You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
1879ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے ممبروں ، ایڈیٹروں ، اور چرچ کے نمائندوں پر مشتمل وفد نے ہندوستان کا دورہ کیا اورحکومت برطانیہ کے استحکام کے لیے سب سے اہم یہ تجویز پیش کی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماؤں کے دل و جان سے پیروکار ہیں ۔اگر اس وقت ہمیں ایسا آدمی مل جاۓ جو نبی ہونے کا دعوی کرے تو اس شخص کے دعوی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے ۔
اس رپورٹ کی روشنی میں برطانوی حکومت کے نمائندوں نے تین اشخاص کا انتخاب کیا تھا۔ جن میں مرزا غلام مرتضی کے بیٹے مرزا غلام قادیانی کو جو کہ سیالکوٹ کی ایک عدالت میں ملازم تھا منتخب کیا گیا اور اس کو تیار کرنے کے لیے پہلے مناظر کے طور پر پیش کیا۔اس بد بخت نے انگریزوں کی غلامی کو اپنی منزل بنایا اور دین مصطفی اور نبی رحمت سے بےوفائی کر کے اپنا ایمان چند ٹکوں میں بیچ دیا۔ اس نے عیسائیوں ، ہندوؤں کے خلاف تقریریں شروع کیں پھر حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کے متعلق توہین آمیز جملے کہنے شروع کیے اور ہندوؤں کے دیوتاؤں کو برا بھلا کہنا شروع کیا ۔
1880ء میں ملہم من اللہ اون مامور من اللہ ہونے کا دعوی کیا ۔ 1882ء میں مامور من اللہ میں مجدد اور نذیر کا اضافہ کیا۔1883ء میں آدم ، مریم ، اور احمد ہونے کا دعوی کیا۔ جب اس حد تک اس سوچ میں فتنہ آ گیا تو علماء کرام و صوفیاء نے اے خلاف آواز بلند کی کہ یہ دین محمدی میں اب انگریزوں کے کہنے پر ایک فتنہ پیدا کر رہا ہے۔
1884ء مین مرزا قادیانی ایک پروگرام کے سلسلے میں لدھیانہ گیا تو وہاں کے علماء نے اس ملاقات کرنا چاہی تاکہ اس کے عقائد واضح ہوں مگر اس نے راہ فرار اختیار کی کیونکہ وہ بد باطن تھا۔ علماء نے اس کے باطل عقائد کی وجہ سے اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ۔ پھر اس قادیانی نے علماۓ کرام کے خلاف زبان چلانی شروع کر دی۔ اس کے ان عقائد کی بنا پر علماۓ حق اور مشائخ اسلام مرزا کے خلاف آواز حق بلند کی کہ یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے جو اسلام اور بانی اسلام کی عزت و حرمت کا ڈاکو ہے۔
1891ء میں مرزا قادیانی نے مثیل مسیح پھر مسیح ابن مریم ہونے کا دعوی کیا اور کہا مجھے بحثیت عیسی دنیا میں دوبارہ بھیج دیا گیا۔ 1892ء میں مہدی ہونے کا دعوی کیا بعد ازاں ظلی نبی اور بروزی نبی کی حیثیت سے اپنے آپ کو متعارف کرایا۔ 1901ء میں باقاعدہ نبوت کا اعلان اس دعوے کے ساتھ کیا کہ " سچا خدا وہی ہے جس نے قادیانی میں اپنا رسول بھیجا"۔
مرزا قادیانی کے زہر آلود عقائد نے امت مسلمہ میں بے چینی پیدا کر دی ۔ لیکن جھوٹے مدعی نبوت کو قہر الہی کا سامنا ضرور کرنا پڑا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف جھوٹے مدعیان نبوت(نبوت کا دعوی کرنے والے) کے بارے میں پیشگی اطلاع دی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ان کی تعداد بھی بیان فرما دی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ " قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کے تیس دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک دعوی کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے ۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں قیامت تک مختلف ادوار میں نبوت کا دعوی کرنے والے کذاب (جھوٹے) ظاہر ہوں گے۔ لہذا ہر دور میں ایسے کذاب پیدا ہوۓ اور فدایان ختم نبوت نے ان کذابوں کی گردنیں اڑا کر ان کو جہنم واصل کیا ۔ دین اسلام کو خالق کائنات نے پسند کیا اور میرے آقا تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مکمل کیا ۔ اب اسلام کی اشاعت میں اویس و بلال آتے رہیں گے اور نعرہ مستانہ لگاتے رہیں گے۔ کبھی شیخ عبدالقادر کی طرح ، کبھی غریب نواز معین الدین چشتی کی طرح، کبھی حضرت بہاءالدین نقشبندی کی طرح ، کبھی حضرت شہاب الدین سہروردی کی طرح ، کبھی مجدد الف ثانی کی طرح ، کبھی امام احمد رضا خان بریلوی کی طرح ، کبھی پیر سید جامعت علی شاہ کی طرح، کبھی پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی طرح ، اور کبھی مولانا شاہ احمد نورانی کی طرح یہ جانثار فیضان ختم نبوت کے چراغ جلاتے رہیں گے۔
