You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویۃ الایمان کے انداز و لہجہ گستاخانہ ہونے کا خود حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی کو بھی اقرار ہے پڑھیئے سوال و جواب
سوال : وہابی کی کتاب تقویۃ الایمان میں لکھا ہے کہ کل مومن اخوۃ یعنی آپس میں سب مسلمان بھائی بھائی ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ خدا کے آگے پیغمبر ایسے ہیں جیسے چماڑ چوڑھے تو آپ اس میں کیا فرماتے ہیں کہ (انبیاء کو )بھائی کہنا درست ہے کہ نہیں ؟ اور چمار چوڑھے کے بارے میں بھی لکھنا ضرور بالضرور تاکیدا لکھا جاتا ہے کیونکہ یہاں سب مسلمان مومن بھائی ہیں نفاق پڑا ہے ۔ کیونکہ وہابی لوگ کہتے ہیں کہ کہنا درست ہے اور حضرت محمد کو بڑا بھائی کہتے ہیں اور سب جماعت کہتی ہیں کہ کہنا درست نہیں لہذا براہ مہربانی اس خط کا جواب بہت جلد لکھئے۔
الجواب : تقویۃ الایمان میں بعض الفاظ جو سخت واقع ہوگئے ہیں تو اس زمانے کی جہالت کا علاج تھا ۔۔۔لیکن اب جو بعضوں کی عادت ہے کہ ان الفاظ کو بلا ضرورت بھی استعمال کرتے ہیں یہ بے شک بے ادبی و گستاخی ہے ۔۔۔تقویۃ الایمان والوں کو بھی برا نہ کہا جائے اور تقویۃ الایمان کے ان الفاظ کا استعمال بھی نہ کیا جاوے گا ۔(امدادُالفتاویٰ جلد 5 صفحہ 389 تھانوی)
محترم قارئین غور کیجئے کہ تھانوی صاحب کی تقویۃ الایمان کے انداز کے گستاخانہ ہونے کا اقرار ہے مگر پھر اسے اس دور کی جہالت کا علاج قرار دے کر اپنے گرو اسمعیل کو بچانے کی فکر میں ہیں ذرا انصاف کیجئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی بارگاہ اقدس میں تو راعنا کرنا بھی منع قرار دے دیا گیا مگر دیوبندی مذہب میں جہالت کا علاج گستاخی رسول ( صلی اللہ علیہ وسلّم ) سے کیا جاتا ہے فیا للعجب بحمدا للہ علمائے اہل سنت نے تقویۃ الایمان کے رد میں بقول سید محمد فاروق القادری اڑھائی سو کتب تحریر فرمائیں بلکہ خود حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان سے ہی متعدد کتب اس کے رد میں لکھی گئیں جن میں مولانا مخصوص اللہ بن شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ کی معید الایمان وغیرہ ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
بر صغیر کے پُر امن مسلمانوں میں فرقہ ورایت ، فتنہ و فساد پھیلانے والی کتاب تقویۃُالایمان ہے ۔ (ارواح ثلاثہ صفحہ نمبر 67 ، 68 ۔علامہ تھانوی) مسلمانان اہلسنت پر فرقہ ورایت اور انتشار ہپھیلانے کا الزام لگانے والوں کو جواب
بر صغیر کے پر امن مسلمانان اہلسنت میں شورش و فتنہ کس نے برپا کیا ، کس نے مسلمانوں کو آپس میں لڑایا فسادی کون ہے ؟ پڑھیئے حکیم الامت دیوبند اپنی کتاب ارواح ثلاثہ صفحہ نمبر 67 ، 68 ۔ پر لکھتے ہیں کہ : مولوی اسماعیل دہلوی نے کتاب تقویۃ الایمان لکھی اور خود اقرار کیا کہ اس میں سخت الفاظ لکھے گئے ہیں شرک خفی کو شرک جلی لکھ دیا ہے ( گویا شریعت ان کے گھر کی ھے جو مرضی آئے کریں ) اس طرح مسلمانوں میں شورش ھوگی اور مجھے امید ھے کہ آپس میں لڑ بھڑ کر چپ ہو جائیں گے ۔
افسوس صد افسوس یہ پھیلائی ھوئی شورش و فتنہ آج تک ختم نہ ہو سکا کیا اب بھی فیصلہ کرنے میں کوئی اور ثبوت چاھیئے کہ مسلمانوں میں فتنہ فساد اور شورش پھیلانے والے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے والے شرک خفی کو شرک جلی لکھنے والے کون لوگ ھیں ؟ فیصلہ خود کیجیئے اپنے ایمان و ضمیر سے تعصب کی عینک اتار کر ۔
(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.