You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حدیث
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ))
کی تحقیق انیق
*********************
ازہار احمد امجدی مصباحی
فاضل جامعہ ازہر مصر
=================
دو ہزار بارہ میں مارہرہ مقدسہ کی سرزمین پر عرس کا سما تھا، فیوض و برکات بٹ رہے تھے، مجھ ناچیز کو بھی اس سال پہلی بار عرس مقدس میں شریک ہوکر فیوض و برکات سمیٹنے کا موقع ملا، عرس کے دوسرے دن کی صبح تھی، علمائے کرام و مفکرین عظام بعد نماز فجر امت مسلمہ کی زبوں حالی پر گفتگو کر رہے تھے، میں بھی اس علمی مجلس کو غنیمت سمجھ کر شریک مجلس ہوگیا، گفتگو کے دوران ان علمائے کرام او رمفکرین عظام نے اپنے تجربات کی روشنی میں میری بھی بعض الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھایا، اللہ تعالی ان مخلص علمائے کرام کو تا دیر قائم و دائم رکھے، آمین،
امت کی زبوں حالی پر گفتگو کرتے ہوئے ایک مشہور حدیث
:((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ))
ترجمہ: ((میری قبر اور میرے منبر کا درمیانی فاصلہ جنت کی کیارویوں میں سے ایک کیاری ہے) پر گفتگو شروع ہوگئی،
جس کے مقابل صحیح بخاری و مسلم وغیرہ کی دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
((ما بین بیتی و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ))
ترجمہ: ((میرے گھر اور اور میرے منبر کا درمیانی فاصلہ جنت کی مقدس جگہوں میں سے ایک جگہ ہے))
بظاہر دونوں حدیثوں کے درمیان تعارض نظر آرہا ہے، اس لیے کہ حدیث میں ((بیتی)) کا ذکر غریب نہیں،کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ کے پاس گھر تھا، البتہ حضور ﷺ کا اپنی قبر کا اس طور سے ذکر کرنا ظاہری طور پر عجیب و غریب ضرور ہے،
کیونکہ قبر انور تو حضور نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد وجود میں آئی ، پھر حضور ﷺ نے اپنی قبر کے بارے میں کیسے خبر دے دی؟!!
بعض علمائے کرام نے ا س تعلق سے اپنی آراء پیش کیں، اس وقت میرے ذہن میں بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم سے دو جواب آئے تھے،
میں بھی تھوڑی کوشش کے بعد ایک جواب ان مشایخ کے درمیان پیش کرنے کی جسارت کرسکا، اوررہا دوسرا جواب تو وہ میرے ذہن ہی میں رہ گیا، اور اسے عرض نہیں کرسکا، بہر حال مسئلہ اس وقت پورے طور سے حل نہیں ہوسکا،
اور میری ایک اچھی عادت ہے کہ مسئلہ اگر حل نہ ہو تو خلجان- خاص طور سے اگر مسئلہ حدیث سے متعلق ہو- دل میں باقی رہتا ہے، اسی عادت کی بنا پر جب میں ربیع الاول شریف کے بعد ہندوستان سے جامعہ ازہر مصر آرہا تھا، بحرین میں چھ سات گھنٹے کا وقفہ تھا، میں نے اسی وقفے کے درمیان اپنے لیپ ٹاپ میں موجود کتابوں کے ذریعہ اس مسئلہ کے حل کے لیے کافی حد تک مواد جمع کرلیا تھا، مگر تعلیمی مصروفیت یا کہہ لیجئے کہ سستی کی وجہ سے میں اس مسئلہ کے مباحث کو قلم بند نہیں کرسکا،
بہر حال آج میں اس حدیث کے مباحث کو قلم بند کرنے کی کوشش کرہا ہوں، اور یہ عرس مارہرہ مقدسہ ہی کی برکتوں میں سے ایک عظیم برکت ہے، شاید اگر مجھے وہاں حاضری کا شرف حاصل نہیں ہوتا تو میں یہ تحریر و تحقیق اب تک قارئین کرام کے سامنے پیش نہیں کرسکتا، اللہ اہل مارہرہ شریف کے فیوض و برکات کو عام وتام فرمائے، آمین۔
اس تحقیق میں سب سے پہلے میں ان احادیث کو ذکر کروں گا جن میں لفظ ’قبر‘ کا ذکر ہے، پھر بحث و تمحیص کے بعد ان احادیث کی اسانید کا حکم باعتبار صحت و ضعف بیان کروں گا، اور اختصار کے پیش نظر راویوں کا ترجمہ، اور ان کا ثقہ و ضعف بیان کرنے کے لیے میں صرف حافظ ابن حجر کی کتاب تقریب التھذیب اور امام مزی رحمہما اللہ کی کتاب تھذیب الکمال فی اسما الرجال پر اکتفا کروں گا،
اور جہاں کسی اور کتاب کی طرف رجوع کروں گا وہاں اس کی صراحت کردوںگا، پھر اس کے بعد محدثین کرام کی توجیہات پیش کرکے ان شاء اللہ خلاصہ کلام کے طور پر نتیجہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا، و ما توفیقی إلا باللّٰہ علیہ توکلت و إلیہ أنیب۔
(۱)حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ:
ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(الف)حدثنا أبو أسامۃ، و ابن نمیر، عن عبد اللّٰہ بن عمر، عن حبیب بن عبد الرحمن، عن حفص بن عاصم، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ:
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ، و منبری علی الحوض)) ترجمہ:((میری قبر اور منبر کا درمیانی فاصلہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے، اور میرا منبر حوض کوثر پر ہے))
(مصنف ابن أبی شیبۃ،رقم: 31659)
سند پر کلام:
(۱) ابو اسامہ، یہ حماد بن اسامہ کوفی ثقہ ہیں کبھی کبھی تدلیس بھی کرتے ہیں(ت۲۰۱ھ) آپ نے اسی سال کی عمر پائی، آپ نے عبید اللہ بن عمر عمری وغیرہ سے ،اورآپ سے ابن ابی شیبہ وغیرہ نے روایت کی ہے(۲) ابن نمیر، یہ عبد اللہ بن نمیر ابو ہشام کوفی ثقہ ہیں(ت ۱۹۹ھ) آپ نے چوراسی سال کی عمر پائی، آپ نے عبید اللہ بن عمر عمری وغیرہ سے روایت کی ہے، آپ سے ابن ابی شیبہ وغیرہ نے روایت کی ہے (۳) عبد اللہ بن عمر، یہ ابو عبد الرحمن عمری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک ضعیف ہیں(ت۱۷۱ھ) لیکن ڈاکٹر محمود سعید ممدوح نے انہیں حسن الحدیث قرار دیا ہے(رفع المنارۃ، ص۳۰۴-۳۱۷) آپ نے خبیب بن عبد الرحمن وغیرہ سے ، اور آپ سے اسماعیل بن یحي شیبانی وغیرہ نے روایت کی ہے (۴) خبیب بن عبد الرحمن، یہ ابو الحارث مدنی ثقہ ہیں(ت۱۳۲) آپ نے حفص بن عاصم وغیرہ سے روایت کی ہے (۵) حفص بن عاصم، یہ حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب عمری ثقہ ہیں(آپ کی وفات ایک صدی ہجری کے بعد ہوئی) آپ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ سے روایت کی ہے (۶) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ۔
حکم: امام مزی رحمہ اللہ نے ابو اسامہ اور ابن نمیر کے ترجمہ میں عبد اللہ بن عمر عمری کو ان دونوں کے اساتذہ میں، اور نہ ہی عبد اللہ بن عمر عمری کے ترجمہ میں ان دونوں کو ان سے روایت کرنے والوں میں ذکر کیا ہے، حالانکہ ان دونوں کا عبد اللہ عمری کے معاصر ہونے کی وجہ سے ان سے سماع ممکن ہے،مگر میرا رجحان اس طرف ہے کہ یہ عبد اللہ بن عمر عمری نہیں بلکہ ان کے بھائی عبید اللہ بن عمر عمری ثقہ ہیں، کیونکہ ان دونوں کے ترجمہ میں امام مزی رحمہ اللہ نے عبید اللہ عمری کو ان کے شیوخ ، اور عبید اللہ عمری کے ترجمہ میں ان دونوں کو ان سے روایت کرنے والوں میں ذکر کیا ہے، نیز ابن ابی عاصم نے اپنی کتاب ’السنۃ‘ میں عبید اللہ بن عمر ہی ذکر کیا ہے، جیسا کہ آنے والی روایت میں اس کا بیان آرہا ہے، بہر حال اگر عبد اللہ عمری ہیں تو حدیث حسن الاسناد، اور اگر ان کے بھائی عبید اللہ عمری ہیں تو حدیث صحیح الاسنادہے، و اللہ اعلم۔
