں۔[۲۵]
nنواب مکرم خان کے انتقال کے وقت حضرت خواجہ[عبیداللہ] احرار کا متبرک کلاہ ان کے سرپر رکھا گیا۔ انھوں نے نورِ فراست سے معلوم کر لیا اور آنکھیں کھول دیں کہ میرے پیر کا متبرک کلاہ لایا گیا ہے، اس لیے حضرت خواجہ کی ذات درگاہِ الٰہی میں میرا وسیلہ ہوگی۔[۲۶]
nقرآن مجید کی تلاوت صفائی باطن اورقلب کی قبض رفع کرنے کا موجب ہے۔ ترتیل حروف اور خوش الحانی ہونی چاہیے۔[۲۷]
ان تعلیمات میں عقیدہ و عمل کے ایسے جواہر پوشیدہ ہیں جن پر تبصرہ کثیر صفحات کا متقاضی ہے۔ انھیں تعلیمات کو مجدد اسلام امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ[م۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ئ] نے۱۴؍ویں صدی ہجری میں زندہ کیا۔ حضرت مظہر نے تعلیماتِ مجدد الف ثانی کی ترویج و اشاعت کی اور امام احمد رضا نے ان مجددی مشائخ کی تعلیمات کو عام کیا،جب کہ وہابیہ دیوبندیہ نے ان اسلاف کی تعلیمات سے انحراف کیا۔ پروفیسرڈاکٹر محمد مسعود احمدنقشبندی اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:’’… سلسلۂ نقشبندیہ میں وہابیہ دیوبندیہ داخل ہوگئے ہیں۔ فقیر نے جہانِ امام ربانی میں اس کا ازالہ کیا ہے۔ بلکہ شروع ہی میں امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کا ذکر کر دیا ہے اور اپنے ابتدایئے میں یہ واضح کیا ہے کہ وہابیہ دیوبندیہ نے حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کا استحصال کیا ہے اور دوسری طرف امام احمد رضا نے تعلیمات مجددیہ کو فروغ دیا۔‘‘[۲۸]
اللہ کریم مشائخ واسلاف کی تعلیمات پر عمل کا جذبۂ صالح عطا فرمائے۔آمین بجاہ سیدالمرسلین علیہ الصلوٰۃوالتسلیم۔
حوالہ جات:
[۱] مقاماتِ مظہری،شاہ غلام علی دہلوی، اردو سائنس بورڈلاہورجولائی ۱۹۸۳ئ،ص۲۵۹تا۲۶۱
[۲]مقدمہ: مقاماتِ مظہری،از اقبال احمد مجددی، اردو سائنس بورڈلاہورجولائی ۱۹۸۳ئ، ص۱۴۴
[۳]حوالۂ بالا،ص۲۵
[۴]حوالۂ بالا،ص۱۵۱
[۵]حوالۂ بالا،ص۱۵۲
[۶]حوالۂ بالا،ص۱۱۸
[۷] مقاماتِ مظہری،شاہ غلام علی دہلوی، اردو سائنس بورڈلاہورجولائی ۱۹۸۳ئ،ص۳۰۰
[۸]حوالۂ بالا،ص۲۳۶
[۹]حوالۂ بالا،ص۲۴۴
[۱۰]حوالۂ بالا،ص۲۴۵
[۱۱]حوالۂ بالا،ص۳۱۸
[۱۲]حوالۂ بالا،ص۳۱۹
[۱۳]حوالۂ بالا،ص۳۲۳
[۱۴]حوالۂ بالا
[۱۵]حوالۂ بالا
[۱۶]حوالۂ بالا،ص۳۲۵۔۳۲۶
[۱۷]حوالۂ بالا،ص۳۲۷
[۱۸]حوالۂ بالا،ص۳۲۹
[۱۹]حوالۂ بالا
[۲۰]حوالۂ بالا،ص۳۳۸
[۲۱]حوالۂ بالا،ص۳۳۹
[۲۲]حوالۂ بالا،ص۳۴۰
[۲۳]حوالۂ بالا،ص ۳۴۳
[۲۴]حوالۂ بالا،ص۳۴۵
[۲۵]حوالۂ بالا
[۲۶]حوالۂ بالا،ص۳۵۳
[۲۷]حوالۂ بالا،ص۳۵۷
[۲۸]مکتوباتِ مسعودی،عبدالستار طاہر مسعودی، ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۲۰۰۵ئ، ص۶۷۔۶۸
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.