You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما فرما تے ہیں: حضرت سیدنا ابومسلم خولانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کبھی بھی کسی ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھتے جو دنیاوی با توں میں مشغول ہوتا ۔ ایک مرتبہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مسجد میں گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جگہ جمع ہیں ، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے یہ گمان کیا کہ یہ لوگ ذکر اللہ عزوجل کے لئے یہاں جمع ہیں۔ چنانچہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ان کے پاس جاکر بیٹھ گئے ۔ وہ لوگ آپس میں باتیں کررہے تھے ، کوئی کہہ رہا تھا : میرا غلام فلاں فلاں جگہ گیا ۔ کوئی کہہ رہا تھا: میں نے غلام کو سفر کا سامان مہیا کردیا ہے ۔ الغر ض اسی طرح کی دنیاوی باتیں اس محفل میں ہو رہی تھیں۔
جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ان کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا: سبحان اللہ عزوجل! میراتو تمہارے متعلق کچھ اور ہی گمان تھا مگر تم کچھ اور نکلے۔ میری اور تمہاری مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص سردی کے موسم میں شدید موسلا دھار بارش میں بھیگ رہا ہو پھر اچانک اسے ایک بڑی عمارت نظر آئی، جب وہ پناہ لینے کے لئے اس میں داخل ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ اس بلند وبالاعمارت پر تو چھت ہی نہیں ، اور اس عمارت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا ۔
میں بھی تمہارے پاس اس لئے آیا تھا کہ شاید تم ذکر اللہ عزوجل میں مشغول ہو، لیکن تم تو دنیا دار لوگ ہو، تمہارے پاس بیٹھنا فضول ہے، یہ کہتے ہوئے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے تشریف لے گئے ۔
جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بڑھاپے کی وجہ سے بہت زیادہ کمزور ہوگئے تو لوگوں نے عرض کی: حضور! اپنے مجاہدات میں کچھ کمی کردیجئے۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:اے لوگو ! تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ اگر تم مقابلے کے لئے میدان میں گھوڑا بھیجوتوکیا تم اس کے سوار کو ہدایت نہیں کر و گے کہ گھوڑا خوب بھگانا، اور کسی کو اپنے سے آگے نہ نکلنے دینا اورجب تمہیں وہ جیت کانشان نظر آئے جس تک پہنچنا ہے تو گھوڑے کی رفتار مزید تیز کردینا ۔
لوگو ں نے کہا: حضور! ہم ایسی ہی ہدایتیں گھڑ سوار کو کرتے ہیں۔پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! میں بھی اپنی موت کے بالکل قریب پہنچ چکاہوں، پھر میں اپنے عمل کو کم کیسے کردوں؟ بلکہ اب تو مجھے اپنے رب عزوجل کی اور بھی زیادہ عبادت کرنی چاہے۔پھر فرمایا: ہر کوشش کرنے والے کی کوئی نہ کوئی غایت ہوتی ہے،اورہرشخص کی غایت موت ہے۔کچھ تواپنی موت تک پہنچ چکے اورجو باقی ہیں عنقریب وہ بھی پہنچ جائیں گے، بالآخر مرنا سب نے ہے۔
؎ ملک فانی میں فنا ہر شئے کو ہے
سن لگا کر کان آخر موت ہے
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.