فائدہ: مصنف ابن ابی شیبہ کی سند میں ایک راوی جن کا نام خبیب بن عبد الرحمن ہے حبیب لکھا ہوا ہے، صحیح یہ کہ وہ خبیب ہی ہیں، کیونکہ عبد اللہ بن عمر عمری یہ حبیب سے نہیں بلکہ خبیب سے روایت کرتے ہیں، اور خبیب حفص بن عاصم سے روایت کرتے ہیں نہ کہ حبیب، اس لیے صحیح یہ ہے کہ سند میں ذکر کردہ راوی خبیب ہیں۔
ابن ابی عاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(ب)حدثنا أبو أسامۃ، و ابن نمیر، عن عبید اللّٰہ بن عمر، عن خبیب بن عبد الرحمن، عن حفص بن عاصم، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ:
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ، و منبری علی الحوض))
(السنۃ لابن أبی عاصم، رقم: ۷۳۱)
حکم:اس روایت کی سند پر اس سے پہلی والی حدیث میں کلام گزر چکا، اس کتاب میں اسامہ اور ابن نمیر کا عبید اللہ بن عمر عمری سے روایت کرنا مذکور ہے، اس اعتبار سے یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔واللہ اعلم۔
امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(ت)حدثنا الحسن بن محمد الزعفرانی، قال: حدثنا یحي بن عباد أبو عباد، قال: حدثنا شعبۃ، عن خبیب بن عبد الرحمن، عن حفص بن عاصم، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ:
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ، ومنبری علی ترعۃ من ترع الجنۃ))ترجمہ:((میری قبر اور میرے منبر کے درمیان کا فاصلہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے، اور میرا منبر جنت کی مقدس جگہوں میں سے ایک جگہ پر ہے))
امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(و ہذا الحدیث لانعلم رواہ عن شعبۃ إلا یحي بن عباد أبو عباد) ترجمہ: (میرے علم کے مطابق اس حدیث کو شعبہ سے صرف یحي بن عباد ابو عباد نے روایت کی ہے) (مسند البزار؍البحر الزخار، رقم: ۸۲۰۰)
سند پر کلام:
(۱) الحسن بن محمد الزعفرانی،یہ ابو علی بغدادی ثقہ ہیں(ت۲۶۰) آپ ابو عباد یحيبن عباد ضبعی وغیرہ سے روایت کرتے ہیں(۲) یحي بن عباد ابو عباد، یہ بصری صدوق ہیں(ت۲۹۸)آپ نے شعبہ بن الحجاج وغیرہ سے روایت کی ہے(۳)شعبہ، یہ شعبہ بن الحجاج عتکی ابو بسطام ثقہ، حافظ، متقن ہیں (ت۱۶۰) آپ نے خبیب بن عبد الرحمن وغیرہ سے روایت کی ہے، اور باقی راویوں کے تراجم کا بیان ماقبل سے پہلی والی روایت میں گزر چکا۔
حکم:حسن الاسناد، واللہ اعلم۔
(۲)حدیث علی بن ابی طالب و ابی ہریرہ رضی اللہ عنہما:
امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(الف) حدثنا عبد الصمد بن سلیمان المقریئ، قال: نا أبو نباتۃ یونس بن یحي، قال: نا سلمۃ بن وردان، عن أبی سعید بن أبی المعلی، عن علی بن أبی طالب رضی اللّٰہ عنہ، و أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، عن النبی ﷺ، قال:
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ)) أو قال: ((ما بین بیتی و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ))
(مسند البزار؍ البحر الزخار، رقم: ۵۱۱)
سند پر کلام:
(۱) عبد الصمد بن سلیمان المقریء مجھے ان کا ترجمہ نہیں مل سکا(۲) ابو نباتہ یونس بن یحي، یہ مدنی صدوق ہیں(ت ۲۰۷ھ) آپ نے سلمہ بن وردان وغیرہ سے روایت کی ہے (۳) سلمہ بن وردان، یہ ابو یعلی مدنی ضعیف ہیں (ت۱۵۳ھ) آپ نے ابو سعید بن ابی معلی وغیرہ سے روایت کی ہے(۴) ابو سعید بن ابی معلی، یہ مدنی مقبول ہیں (آپ کی وفات ایک صدی ہجری کے بعد ہوئی) آپ علی بن ابی طالب اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں (۵) صحابی رسول علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، و ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ۔
حکم: ضعیف الاسناد، واللہ اعلم۔
امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(ب) حدثنا عبد الصمد بن سلیمان المروزی، قال: حدثنا أبو نباتۃ، قال: حدثنا سلمۃ بن وردان، عن أبی سعید بن المعلی، عن علی بن أبی طالب رضی اللّٰہ عنہ، و أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، عن النبی ﷺ قال:
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ، و صلاۃ فی مسجدی أفضل من ألف صلاۃ فیما سواہ إلا المسجد الحرام))ترجمہ:((میری قبر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے، اور میری مسجد میں ایک نماز-سوائے مسجد حرام کے- دوسری تمام مسجدوں کی ایک ہزار نماز سے افضل ہے))
(مسند البزار؍ البحر الزخار، رقم: ۷۶۲۲)
حکم: اس روایت کی سند پر اس سے پہلی والی حدیث میں کلام گزر چکا،غالبا عبد الصمد بن سلیمان مروزی اور مقری ایک ہی ہیں، بہر حال مجھے ان کا ترجمہ بھی نہیں مل سکا، یہ روایت بھی ضعیف الاسناد ہے، واللہ اعلم۔
(۳)حدیث ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(الف) حدثنا عفان، حدثنا عبد الواحد یعنی ابن زیاد، حدثنا إسحاق بن شرفی مولی عبد اللّٰہ بن عمر، قال: حدثنا أبو بکر بن عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ بن عمر، عن عبد اللّٰہ بن عمر، قال: حدثنی أبو سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ :
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ))
قال عبد اللّٰہ: قال أبی: إسحاق بن شرفی، حدثنا عنہ محمد بن فضیل، حدثنا إسحاق بن عبد الرحمن، و قال عبد الواحد بن زیاد: إسحاق بن شرفی۔ترجمہ:(امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے صاحبزادے عبد اللہ کہتے ہیں: میرے والد نے کہا: اسحاق بن شرفی، ان سے محمد بن فضیل نے روایت کی اور کہا: ہم سے اسحاق بن عبد الرحمن نے حدیث بیان کی، اور عبد الواحد نے کہا: اسحاق بن شرفی) (مسند احمد بن حنبل، رقم: ۱۱۶۱۰) یعنی اسحاق بن شرفی اور اسحاق بن عبد الرحمن ایک ہی ہیں۔
سند پر کلام:
