You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضرت خالد کی عہدۂ سپہ سالاری سے معزولی اور حکم امیر کی پاسداری
فتح ونصرت اللہ کی طرف ہے اور ہم سب اس کے بندے ہیں
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
ماہ ربیع الاول ۱۰؍ہجری میں پیغمبر اسلامﷺ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کوچار سو مجاہدین کاسالار بناکرنجران کی طرف بھیجاتاکہ بنوالحارث بن کعب کواسلام کی دعوت دیں۔حضورانورﷺ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کوحکم دیاجب وہاں پہنچیں توفوراً ان پر حملہ نہ کردیںبلکہ انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ تین مرتبہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔اگر وہ اسلام قبول کرلیں توان کوامن دے دیںاور وہاں سکونت پذیرہوںاور اس اثناء میں قرآن کریم اور سنّت نبوی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلام کے بنیادی عقائد وفرائض کے بارے میںان کوتلقین کریں۔لیکن اگر وہ تین بار اسلام قبول کرنے کی دعوت کے بعد بھی اسلام کوقبول کرنے سے انکار کردیںتوپھر ان کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت ہے۔اہل نجران،نصرانی تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر عمل پیراتھے۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ مدینۂ طیبہ سے روانہ ہوکرنجران کے علاقے میں پہنچے اور اپنے سواروں کے چھوٹے چھوٹے دستے بناکراس علاقے کے مختلف اطراف واکناف میں بھیجے تاکہ انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔جب ان حضرات نے مختلف آبادیوں میں پہنچ کراسلام قبول کرنے کی دعوت دی توان سب نے اسلام قبول کرلیا۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ یہاں کچھ عرصہ سکونت پذیر رہے اور حسب ارشادِ رسالت مآبﷺ ان کو قرآن کریم کی سورتیں یاد کراتے رہے۔حضورﷺ کی سنت مطہرہ پر ان کوآگاہ کرتے رہے اور دین اسلام کے بنیادی عقائد اور احکام پر عمل کرنے کی دعوت دیتے رہے۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے کامیابی کے ساتھ اس علاقہ کونورِاسلام سے منورکرنے کے بعد بارگاہِ رسالتﷺ میں ایک عریضہ ارسال کیاجس میں اپنی ساری سرگرمیوں کے بارے میںاطلاع درج کی۔سرکاردوعالمﷺ نے اس مکتوب کاجواب تحریر فرمایااور ان لوگوں کے اسلام قبول کرنے پراللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کی،پھرفرمایا:ان کو اللہ کی رحمت کی بشارت سنائیں،اللہ کی نافرمانی سے ڈرائیں۔جب بھی مدینہ واپس آئو تو ان کاایک وفد اپنے ہمراہ لائو۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ جب مدینۂ طیبہ حاضر ہوئے تو ان کاایک وفداپنے ہمراہ لائے جو ان کے رئوساء پر مشتمل تھا۔(ضیاء النبیﷺ،ج۴،ص؍۷۳۰)
عہدۂ سپہ سالارسے برطرفی
۲۲؍جمادی الآخر۱۳؍ھ بمطابق۲۲؍اگست ۶۳۴ء کوامیرالمومنین سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ نے اس دارِفانی سے پردہ فرمایا اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مسندخلافت پرجلوہ گرہوئے ۔ کسی وجہ سے سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولید کوسپہ سالاری کے عہدہ سے معزول کیااور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کوسپہ سالارمقررفرمایا۔۳؍شعبان ۱۳؍ھ بمطابق ۲؍اکتوبر۶۳۴ء کی صبح لشکرِ اسلام کو سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات اور سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت کااعلان کیاگیا۔