You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کافرمانِ خوشبودار ہے :
قیامت کے دن عرش کے نیچے سے ندا کی جائے گی :
کہاں ہیں وہ لوگ جو دنیامیں اپنی سماعت کو لہو ولعب ،باجوں اور بیکار باتوں سے بچایاکرتے تھے کہ آج میں ان کو اپنی حمدوثناء سناؤں اور خبر دوں کہ ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی غم ۔
نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم كا فرمانِ عبرت نشان ہے :
مجھے باجوں کو توڑنے کے لئے بھیجا گیا ہے اور بے شک اللہ عزوجل لَیْلَۃُالْقَدْر(یعنی شبِ قدر) میں بھی باجے بجانے والوں پر نظررحمت نہیں فرماتا۔نیز شَبَابَۃ (یعنی سیٹی بجانا)بھی حرام ہے ۔
حضرت سیدنانافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :
میں حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے ساتھ جارہاتھاکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی چرواہے کی بانسری کی آواز سنی تو اپنی انگلیوں سے کانوں کو بند فرمالیااور راستے سے ایک طرف ہٹ کر تیز تیز چلنے لگے پھر(کچھ دور جاکر )دریافت فرمایا:
اے نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ! کیا بانسری کی آواز آنابند ہوگئی ؟
میں نے عرض کی:جی ہاں۔
تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی انگلیاں کانوں سے ہٹالیں اور(اُسی) راستے کی طرف لوٹ آئے اور فرمایا:
میں نے سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھاہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی بانسری کی آواز نہیں سنی۔
اللہ عزوجل ارشادفرماتا ہے:
وَمَا کَانَ صَلَاتُہُمْ عِنۡدَ الْبَیۡتِ اِلَّا مُکَآءً وَّتَصْدِیَۃً ؕ
ترجمہ کنزالایمان:اور کعبہ کے پاس اُن کی نماز نہیں مگرسیٹی اورتالی۔(پ9،الانفال:35)
مفسرین کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین فرماتے ہیں :
مُکَاء منہ سے سیٹی بجانااور تَصْدِیَۃ تالی بجانااور گاناہے اور فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جب عید کادن ہوتاتو(کافر) لوگ مساجد(یعنی عبادت گاہوں) میں گانے گاتے اور سیٹیاں بجایا کرتے تھے تو حق تبارک و تعالیٰ نے ان کے اس فعل کی مذمت فرمائی اور ان کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی ۔
شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم كافرمانِ عبرت نشان ہے:
باجا بجانے والے اور سننے والے دونوں ملعون ہیں،تو جس نے دنیا میں گانے باجے سنے وہ جنت میں خوش کرنے والی آوازوں کوسننے سے ہمیشہ محروم رہے گا،مگر یہ کہ وہ توبہ کرلے (اورارشادفرمایا)حضرت داؤدعلی نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام کی آواز(خوش الحانی میں) نو سو (900) مزامیر(یہ شیطانی مزامیر نہیں بلکہ اللہ عزوجل کی حمدو پاکی ہو گی) کی آوازوں کے برابر ہوگی جس دن اللہ تبارک و تعالیٰ کادیدار ہو گا اس دن وہ اپنی آواز سنائیں گے لہذا اُس خو ش کن آواز کے لئے اس دنیاوی آواز کوسنناترک کردو۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے :
لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ فِیۡہَا وَلَدَیۡنَا مَزِیۡدٌ ﴿35﴾
ترجمہ کنزالایمان :ان کے لئے ہے اُس میں جو چاہیں اورہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ہے۔ (پ26،ق:35)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.