(۱) عفان، یہ عفان بن مسلم ابو عثمان الباہلی ثقہ، ثبت ہیں (ت۲۱۹ھ) آپ نے عبد الواحد بن زیاد وغیرہ سے، اور آپ سے امام احمد بن حنبل و غیرہ نے روایت کی ہے(۲)عبد الواحد بن زیاد، یہ ابو بشر عبدی بصری ثقہ ہیں (ت ۱۷۶ھ)آپ نے اسحاق بن شرفی وغیرہ سے(المؤتلف و المختلف للدارقطنی، باب شرفی و شرقی) روایت کی ہے (۳)اسحاق بن شرفی مولی عبد اللہ بن عمر، بعض نے انہیں اسحاق بن مغیرہ، اور بعض نے اسحاق بن عبد رالرحمن کہا، بہر حال وہ ثقہ ہیں (العلل و معرفۃ الرجال لاحمد بن حنبل، رقم:۴۱۶۶، الثقات لابن شاہین، رقم: ۶۳)آپ نے ابو بکر بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عمر وغیرہ سے روایت کی ہے(۴) ابو بکر بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عمر، یہ ابو بکر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عمرمدنی ثقہ ہیں(آپ کی وفات ایک صدی ہجری کے بعد ہوئی ) آپ نے اپنے والد کے دادا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ سے روایت کی ہے، مگر آپ کی روایت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے منقطع ہے(الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم، رقم: ۱۴۹۱)(۵) صحابی رسول عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما (۶) صحابی رسول ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ۔
حکم: منقطع الاسناد، واللہ اعلم۔
امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(ب) و حدثنا علی بن عبد الرحمن بن محمد بن المغیرۃ، و محمد بن علی بن داؤد قالا: حدثنا عفان بن مسلم، قال: حدثنا عبد الواحد بن زیاد، قال: حدثنا إسحاق بن شرفی مولی آل عمر، قال: حدثنی أبو بکر بن عبد الرحمن أن عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما، قال: حدثنی أبو سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ :
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ))(شرح مشکل الآثار، رقم: ۲۸۷۹)
سند پر کلام:
(۱) علی بن عبد الرحمن بن محمد بن المغیرۃ،یہ مصری ہیں، ان کا لقب علان ہے، آپ صدوق ہیں(ت ۲۷۲ھ)آپ سے ابو جعفر طحاوی وغیرہ نے روایت کی ہے، امام مزی نے آپ کے شیوخ میں عفان بن مسلم کو ذکر نہیں کیا، اور نہ ہی آپ کو عفان بن مسلم کے شاگردوں میں شمار کیا ہے، اوراس کا ذکر مجھے بعض دوسری کتابوں میں بھی نہیں مل سکا (۱) محمد بن علی بن داؤد، یہ ابن اخت غزال سے مشہور ہیں، آپ ثقہ ہیں(ت۲۶۴ھ) آپ نے عفان بن مسلم وغیرہ سے، اور آپ سے امام ابو جعفر طحاوی وغیرہ نے روایت کی ہے(تاریخ ابن یونس المصری، رقم: ۵۸۰، و تاریخ دمشق لابن عساکر، رقم: ۶۷۹۴) باقی راویوں پر کلام اس سے پہلی والی روایت میں گزرچکا۔
حکم: منقطح الاسناد، واللہ اعلم۔
ابو یعلی موصلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(ت) حدثنا زہیر، حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا عبد الواحد بن زیاد، حدثنا إسحاق بن شرفی مولی ابن عمر، قال: حدثنی أبو بکر بن عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ بن عمر، عن عبد اللّٰہ بن عمر، قال: حدثنی أبو سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ :
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ))(مسند أبی یعلی الموصلی، رقم: ۱۳۴۱)
سند پر کلام:
(۱) زہیر، یہ زہیر بن حرب بن شدادابو خیثمہ نسائی ثقہ، ثبت ہیں(ت ۲۳۴)آپ نے عفان بن مسلم وغیرہ سے اور آپ سے ابو یعلی موصلی وغیرہ نے روایت کی ہے، باقی راویوں پر کلام اس سے پہلے سے پہلی والی روایت میں گزرچکا۔
حکم: منقطع الاسناد۔
(۳)حدیث ابن زبیر رضی اللہ عنہ:
حدثنا محمد بن عمر، ثنا الولید بن کثیر، عن سعید بن أبی ھند، حدثنی قُنْفُذ، قال: رأیت الزبیر کثیرا یصلی بین القبر و المنبر فقلت لہ فی ذلک، فقال: سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول:
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ)) قلت: وأعادہ فقال: ((ما بین بیتی و منبری))(مسند الحارث؍بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث، رقم: ۳۹۹)
سند پر کلام:
(۱) محمد بن عمر، یہ واقدی ابو عبد اللہ اسلمی ہیں، آپ سعت علم کے باوجود بھی متروک ہیں (ت ۲۰۷ھ) آپ نے الولید بن کثیر وغیرہ سے، اور آپ سے الحارث بن محمد بن ابی اسامہ تمیمی وغیرہ نے روایت کی ہے (۲) الولید بن کثیر، یہ ابو محمد مدنی صدوق ہیں (ت۱۵۱ھ) آپ نے سعید بن ابی ہند وغیرہ سے روایت کی ہے(۳) سعید بن ابی ہند، یہ فزاری ثقہ ہیں (ت ۱۱۶ھ) آپ نے صحابی قنفذ رضی اللہ عنہ(صحیح یہ کہ آپ نے صحابی رسول مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ) وغیرہ سے روایت کی ہے (۴) قنفذ، یہ قنفذ بن عمیر تمیمی صحابی ہیں، مگر صحیح یہ ہے کہ یہ قنفذ نہیں بلکہ ان کے بیٹے صحابی رسول مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ ہیں، آپ نے رسول اللہ ﷺاور ابن الزبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے(اسد الغابۃ لابن الاثیر، رقم:۴۳۲۳، ۵۱۳۸) (۵) صحابی رسول الزبیر بن العوام رضی اللہ عنہ ، مگر صحیح یہ ہے کہ اس حدیث کے صحابی ان کے بیٹے عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما ہیں(اسد الغابۃ لابن الاثیر، رقم:۴۳۲۳)
حکم:ضعیف الاسناد، و اللہ اعلم۔
(۴)حدیث عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ:
امام ابو بکر رویانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نا محمد بن بشار، نا عبد الرحمن بن مہدی، نا مالک بن أنس، عن عبد اللہ بن أبی بکر، عن عباد بن تمیم، عن عبد اللّٰہ بن زید، أن النبی ﷺ قال:
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ))(مسند الرویانی، رقم: ۱۰۰۷)
سند پر کلام:
(۱) محمد بن بشار، یہ ابوبکر بندار بصری ثقہ ہیں(ت۲۵۲) آپ نے عبد الرحمن بن مہدی وغیرہ سے روایت کی ہے(۲) عبد الرحمن بن مہدی یہ ابو سعید عنبری ثقہ، ثبت، حافظ ہیں(۱۹۸ھ) آپ نے مالک بن انس وغیرہ سے روایت کی ہے (۳) مالک بن انس، یہ ابو عبد اللہ امام دار الہجرہ ثقہ ہیں(ت ۱۷۹) آپ نے عبد اللہ بن ابی بکر وغیرہ سے روایت کی ہے (۴) عبد اللہ بن ابی بکر، یہ عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم انصاری ثقہ ہیں (ت ۱۳۵ھ) آپ نے عباد بن تمیم انصاری وغیرہ سے روایت کی ہے (۵) عباد بن تمیم، یہ انصاری مدنی ثقہ ہیں (ان کی وفات ایک صدی ہجری کے بعد ہوئی) آپ نے عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ وغیرہ سے روایت کی ہے (۶) صحابی رسول عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ۔
حکم: صحیح الاسناد، و اللہ اعلم۔
(۵)حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا:
امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(الف) و حدثنا عبد الغنی بن أبی عقیل، قال: حدثنا سفیان بن عیینۃ، عن عمار الدہنی، عن أبی سلمۃ، عن أم سلمۃ رضی اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ ﷺ:
