You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
غم خوارِ اُمت مصطفی جانِ رحمت ﷺماہ ِرمضان کیسے گزاراکرتے تھے؟
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ شعبان ہی سے ماہ رمضان کی تیاری فرماتے کیوں کہ ماہ شعبان ،رمضان المبارک کے لیے مقدمہ کی مانند ہے
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،(MA,B.ED,MH-SET)مالیگائوں
ماہِ رمضان المبارک جو اللہ عز وجل کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے استقبال اوراسے گزارنے کاخاص اہتمام فرماتے۔پیغمبراسلامﷺکاسب سے پہلا معمول یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمرمضان المبارک سے محبت فرماتے اور اس کی آمد سے کئی روزپہلے سے ہی اسے پانے کی دعا کرتے رہتے چنانچہ امام طبرانی کی اوسط میں اور مسند بزار میں ہے کہ جیسے ہی رجب کا چاند طلوع ہوتا تو آپ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتے:اے اللہ! ہمارے لئے رجب و شعبان با برکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔مفتی محمدخان قادری لطائف المعارف کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ جب ہمارے اسلاف نے اپنے کریم آقاﷺکایہ معمول پڑھااور رمضان المبارک کی اہمیت ان کے سامنے واضح ہوئی تو صحابہ وتابعین چھ مہینے رمضان شریف پانے کی دعاکرتے اور چھ ماہ اس کی قبولیت کی دعاکرتے۔(حضورﷺرمضان المبارک کیسے گذارتے؟)اس سے یہ سبق ملتاہے کہ انسان کو مبارک وقت پانے کے لیے دعاکرنی چاہیے تاکہ وہ اس میں مزید نیک اعمال کرکے اپنے مولیٰ کاخوب قرب حاصل کرلے اور اس کوپالینے کے بعد اس کی قبولیت کی دعابھی کرنی چاہیے۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمماہ شعبان ہی سے ماہ رمضان کے لیے تیاری فرماتے کیوں کہ ماہ شعبان ،رمضان المبارک کے لیے مقدمہ کی مانند ہے ،اس میںوہی اعمال ہوں جورمضان میں ہوں گے،اسی لیے حضورﷺماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے اور عبادت وریاضت کاخاص اہتمام فرماتے،ان اعمال میں امت محمدیہ کے لیے درس ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی پہلے سے ماہ رمضان کی تیاریاں شروع کردینی چاہیے۔ماہ شعبان میں ماہ رمضان کی تیاری کے حوالے سے محدثین یہ ایک حکمت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ ماہ رمضان کی برکات کوحاصل کرنے کے لیے مسلمان مکمل طور پرتیار ہوجائے اور نفس،رحمن کی طاعت پرخوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہوجائے۔جیسے فرائض سے پہلے سنتیں ہیں جن کے ذریعے انسان ذہن کو اپنے رب کی بارگاہ کی طرف متوجہ کرتاہے تاکہ فرائض کی ادائیگی کی ذہنی تیاری ہوسکے۔معمولات صحابہ سے اس حکمت کی تائید بھی ہوجاتی ہے ۔چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ ماہ شعبان میں صحابہ کے معمولات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شعبان شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے،اپنے اموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ غریب ،مسکین لوگ رمضان بہتر طور پرگزارسکیں۔
جب یہ مقدس و مبارک ماہ اپنی رحمتوں کے ساتھ سایہ فگن ہوتا تو غمخوارِ امت شفیع رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اپنے صحابہ کو اس کی آمد کی مبارک باد دیتے، چنانچہ امام احمد اور امام نسائی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کا مبارک معمول ان الفاظ میں نقل کیا ہے:حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اپنے صحابہ کو یہ کہتے ہوئے مبارک باد دیتے کہ تم پر رمضان کا مہینہ جلوہ فگن ہواہے جو نہایت با برکت ہے، اس کے روزے تم پر اللہ نے فرض فرمائے ہیں، اس میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں، شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے، اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو اس سے محروم ہو گیا وہ محروم ہی رہے گا۔امام جلال الدین سیوطی اور شیخ ابن رجب علیہما الرحمہ کہتے ہیں کہ رمضان المبارک کی مبارک باد پیش کرنے پر یہ حدیث اصل ہے۔(الحاوی للفتاویٰ، ۱؍۱۹۳،بحوالہ:ماہ رمضان کیسے گزاریں؟)حضورﷺصحابۂ کرام کو مبارک باد اور ان پر اس کی اہمیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک کو خوش آمدید فرماتے، کنز العمال اور مجمع الزوائد میں ہے، آپ فرماتے:لوگو! تمہارے پاس رمضان تمام مہینوں کا سردار آگیا، ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔جس دن رمضان المبارک کا چاند طلوع ہونے کی امید ہوتی اور شعبان کا آخری دن ہوتا تو آپ مسجد نبوی میں صحابہ کرام کو جمع فرما کر خطبہ ارشاد فرماتے جس میں رمضان المبارک کے فضائل و وظائف اور اہمیت کو اجاگر فرماتے تاکہ اس کے شب و روز سے خوب فائدہ اٹھایا جائے اور اس میں غفلت ہرگز نہ برتی جائے، اس کے ایک ایک لمحہ کو غنیمت جانا جائے۔
کتبِ احادیث میں رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے فرمودہ خطبہ کی تفصیل بھی ملتی ہے۔ترجمہ:حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم کو شعبان کے آخری دن خطبہ دیا، فرمایا: اے لوگو! ایک بہت ہی مبارک ماہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے۔جو شخص کسی نیکی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف قرب چاہے اس کو اس قدر ثواب ہوتا ہے گویا اس نے دوسرے ماہ میں فرض ادا کیا۔جس نے رمضان میں فرض ادا کیا اس کا ثواب اس قدر ہے گویا اس نے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کئے۔وہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ وہ لوگوں کے ساتھ غمخواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔جو اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے اس کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جاتی ہے اور اس کو بھی اسی قدر ثواب ملتا ہے اس سے روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی نہیں آتی۔ اس پر صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیک و سلم ! ہم میں سے ہر ایک میں یہ طاقت کہاں کہ روزہ دار کو سیر کر کے کھلائے۔ اس پر آپ نے فرمایا یہ ثواب تو اللہ اسے بھی عطا فرمائے گا جو ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ پلا دے۔جس نے کسی روزہ دار کو افطاری کے وقت پانی پلایا اللہ تعالیٰ (روزِ قیامت) میرے حوضِ کوثر سے اسے وہ پانی پلائے گا جس کے بعد دخولِ جنت تک پیاس نہیں لگے گی۔یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول رحمت ہے، اس کے درمیان میں بخشش ہے اور اس کے آخر میں آگ سے آزادی ہے۔ جو شخص اس میں اپنے غلام کا بوجھ ہلکا کرے اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے اور آگ سے آزاد کر دیتا ہے۔(مشکوٰۃ شریف: ص۱۷۳،۱۷۴)
ماہ رمضان کے استقبال کے حوالے سے مسنون طریقہ یہ ہے کہ ۲۹؍شعبان المعظم کو بعد نمازِ مغرب چاند دیکھا جائے،چاند دیکھنے کی دعاپڑھیں،ترجمہ: اے اللہ! ہم پر یہ چاند امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کے ساتھ گزار اور اس چیز کی توفیق کے ساتھ جو تجھ کو پسند ہو اور جس پر تو راضی ہو، میرا رب اور تیرا رب اللہ ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو سنت نبوی پرعمل کرتے ہوئے خوب خوب عبادت وریاضت کی توفیق عطافرمائے۔
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، ایم ایچ سیٹ،جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.