دمشق میںمقیم لشکر نے غائب نمازِ جنازہ پڑھی اور نئے خلیفہ کی بیعت کااقرار کیا۔اس کے بعد سپہ سالار کی تبدیلی کا اعلان کیاگیا ۔حضرت خالد بن ولیدنے امین الامت حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں وہی جوہر دکھائے جوسپہ سالاری کے ایام میںدکھاتے تھے۔آپ نے فرمایا:’’واللہ!اگرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی کم عمر بچے کوبھی میرا امیر بنا دیتے تومیں اس کی بھی اطاعت کرتا،میں نے تو اپنی زندگی خداکی راہ میں وقف کی ہوئی ہے‘‘۔(ماہ نامہ استقامت ،کان پور،اسلامی جہاد نمبر،۲۰۰۵،حضرت خالدرضی اللہ عنہ بن ولید کی آپ بیتی،ص۳۵)امین الامت کی قیادت میں آپ نے جنگ یرموک اور بیت المقدس کے محاصرے میں جنگی حکمت عملی اورمحیرالعقول منصوبوں کے ذریعے دشمنان اسلام کودم بخودکردیا۔چار ماہ کے محاصرے کے بعدبیت المقدس والوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈالنے کی پیش کش کی کہ صلح کے معاہدہ پردستخط کے لیے خود مسلمانوں کے خلیفہ آئیں۔امین الامت کاخط پڑھ کرامیرالمومنین ربیع الاول۱۶؍ھ بمطابق اپریل ۶۳۷ء کوملک شام تشریف لائے۔جابیہ کے مقام پر آپ کاپُرتپاک استقبال کیا گیا، آپ انتہائی سادہ لباس میں تھے۔بعض لوگوں نے آپ کوترکی گھوڑااور لباس پیش کیا۔اس پرآپ نے وہ تاریخی جملے ارشاد فرمائے جوآج بھی ہمیں جذبۂ عمل فراہم کررہے ہیں،آپ نے فرمایا:’’اللہ نے ہمیں اسلام کی جوعزت دی ہے ہمارے لیے وہی کافی ہے‘‘۔(مرجع سابق،ص۳۹)پادریوں نے خود آپ کوقبلۂ اول کی چابیاں دیں۔بیت المقدس کے حصول کے بعد آپ فتح شدہ علاقوں کادورہ کرکے اور سرحدوںکی حفاظت کاانتظام کرکے مدینہ شریف تشریف لے گئے۔بیت المقدس کے پادری کے ساتھ امیرالمومنین سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے معاہدے پر حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے بھی بطورگواہ دستخط کئے۔(مرجع سابق،ص۳۹)
فوج سے معزولی
مرعش سے واپسی پربنی کِنداکے ایک سرداراشعت بن قیس نے حضرت خالدرضی اللہ عنہ تعریف میں ایک قصیدہ پڑھااور انھیں ایک عظیم فاتح قراردیا،آپ نے خوش ہوکراسے دس ہزاردرہم بطورانعام دیئے۔یہ خبر امیرالمومنین کوملی توآپ نے حضرت خالدرضی اللہ عنہ کومدینہ شریف بلوایااورفوج سے سبکدوش کردیا۔حضرت خالدرضی اللہ عنہ فوج سے علیٰحدہ ہوکرحمص میں مقیم ہوگئے۔امیرالمومنین نے سالانہ تین ہزاردرہم آپ کاوظیفہ مقرر فرمایا ۔تاریخ شاہد ہے کہ جس نیک دلی اورحوصلے سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین کے احکام کی تعمیل کی اس کی مثال نہیں ملتی۔فوجوں کاسپہ سالار اختیار رکھتاتھاکہ اپنے احکام منوالے لیکن جس نے اپنے آپ کوراہِ خدامیں وقف کردیاہو وہ ذاتی شان وشوکت کامحتاج نہیں ہوتا۔آپ کی معزولی کے بعد سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سلطنت کے تمام علاقوں میں ایک گشتی مراسلہ بھجوایاتھاجس میں لکھاتھاکہ:میں نے خالد رضی اللہ عنہ کوکسی ناراضی یا خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیاہے بلکہ فوجی کارناموں کی وجہ سے لوگ فتنے میں مبتلاہورہے تھے اور خدشہ تھاکہ کہیں مسلمان خالد پرہی انحصار نہ کرلیں۔میں نے انہیں اس لیے معزول کیاتاکہ لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ فتح و نصرت خداکی طرف سے ہے اور ہم سب اس کے بندے ہیں۔(نورانی حکایات،ص۷۴)
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ،ایم ایچ سیٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.