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ، و إن قوائم منبری علی رواتب فی الجنۃ))ترجمہ:((میری قبر اور منبر کے درمیان کی جگہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے، اور میرے منبر کے پائے جنت کے مضبوط پایوں پر ہے))(شرح مشکل الآثارللطحاوی، رقم: ۲۸۷۲)
سند پر کلام:
(۱) عبد الغنی بن ابی عقیل، یہ عبد الغنی بن رفاعہ بن عبد الملک، ابو جعفر ابن عقیل مصری ثقہ ہیں (ت ۲۵۵ھ) آپ نے سفیان بن عیینہ وغیرہ سے، اور آپ سے ابو جعفر طحاوی وغیرہ نے روایت کی ہے (۲) سفیان بن عیینہ، یہ ابو محمد کوفی ثقہ، حافظ، حجت ہیں (ت ۱۹۸ھ)آپ نے عمار دہنی وغیرہ سے روایت کی ہے (۳) عمار دہنی، یہ عمار بن معاویہ دہنی ابو معاویہ کوفی صدوق ہیں (ت ۱۳۳ھ) آپ نے ابوسلمہ وغیرہ سے روایت کی ہے (۴) ابوسلمہ، یہ عبد اللہ بن عبد الرحمن بن عوف مدنی ثقہ ہیں (ت ۱۹۴ھ) آپ نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا وغیرہ سے روایت کی ہے (۵) ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا۔
حکم: حسن الاسناد، و اللہ اعلم۔
امام ابو بکر محمد بن الحسین آجری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(ب) أخبرنا أبو محمد عبد اللّٰہ بن صالح البخاری، قال: حدثنا أبو معمر القطیعی، و محمد بن أبی عمر العدنی، و یوسف بن موسی القطان، قالوا: حدثنا سفیان بن عیینۃ، عن عمار الدھنی، عن أبی سلمۃ، عن أم سلمۃ رحمہا اللّٰہ، أن النبی ﷺ قال:
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ، و إن قوائم منبری ھذا رواتب فی الجنۃ))
(الشریعۃ للآجری، رقم: ۱۸۳۵)
سند پر کلام:
(۱) ابو محمد عبد اللہ بن صالح بخاری ، یہ عبد اللہ بن صالح بن عبد اللہ بن الضحاک ثقہ ہیں (ت ۳۰۵ھ) (تاریخ بغداد للخطیب بغدادی، رقم: ۵۰۶۴)آپ نے ابو معمر قطیعی، محمد بن ابی عمر عدنی وغیرہ سے روایت کی ہے(۲) ابو معمر قطیعی، یہ اسماعیل بن ابراہیم بن معمر، ابو معمر قطیعی ثقہ، مامون ہیں (ت ۲۳۶ھ) آپ نے سفیان بن عیینہ وغیرہ سے روایت کی ہے(۳) محمد بن ابی عمر عدنی، یہ محمد بن یحي بن ابی عمر عدنی صدوق ہیں (ت ۲۴۳ھ) آپ نے سفیان بن عیینہ وغیرہ سے روایت کی ہے (۴) یوسف بن موسی قطان، یہ یوسف بن موسی بن راشد صدوق ہیں (۲۵۳ھ) آپ نے سفیان بن عیینہ وغیرہ سے روایت کی ہے ۔باقی راویوں پر کلام ماقبل والی روایت میں گزرچکا۔
حکم: صحیح الاسناد، واللہ اعلم۔
(۶)حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما:
امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(الف) حدثنا محمد بن علی بن داود،قال: حدثنا أحمد بن یحي المسعودی، قال: حدثنا مالک، عن نافع، عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ:
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ))
قال أبو جعفر:(و ھذا من حدیث مالک یقول أہل العلم بالحدیث: إنہ لم یحدث بہ عن مالک أحد غیر أحمد بن یحي، و غیر عبد اللّٰہ بن نافع الصائغ)ترجمہ:ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (اہل علم کہتے ہیں کہ اس روایت کو امام مالک رحمہ اللہ کی حدیث سے احمد بن یحي اور عبد اللہ بن نافع صائغ کے سوا کسی نے روایت نہیں کی) (شرح مشکل الآثار للطحاوی، رقم: ۲۸۷۴)
سند پر کلام:
(۱)محمد بن علی بن داؤد، یہ ابن اخت غزال سے مشہور ہیں، آپ ثقہ ہیں(ت۲۶۴ھ) آپ سے امام ابو جعفر طحاوی وغیرہ نے روایت کی ہے(تاریخ ابن یونس المصری، رقم: ۵۸۰، و تاریخ دمشق لابن عساکر، رقم: ۶۷۹۴)۔ (۲) احمد بن یحي مسعودی، مجھے یحي بن مسعودی کا ترجمہ نہیں مل سکا (۳) مالک، یہ مالک بن انس ابو عبد اللہ امام دار الہجرہ ثقہ ہیں(ت ۱۷۹) آپ نے نافع مولی ا بن عمر وغیرہ سے روایت کی ہے (۴) نافع، یہ نافع مولی عبد اللہ بن عمر، ابو عبد اللہ مدنی ثقہ، ثبت ہیں (ت ۱۱۷ھ) آپ نے عبد اللہ بن عمر رـضی اللہ عنہما وغیرہ سے روایت کی ہے (۵) صحابی رسول ابن عمر رضی اللہ عنہما۔
حکم: اس روایت کا حکم احمد بن یحي مسعودی کی ثقاہت و ضعف پر موقوف ہے۔
امام سلیمان بن احمد طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(ب) حدثنا أحمد قال: نا أبو حصین الرازی، قال: نا یحي بن سلیم، عن عبد اللّٰہ بن عثمان بن خثیم، عن نافع، عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ:
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ)) (لم یرو ھذا الحدیث عن ابن خثیم إلا یحي، تفرد بہ أبو حصین)ترجمہ:امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (اس حدیث کو ابن خثیم سے یحي کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا، ابو حصین ا ن کو ذکر کرنے میں متفرد ہیں)(المعجم الأوسط للطبرانی، رقم: ۶۱۰)
سند پر کلام:
(۱) احمد، غالبا یہ احمد بن علی ابار ثقہ ہیں جو شیوخ طبرانی میں سے ہیں(ت۲۹۰) آپ نے ابو حصین وغیرہ سے روایت کی ہے(تاریخ الاسلام للذہبی، رقم: ۵۷) (۲) ابو حصین رازی، یہ ابو حصین عبد اللہ بن یحي بن سلیمان ثقہ ہیں (آپ کی وفات دو سری صدی ہجری کے بعد ہوئی) آپ نے یحي بن سلیم طائفی وغیرہ سے روایت کی ہے (۳) یحي بن سلیم، یہ طائفی صدوق سيء الحفظ ہیں (۲۹۳ھ) آپ نے عبد اللہ بن عثمان بن خثیم وغیرہ سے روایت کی ہے (۴) عبد اللہ بن عثمان بن خثیم، یہ ابو عثمان مکی صدوق ہیں (ت ۱۲۳ھ)آپ نے نافع مولی بن عمروغیرہ سے روایت کی ہے (۵) نافع، اس سے پہلی والی روایت میں ان کا ترجمہ گزرچکا(۶) صحابی رسول ابن عمر رضی اللہ عنہما۔
حکم: ضعیف الاسناد، و اللہ اعلم۔
امام طبرانی سلیمان بن احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(ج) حدثنا محمد بن أحمد بن أبی خیثمۃ، قال: قلت لإدریس بن عیسی القطان، حدثکم محمد بن بشر العبدی، ثنا عبید اللّٰہ بن عمر، عن أبی بکر بن سالم، عن سالم، عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما، عن النبی ﷺ قال:
((ما بین قبری، و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ، و منبری علی حوضی))
(فأخرج أصلہ و قال: قد کتبتہ عن محمد بن بشر)ترجمہ:(یعنی سند میں مذکور ادریس بن عیسی نے اپنی اصل کتاب نکالی اور کہا: میں نے اس حدیث کو محمد بن بشر سے لکھا ہے) (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم: ۱۳۱۵۶ )
سند پر کلام:
(۱) محمد بن احمد بن ابی خیثمہ، یہ ابو عبد اللہ نسائی ثقہ ہیں (۲۹۷ھ) آپ نے نصر بن علی جہضمی وغیرہ سے، اور آپ سے طبرانی وغیرہ نے روایت کی ہے (تاریخ الاسلام للذہبی، رقم: ۳۶۹) (۲) ادریس بن عیسی قطان، یہ ابو محمد مخرمی ’لاباس بہ‘ ہیں (ت ۲۵۶ھ)آپ نے زید بن حباب وغیرہ سے، اور آپ سے یحي بن محمد بن صاعد وغیرہ نے روایت کی ہے(تاریخ بغداد للخطیب، رقم: ۳۴۳۱) (۳) محمد بن بشر عبدی، یہ ابو عبد اللہ کوفی ثقہ، حافظ ہیں (ت ۲۰۳ھ) آپ نے عبید اللہ بن عمر عمری وغیرہ سے روایت کی ہے (۴) عبید اللہ بن عمر، یہ عبید اللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب، ابو عثمان ثقہ، ثبت ہیں (ت ۱۴۳ھ) آپ نے ابو بکر بن سالم وغیرہ سے روایت کی ہے (۵) ابو بکر بن سالم، یہ ابو بکر بن سالم بن عبد اللہ بن عمر ثقہ ہیں (آپ کی وفات ایک صدی ہجری کے بعد ہوئی) آپ نے اپنے والد سالم بن عبد اللہ بن عمرسے روایت کی ہے (۶) سالم، یہ سالم بن عبد اللہ بن عمر بن الخطاب، ابو عمر مدنی، فقہائے سبعہ میں سے ہیں، آپ ثبت ہیں (۱۰۶ھ) آپ نے اپنے والد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ سے روایت کی ہے (۷) صحابی رسول عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما۔
حکم: حسن الاسناد، و اللہ اعلم۔
(۷) حدیث ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ:
ابو سعید ابن الاعرابی احمد بن محمد صوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نا محمد، نا سعید بن سلام العطار، نا أبو بکر بن أبی سبرۃ، عن زید بن أسلم، عن عطاء بن یسار، عن عبد الرحمن بن یربوع، عن أبی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ:
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ))(معجم ابن الأعرابی، رقم: ۳۳۷)
سند پر کلام:
(۱) محمد، یہ محمد بن سلیمان بن الحارث باغندی ابو بکر واسطی ہیں، جو ’لاباس بہ‘ ہیں(ت ۲۸۳ھ) آپ نے سعید بن سلام و غیرہ سے روایت کی ہے(تاریخ بغداد للخطیب، رقم: ۸۲۲، المغنی فی الضعفاء للذہبی، رقم: ۵۵۸۴) (۲) سعید بن سلام عطار، یہ سعید بن سلام بن ابی ہیفاء ابو الحسن بصری متہم بالکذب و الوضع ہیں(ت۲۱۴ ھ) انہوں نے ابو بکر بن ابی سبرہ وغیرہ سے روایت کی ہے (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، رقم: ۸۲۸، تاریخ بغدادللخطیب، رقم: ۴۶۱۴، تاریخ الاسلام للذہبی، رقم:۱۵۳)(۳) ابو بکر بن ابی سبرہ، یہ ابو بکر بن عبد اللہ بن محمد بن ابی سبرہ مدنی متہم بالوضع ہیں (۱۶۲ھ) انہوں نے زید بن اسلم وغیرہ سے روایت کی ہے(۴) زید بن اسلم، یہ عدوی مولی بن عمربن الخطاب ثقہ ہیں، آپ ارسال کرتے تھے (۱۳۶ھ) آپ نے عطا بن یسار وغیرہ سے روایت کی ہے (۵) عطا بن یسار، یہ ابو محمد ہلالی، مدنی ثقہ، فاضل ہیں (ت ۹۴ھ) آپ نے ابی بن کعب وغیرہ سے روایت کی ہے(۶) عبد الرحمن بن یربوع، یہ عبد الرحمن بن سعید بن یربوع مخزومی ابو محمد ثقہ ہیں (ت ۱۰۹ھ) آپ نے ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ وغیرہ سے روایت کی ہے(۷) صحابی رسول ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ۔
حکم: شدید ضعیف الاسناد، قابل اعتبار نہیں۔
(۸) حدیث سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ:
ابو سعید ابن الاعرابی احمد بن محمد صوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نا محمد بن سلیمان الباغندی، نا صالح بن الحسین السواق، قال: حدثنی أبی، عن جناح النجار، قال: بعثت إلی فاطمۃ بنت سعد بن أبی وقاص أصلح لہا شیئا فی منزلہا فأتیتہا، فقالت: أین تسکن؟ قلت: معک فی الزقازق، قالت: الزم علیک منزلک فإنی سمعت أبی سعد بن أبی وقاص رضی اللّٰہ عنہ، یقول: سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول:
((ما بین قبری ومصلاي روضۃ من ریاض الجنۃ))(معجم ابن الأعرابی، رقم: ۳۳۹)
سند پر کلام:
(۱) محمد بن سلیمان الباغندی، یہ ابو بکر واسطی ہیں، ان کا ترجمہ ابھی ابھی گزرا (۲) صالح بن الحسین السواق، یہ اپنے والد الحسین سے روایت کرتے ہیں، مجہول ہیں(الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم، رقم: ۲۸۴) (۳) أبی، یہ صالح کے والد الحسین بن صالح جناح النجار سے روایت کرتے ہیں، مجہول ہیں(الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم، رقم: ۲۸۴) (۴) جناح النجار، یہ مولی لیلی بنت سہیل قرشیہ ہیں، آپ نے عائشہ بنت سعد سے روایت کی ہے، ابو حاتم نے آپ کو مجہول قرار دیا(الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم، رقم: ۲۲۳۴) اور ابن حبان نے ان کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے(رقم: ۷۱۳۵) (۵)فاطمۃ بنت سعد بن أبی وقاص، مجھے ان کا ذکر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اولاد میں نہیںملا، بلکہ ان کی اولاد میں عائشہ کا ذکر ہے (۶) صحابی رسول سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ۔
حکم: ضعیف الاسناد، و اللہ اعلم۔
(۹) حدیث عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ:
ابو سعید ابن الاعرابی احمد بن محمد صوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نا أبو رفاعۃ، نا محمد بن سلیمان التیمی القرشی، نا مالک بن أنس، عن ربیعۃ بن أبی عبد الرحمن، عن سعید بن المسیب، عن ابن عمر رضی اللہ عنہما، عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ:
((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ))(معجم ابن الأعرابی، رقم: ۱۹۲۱)
سند پر کلام:
(۱) ابو رفاعہ، یہ عبد اللہ بن محمد بن عمر بن حبیب عدوی بصری ثقہ ہیں (ت۲۷۱ھ) آپ نے ابراہیم بن بشار رمادی وغیرہ سے روایت کی ہے (تاریخ بغداد للخطیب، رقم: ۵۱۵۰)(۲) محمد بن سلیمان تیمی قرشی، یہ محمد بن سلیمان بن معاذ ہیں، ابن حبان نے انہیں الثقات میں ذکر کیا، اور فرمایا:کبھی کبھی غلطی کرتے، اور غریب حدیث روایت کرتے ہیں، آپ امام مالک وغیرہ سے، اور آپ سے اہل بصرہ نے روایت کی ہے(الثقات لابن حبان، رقم: ۱۵۲۶۱) اور بعض لوگوں نے ان کی تضعیف بھی کی ہے (التحفۃ اللطیفۃ فی تاریخ المدینۃ الشریفۃ للسخاوی، رقم: ۳۷۹۵)(۳) مالک بن انس، ان کا بھی ترجمہ گزرچکا، آپ نے ربیعہ بن ابی عبد الرحمن وغیرہ سے روایت کی ہے (۴) ربیعۃ بن ابی عبد الرحمن، یہ ابو عثمان مدنی ثقہ، فقیہ ہیں (ت ۱۳۶ھ) آپ نے سعید بن المسیب وغیرہ سے روایت کی ہے(۵) سعید بن المسیب، یہ سعید بن المسیب بن حزن بن ابی وہب قرشی، مخزومی ثبت، فقیہ ہیں (آپ کی وفات ۹۰ھ کے بعد ہوئی )آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ سے روایت کی ہے (۶) صحابی رسول ابن عمر رضی اللہ عنہما(۷) صحابی رسول عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ۔
حکم: حسن الاسناد، و اللہ اعلم۔
اس تفصیلی بیان سے واضح ہوگیا کہ جن اسانید کے ذریعہ حدیث کے یہ الفاظ : ((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ)) مروی ہیں، ان میں سے بعض صحیح الاسناد، بعض حسن الاسناد، بعض ضعیف الاسناد اور بعض شدید ضعیف الاسناد ہیں، چونکہ صحیح الاسناد اور حسن الاسناد رواتیں موجود ہیں، اس لیے ان الفاظ کے ساتھ مذکورہ احادیث کو یک لخت رد نہیں کیا جاسکتا تھا، اسی وجہ سے محدثین کرام وفقہائے عظام نے حدیث:((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ)) اور حدیث: ((ما بین بیتی و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ)) کے درمیان متعدد طریقے سے توفیق و تطبیق دی ہے، میں یہاں پر اختصار کے ساتھ ان کے تطبیقی اقوال کو ذکر کرتاہوں، پھر ان شاء اللہ کونسی تطبیق راجح ہے اسے بیان کروں گا، قارئین ملاحظہ فرمائیں:
پہلی توجیہ:
امام ابن بطال رحمہ اللہ اس حدیث کے مختلف الفاظ ذکر کرنے بعد لکھتے ہیں:
(امام طبری رحمہ اللہ نے فرمایا: حضور نبی کریم ﷺ کا قول: ((ما بین بیتی و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ)) دو معنوں کا احتمال رکھتا ہے، پہلا معنی: آپ ﷺکا وہ گھر جس میں آپ ﷺرہتے ہیں، اور یہ معنی اظہر ہے۔۔۔۔۔۔دوسرا معنی:- اس معنی کے قائل زید بن اسلم ہیں-وہ یہ کہ حدیث میں مذکور گھر سے مراد حضور نبی کریم ﷺ کی قبر انور ہے، اس معنی کی تائید ((ما بین قبری و منبری)) والی روایت کرتی ہے)
پھر آگے فرماتے ہیں: (چونکہ حضور نبی کریم ﷺ کی قبر انور آپ ﷺ کے گھروں میں سے ایک گھر ہی میں ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ تمام روایات کے الفاظ اگرچہ مختلف ہیں مگر سب صحیح ہیں، کیونکہ سب کے معنی متفق ہیں، اس لیے کہ جس گھر میں حضور نبی کریم ﷺ کی قبر انور ہے، وہ آپ ﷺ کے حجروں میں سے ایک حجرہ، آپ ﷺ کے گھروں میں سے ایک گھر ہے، اور یہی حجرہ اور گھر حضور ﷺ کی قبر انور ہے) (شرح صحیح البخاری لابن البطال، کتاب صلاۃ العیدین و التجمل فیہما، ۴؍باب فضل ما بین القبر و المنبر، رقم: ۱۵۱)
خاتم الحفاظ امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
(امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا: امام طبری رحمہ اللہ نے حدیث میں مذکور لفظ((بیتی)) کی مراد تعیین کرنے میں دو قول ذکر کیے ہیں، پہلا قول: اس سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور ہے، اور اس کی تائید ((ما بین قبری)) والی روایت کرتی ہے، دوسرا قول: ظاہری اعتبار سے اس سے مراد حضور ﷺ کا وہ گھر ہے جس میںآپ رہتے تھے، اور دونوں کے معنی تقریبا یکساں ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کی قبر انور آپ ﷺ کے گھر ہی میں ہے) (تنویر الحوالک شرح موطأ مالک للسیوطی، رقم: ۴۶۳)
علامہ علی قاری حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((مابین بیتی و منبری)) اس سے مراد حضور نبی کریم ﷺ کا مقدس گھر ہے جس میں آپ رہتے تھے، اور بعض لوگوں نے کہا کہ حدیث میں مذکور مقدس گھر سے مراد قبر ہے، اس کی توثیق حدیث کے اس الفاظ: ((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ)) سے ہوتی ہے، اور ان دونوں کے درمیان کوئی منافات نہیں، کیونکہ آپ ﷺ کی قبر انور آپ ﷺ کے مقدس گھر ہی میں ہے) (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المفاتیح لعلی القاری، رقم: ۶۹۴)
علامہ زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((ما بین بتی و منبری)) حضور ﷺ کے قول ((بیتی)) سے مراد ((قبری)) ہے، کیونکہ آپ ﷺ سے ((ما بین قبری)) بھی مروی ہے، اور بعض لوگوں نے کہا: وہ مقدس گھر مراد ہے جس میں حضور نبی کریم ﷺ رہتے تھے، اور دونوں معنی ایک دوسرے کے قریب ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کی قبر آپ ﷺ کے گھر ہی میں ہے) (شرح الزرقانی علی الموطا، رقم: ۴۶۲-۴۶۴)
حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(مسند بزار میں سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث جس کے رجال ثقات ہیں، اور معجم الطبرانی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں لفظ قبر کا ذکر ہے، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کے قول ((بیتی)) سے مراد آپ ﷺ کا کوئی ایک مقدس گھر ہے، اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا گھر ہے، جو بعد میں آپ ﷺ کی قبر انور ہوگئی) (فتح الباری لابن حجر، باب ، کتاب فضائل المدینۃ، رقم:۱۸۸۸ )
ان محدثین عظام نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہ حدیث: ((ما بین قبری و منبری)) بعینہ حضور ﷺ کا فرمان ہے یا پھر معنًی روایت کی گئی ہے، مگر ان کے مذکورہ بالا اقوال سے اتنا ضرور واضح ہوگیا کہ حدیث :((ما بین قبری و منبری))خواہ بعینہ حضور ﷺ کے الفاظ ہوں یا معنًی مروی ہوں دونوں صورتوں میں ان کے نزدیک مقبول ہے، نیز یہ بھی واضح ہوگیا کہ ان کے نزدیک حدیث: ((ما بین قبری)) اور حدیث ((ما بین بیتی)) کے درمیان کوئی تعارض و منافات نہیں۔
دوسری توجیہ:
امام ابو جعفر طحاوی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(دونوں الفاظ یعنی :((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ)) اور ((ما بین بیتی و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ)) کی تصحیح اس بات کو واجب کرتی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا مقدس گھر ہی قبر ہو، اور اس اعتبار سے بلاشک و شبہ یہ نبوت کی عظیم علامتوں میں سے ایک علامت ہوگی، کیونکہ نبی کریم ﷺ کے سوا ہر ایک پر اللہ تعالی نے یہ مخفی رکھاکہ وہ کس جگہ وفات پائے گا، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ((و ما تدری نفس باي ارض تموت)) (سورئہ لقمان:۳۱؍آیت:۳۴)ترجمہ: ((اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی)) (کنز الایمان) مگر اللہ تعالی نے حضور ﷺ کو آپ ﷺ کے وفات پانے کی جگہ بتادی، اور اس جگہ کو بھی بتادیا جس میں آپ ﷺ کی قبر ہوگی، جس کی وجہ سے آپ ﷺ کو اس کا علم آپ ﷺ کی حیات ہی میں ہوگیا تھا، یہاں تک کہ آپ نے اپنی امت میں سے جن کو چاہا اس بات کی خبر دی، یہ وہ مقام و مرتبہ ہے جس کے اوپر کوئی مقام و مرتبہ نہیں، زادہ اللہ تعالی شرفا و خیرا) (شرح مشکل الآثار للطحاوی، رقم: ۲۸۸۴)
امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(حضور نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((ما بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ)) امام احمدرحمہ اللہ نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث، اور امام نسائی رحمہ اللہ نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے تخریج کی ہے، یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ آپ ﷺ کو اپنی حیات ہی میں اپنی وفات اور دفن کی جگہ کا علم ہوگیا تھا) ( فتح الباری لابن رجب، رقم: ۱۰۳۹)
ان دونوں محدثین کرام کی توجیہات سے واضح ہوگیا کہ آپ ﷺ کو اپنی وفات اور مقام تدفین کا علم عطا کردیا گیا تھا، اس لیے ان دونوں حدیثوں کے درمیان کوئی تعارض وتدافع نہیں۔
فضل ربی:یہ وہ دوسرا جواب ہے جو مارہرہ شریف میں علمائے کرام سے گفتگو کے درمیان میرے ذہن میں آیا تھا مگر میں اس جواب کو ان بزرگ شخصیات کے درمیان پیش نہیں کرسکا تھا۔
تیسری توجیہ:
ابن تیمیہ نے لکھا:
(وہ حدیث جس میں ((فی بیتی)) کا ذکر ہے وہی ثابت و صحیح ہے، لیکن بعض لوگوں نے اس حدیث کو معنًی روایت کیا اور کہ دیا: ((قبری)) اور حال یہ ہے کہ حضور ﷺ اس وقت بقید حیات تھے، اسی وجہ سے آپ کے مقام تدفین کے بارے میں جب صحابہ کرام کے درمیان تنازع ہوا تو کسی بھی صحابی نے اس حدیث سے احتجاج نہیں کیا، اگر ان الفاظ کے ساتھ ان کے پاس حدیث ہوتی تو یہ قاطع نزاع ہوتی، بلکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ جس میں آپ کی وفات ہوئی اسی میں تدفین ہوئی، میرے ماں باپ آپ پر قربان صلوات اللہ و سلامہ علیہ) (حاشیۃ مسند أحمد بحوالہ الفائدۃ الجلیلۃ لابن تیمیۃ، رقم: ۱۱۶۱۰)
((قبری)) والی روایت کو غلط قرار دینے والوں کارد:
(۱)اسانید صحیحہ و حسنہ کے ساتھ یہ الفاظ: ((ما بین قبری)) مروی ہیں، اس لیے ان روایات کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا، اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب معنًی مروی ہیں، بلکہ ایسی صورت میں تطبیق وتوفیق دی جائے گی، جیسا کہ آپ حضرات نے توفیق و تطبیق کی چند مثالیں علمائے کرام کے اقوال کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔
(۲) علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(حضور نبی کریم ﷺ کا قول :((ما بین بیتی و منبری)) اکثر روایتیں انہیں الفاظ کے ساتھ وارد ہیں، اور صرف ابن عسارکر رحمہ اللہ کی روایت میں ہے: ((ما بین قبری و منبری)) اور بعض لوگوں نے کہا کہ یہ روایت غلط ہے، اور احتجاج کے طور پر یہ کہا: کیونکہ امام بخاری کے شیخ مسدد کی مسند میں لفظ ((بیتی)) کے ساتھ مروی ہے، اور اسی طرح لفظ ((بیتی))کے ساتھ ’’باب فضل ما بین القبر و المنبر‘‘ میں بھی مذکور ہے، میں کہتا ہوں: اس روایت کا غلط کی طرف نسبت کرنا غلط ہے، کیونکہ لفظ ((قبری و منبری)) ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بھی واقع ہے، جس کی تخریج امام طبرانی رحمہ اللہ نے ایسی سند سے کی ہے جس کے رجال ثقات ہیں، اور اسی طرح سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث میں سند صحیح کے ساتھ واقع ہے، اس کی تخریج امام بزار رحمہ اللہ نے کی ہے) (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری للعینی، ۹۲- کتاب فضائل المدینۃ،۲۱-باب، رقم: ۸۸۸۱)
علامہ بد رالدین عینی رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا قول میں:(اور بعض لوگوں نے کہا) سے مراد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہیں، جنہوں نے ایک خاص طریق سے مروی لفظ: ((قبری)) کو خطا قرار دیا تھا، اس کو بھی علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ نے تسلیم نہیں کیا، اور اس روایت کو خطا کی طرف نسبت کرنے کو خود خطا قرار دیا۔
(۳)جب ایک خاص طریق سے اس روایت ((قبری)) کو خطا قرار دینا خطا ہے تو ابن تیمیہ کا اس لفظ کے ساتھ تمام روایات کو بالکلیہ تسلیم نہ کرنا بدرجہ اولی خطا ہوگی۔
(۴) اگر تسلیم کر لیا جائے کہ ان احادیث کو معنًی روایات کیا گیا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں، کیونکہ حدیث بالمعنی روایت کرنا اس وقت غیر مقبول ہوتی ہے جب معنی میں خلل پیدا ہو، اور یہاں معنی میں کوئی خلل نہیں، کیونکہ جو گھر ہے، وہی قبر ہے، اور جو قبر ہے، وہی گھر ہے۔
فضل ربی: اس کا کچھ حصہ میرا پہلا جواب تھا جسے میں نے معزز علمائے کرام کے درمیان پیش کرنے کی جسارت کی تھی۔
۔(۵) اور ابن تیمیہ کا یہ کہنا: (اسی وجہ سے آپ کے مقام تدفین کے بارے میں جب صحابہ کرام کے درمیان تنازع ہوا تو کسی بھی صحابی نے اس حدیث سے احتجاج نہیں کیا، اگر ان الفاظ کے ساتھ ان کے پاس حدیث ہوتی تو یہ قاطع نزاع ہوتی) بجا نہیں، کیونکہ حضور ﷺ نے ((ما بین قبری)کے بارے میں خبر دینے کے بعد اس کی تعیین اپنے اس فرمان عالی شان سے فرمادی تھی، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ((ما قبض نبی إلا دفن حیث یقبض)) ترجمہ: ((ہر نبی کی اسی جگہ تدفین ہوتی ہے جہاں اس کی روح قبض کی جاتی ہے)) (سنن ابن ماجہ، رقم: ۱۶۲۸)، چنانچہ اس حدیث میں مقام تدفین کی تعیین کی وجہ سے صحابہ کرام کے درمیان جو اختلاف رونما ہوا ختم ہوگیا تھا، اوراسی حدیث کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو معلوم ہوگیا کہ حدیث ((ما بین قبری ومنبری)) میں ((قبری)) سے مراد وہ جگہ ہے جہاں حضور ﷺ کی وفات ہوئی جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرئہ مقدسہ ہے ۔
خلاصہ کلام:
(۱) ((ما بین قبری و منبری)) الفاظ کے ساتھ مروی بعض رواتیں صحیح الاسناد اور حسن الاسناد ہیں (۲) حدیث : ((ما بین قبری و منبری)) اور حدیث : ((ما بین بیتی و منبری)) کے درمیان کوئی منافات نہیں، خواہ حدیث: ((ما بین قبری و منبری)) کو معنًی روایت کرنے پر ہی کیوں نہ محمول کیا جائے، کیونکہ جو گھر ہے وہی قبر ہے اور جو قبر ہے وہی گھر ہے (۳) صحیح اور حسن اسانید کے پیش نظر راجح یہی ہے کہ حضور ﷺ کو اپنی وفات اور وفات کی جگہ کا علم عطا کردیاگیا تھا (۴) ابن تیمیہ کا قول قابل التفات نہیں (۵) صحیح یہی ہے کہ اس حدیث: ((ما بین قبری و منبری))کے الفاظ حضور نبی کریم ﷺ کے ہیں۔
فائدہ: حدیث کا حکم بیان کرنے کے لیے عام طور سے تین طریقے رائج ہیں، ایک یہ کہ حدیث پر موجود علمائے کرم کے اقوال کی روشنی میں ان کا حکم بیان کردیاجائے، دوسرا یہ کہ خود باحث اپنی جہد و محنت سے حدیث کے ہر روای پر بحث کرکے حدیث کا حکم بیان کرے، یہ اس صورت میں ہے جبکہ ائمہ کرام نے اس حدیث پر صحت وضعف کے اعتبار سے حکم نہ لگایا ہو، اور یہ طریقہ سب سے زیادہ سخت ہے، تیسرا یہ کہ ائمہ کرام کے اقوال کو پیش نظر رکھتے ہوئے حدیث کے تمام راویوں پر علیحدہ علیحدہ کلام کیا جائے -جو پہلے طریقہ کے بنسبت سخت اور دوسرے طریقہ کے بنسبت سہل ہے-پھر اس کے بعد اس حدیث کا حکم بیان کیا جائے، میں نے تقریبا اپنے اس مقالہ میں دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے تاکہ تجربہ کرسکوں کہ میری بحث ائمہ کرام کے اقول سے کس حد تک موافق ہے، نیز تاکہ دور حاضر میں حدیث اور علوم حدیث سے دلچسپی رکھنے والے اس دوسرے طریقہ کار سے بھی واقف ہوجائیں، اوراپنے اندر ملکہ پیدا کرنے کے لیے اس طرح حدیث پر کلام کرنے کی کوشش کریں، میں نے حدیث پر حکم لگانے کے طرق سے متعلق مختلف کتابیں پڑھی ہیں، اگر اللہ نے توفیق دی تو ان شاء اللہ ان پر مستقل مقالہ لکھوںگا، و ما توفیقی إلا باللّٰہ علیہ توکلت و إلیہ أنیب، و الحمد للّٰہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات، و الصلاۃ و السلام علی سید المرسلین و علی آلہ و أصحابہ أجمعین۔
===========================
مراجع و مصادر
اسد الغابۃ لابن الاثیر(ت۶۳۰ھ) الناشر: دار الفکر، بیروت، عام النشر: ۱۴۰۹ھ؍۱۹۸۹م
تاریخ ابن یونس المصری(ت ۳۴۷ھ) الناشر: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ: الأولی، ۱۴۲۱ھ، عدد الأجزائ:۲
تاریخ الاسلام للذہبی(ت ۷۴۸ھ) تحقیق: عمر عبد السلام الدمیری، الناشر: دار الکتاب العربی، بیروت، الطبعۃ: الثانیۃ، ۱۴۱۳ھ؍۱۹۹۳م، عدد الأجزائ: ۵۲
تاریخ بغداد للخطیب(ت ۴۶۳ھ) تحقیق: ڈاکٹر بشار عواد معروف، الناشر: دار الغرب الإسلامی، بیروت، الطبعۃ: الأولی، ۱۴۲۲ھ؍۲۰۰۲م، عدد الأجزائ: ۱۶
تاریخ دمشق لابن عساکر(۵۷۱ھ) تحقیق: عمرو بن غرامۃ العمری، الناشر: دار الفکر، عام النشر: ۱۴۱۵ھ؍۱۹۹۵م، عدد الأجزائ: ۸۰
التحفۃ اللطیفۃ فی تاریخ المدینۃ الشریفۃ للسخاوی(ت ۹۰۲ھ) الناشر: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ: الأولی، ۱۴۱۴ھ؍۱۹۹۳م، عدد الأجزائ: ۲
تقریب التھذیب لابن حجر العسقلانی(ت۸۵۲ھ) تحقیق: محمد عوامہ، الناشر: دار الرشید، سوریا، الطبعۃ: الأولی، ۱۴۰۶ھ؍۱۹۸۶م، عد الأجزائ:۱۔
تھذیب الکمال فی اسماء الرجال للمزی (ت۷۴۲ھ) تحقیق: بشار عواد معروف، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، الطبعۃ: الأولی، ۱۴۰۰ھ؍۱۹۸۰م، عدد الأجزائ:۳۵۔
تنویر الحوالک شرح موطأ مالک للسیوطی(۹۱۱ھ) الناشر: المکتبۃ التجاریۃ الکبری، مصر، عام النشر: ۱۳۸۹؍۱۹۶۹ھ
الثقات لابن حبان(ت ۳۵۴ھ) الناشر: دائرۃ المعارف العثمانیۃ بحیدر آباد الدکن الھند، الطبعۃ: الأولی، ۱۳۹۳ھ؍۱۹۷۳م
الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم(ت ۳۲۷ھ) الناشر: دائرۃ المعارف العثمانیۃ بحیدر آباد الدکن الھند، الطبعۃ: الأولی، الطبعۃ: الأولی، ۱۲۷۱ھ؍۱۹۵۲م
رفع المنارۃ لمحمود سعید، المکتبۃ الأزہریۃ للتراث،القاہرۃ، مصر
السنۃ لابن أبی عاصم(ت۲۸۷ھ) تحقیق: محمد ناصر الدین الألبانی، الناشر: المکتب الإسلامی-بیروت، الطبعۃ الأولی: ۱۴۰۰ھ، عد الأجزاء ۲
شرح الزرقانی علی الموطأ(ت ۱۱۲۲ھ) تحقیق: طہ عبد الرء وف سعد، الناشر: مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، القاہرۃ، الطبعۃ: الأولی، ۱۴۲۴ھ-۲۰۰۳م
شرح مشکل الآثار للطحاوی(ت ۳۲۱ھ) تحقیق: شعیب الأرنؤط، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، الطبعۃ الأولی: ۱۴۱۵ھ؍۱۴۹۴، عدد الأجزاء ۱۶
الشریعۃ للآجری(ت ۳۶۰ھ) تحقیق: ڈاکٹر عبد اللہ بن عمر الدمیجی، الناشر: دار الوطن، الریاض، السعودیۃ، الطبعۃ الثانیۃ: ۱۴۲۰ھ؍۱۹۹۹)
شرح صحیح البخاری لابن البطال(ت ۴۴۹ھ) تحقیق: ابو تمیم یاسر بن ابراہیم، دار النشر: مکتبۃ الرشد، السعودیۃ، الریاض، الطبعۃ: الثانیۃ، ۱۴۲۳ھ؍۲۰۰۳م
العلل و معرفۃ الرجال لاحمد بن حنبل(ت ۲۴۱ھ) تحقیق: وصی اللہ بن محمد عباس، الناشر: دار الخانی، الریاض، الطبعۃ: الثانیۃ، ۱۴۲۲ھ؍۲۰۰۱م، عدد الأجزائ: ۳
عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری للعینی(ت ۸۵۵ھ)الناشر: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، عدد الأجزائ: ۲۵
فتح الباری لابن حجر(ت ۸۵۲) الناشر: دار المعرفۃ، بیروت، ۱۳۷۹ھ، ترقیم و تبویب: محمد فؤاد عبد الباقی، تعلیق: عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، عدد الأجزائ: ۱۳
فتح الباری لابن رجب(ت ۷۹۵ھ) تحقیق: محمود شعبان و غیرہ، الناشر: مکتبۃ الغرباء الأثریۃ، المدینۃ المنورۃ، الطبعۃ: الأولی، ۱۴۱۷ھ؍۱۹۹۶م
الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی(ت ۳۶۵ھ) تحقیق: عادل أحمدو غیرہ، الناشر: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ: الأولی، ۱۴۱۸ھ؍۱۹۹۷م
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المفاتیح لعلی القاری(ت ۱۰۱۴ھ) الناشر: دار الفکر، بیروت، لبنان، الطبعۃ: الاولی، ۱۴۲۲ھ؍۲۰۰۲م
مسند أبی یعلی الموصلی (ت۳۰۷ھ) تحقیق: حسین سلیم أسد، الناشر: دار المأمون للتراث، دمشق، الطبعۃ الأولی: ۱۴۰۴ھ؍۱۹۸۴م، عدد الأجزائ: ۱۳
مسند أحمد بن حنبل(ت۲۴۱ھ) تحقیق: شعیب الأرنؤط و غیرہ، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، الطبعۃ الأولی: ۱۴۲۱ھ؍۲۰۰۱م
مسند البزار؍البحر الزخار(م۲۱۰ت۲۹۲ھ) تحقیق: محفوظ الرحمن زین اللہ وغیرہ، الناشر: مکتبۃ العلوم و الحکم-المدینۃ المنورۃ، الطبعۃ الأولی: من ۱۹۸۸م إلی ۲۰۰۹م، عد الأجزاء ۱۸
مسند الحارث؍بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث(ت۲۸۲ھ) تحقیق حسن أحمد صالح الباکری، الناشر: مرکز خدمۃ السنۃ و السیرۃ النبویۃ، المدینۃ المنورۃ، الطبعۃ الأولی: ۱۴۱۳ھ؍۱۹۹۲م، عدد الأجزائ: ۲
مسند الرویانی(ت ۳۰۷ھ)تحقیق: ایمن علی ابو یمانی، الناشر: مؤسسۃ قرطبہ، القاہرۃ، الطبعۃ: الأولی: ۱۴۱۶ھ
مصنف ابن أبی شیبۃ، (ت ۲۳۵ھ) تحقیق: کمال یوسف الحوت، الناشر: مکتبۃ الرشاد-الریاض، الطبعۃ الأولی:۱۴۰۹ھ، عدد الأجزاء ۷
معجم ابن الأعرابی(ت ۳۴۰ھ) تحقیق و تخریج: عبد المحسن بن إبراھیم، الناشر: دار ابن الجوزی، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، الطبعۃ الأولی: ۱۴۱۸ھ؍۱۹۹۷م
المعجم الأوسط للطبرانی(ت ۳۶۰ھ) تحقیق: طارق بن عوض و غیرہ، الناشر: دار الحرمین، القاہرۃ
المعجم الکبیر للطبرانی، تحقیق: حمدی بن عبد المجید، دار النشر: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، الطبعۃ: الثانیۃ، عدد الأجزائ: ۲۵
المغنی فی الضعفاء للذہبی(ت ۷۴۸ھ) تحقیق: نور الدین عتر
المؤتلف و المختلف للدارقطنی(ت ۳۸۵ھ) تحقیق: موفق بن عبد اللہ، الناشر: دار الغرب الإسلامی، بیروت، الطبعۃ: الأولی، ۱۴۰۶ھ؍۱۹۸۶م، عدد الأجزائ: ۵
ازہار احمد امجدی مصباحی
اصول الدین، قسم الحدیث (ایم، اے)
جامعہ ازہر شریف، مصر
email:[email protected]
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.