قادیانیوں سن لو ! تمہاری ہر جھوٹی سوچ پر ہم حق کا تالا لگا کر ہی دم لیں گےاور میرے رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور پوری کائنات کو منور کرتا رہے گا کیونکہ اس نور اور پیغام کی حفاظت خود خالق کائنات کرتا ہے ۔ معزز قارئین ! عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت ہماری پہچان ہے ۔ اے اللہ ہمیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت اور لازوال طاقت عطا فرما ۔
قادیانیت اسلام کے نام پر سادہ مسلمانوں کے ذہنوں پر حملے کر رہی ہے ۔ اس کے زہر آلود خیالات پوری امت مسلمہ کے لیے ایک چیلنج ہیں ۔ اب ہمیں ہر محاذ پر اس شیطانی سوچ کے جھوٹے ارادوں کو بے نقاب کرنا ہو گا۔ شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال نے کیا خوب لکھا" قادیانیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ ایک غیر مسلم اس کو اسلام سمجھ کر قبول کر رہا ہو گا ۔ المیہ یہ ہو گا کہ وہ ایک کفر سے نکل کر دوسرے کفر میں جا رہا ہو گا"۔
حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے مرزا قادیانی کو چیلنج کرتے ہوے کہا " حسب وعدہ شاہی مسجد میں آؤ ہم دونوں اس مینار پر چڑھ کر چھلانگ لگاتے ہیں ، جو سچا ہو گا بچ جاۓ گا، جو کاذب ہو گا مر جاۓ گا" مرزا قادیانی جھوٹا تھا بھاگ گیا ۔ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوب کر کیا خوب کہا" قادیانیوں کا مسئلہ باتوں سے حل نہیں ہو گا ۔ آپ مجھے حکم دیں میں قادیانیوں سے نپٹ لوں گا اور چند روز میں ربوہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دوں گا"۔
یہ وہ پس منظر تھا جس میں شاطر انگریز نے ایک ایسے شخص کی جستجو کی جو ان کی بھرپور حمایت کرے ، چناںجہ انہیں مرزا غلام احمد قادیانی مل گیا جسے انہوں نے جھوٹی نبوت کی مسند پر بٹھا دیا اور اس سے اپنی حمایت میں اور دین اسلام کے خلاف ایسے ایسے بیانات دلواۓ جنہیں پڑھ کر ایک مسلمان کا سر ندامت سے جھک جاتا ہے ۔ امت مسلمہ جس نے چودہ صدیوں میں کسی جھوٹے دعویدار نبوت کو قبول نہیں کیا تھا تو وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کیسے نبی یا مجدد تسلیم کر لیتی؟
علماۓ اہلسنت سے اپنی تمام تحریری اور علمی توانائیاں اس کے خلاف صرف کر دیں۔ حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی نے "شمس الہدایۃ" لکھ کر حیات مسیح علیہ السلام پر زبردست دلائل قائم کیے ۔ مرزا قادیانی ان کا جواب تو نہ دے سکا البتہ پیر صاحب کو مناظرے کا چیلنج دے دیا۔ 25 جولائی 1900ء مناظرہ کی تاریخ مقرر ہوئي۔ پیر صاحب علماء کی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ اس تاریخ کو بادشاہی مسجد لاہور پہنچ گۓ لیکن مرزا کو سمانے آنے کی جرآت نہ ہو سکی۔ اس خفت(شرمندگی) کو مٹانے کے لیے مرزا نے 15 دسمبر 1900ء کو سورۂ فاتحہ کی تفسیر " اعجاز المسیح" کی نام سے عربی زبان میں شائع کی اور تاثر یہ دیا کہ یہ الہامی تفسیر ہے ۔ پیر صاحب نے 1902ء میں" سیف چشتیائی " لکھ کر شائع فرما دی جس میں مرزا کی عربی دانی کے دعوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔اس کتاب کا جواب آج تک مرزائیوں پر قرض ہے۔اعلی حصرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی نے پانچ رسائل اور کئی فتاوی فتنہ قادیانیت کے رد میں لکھے۔ ایک رسالہ ان کے صاحبزادہ حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان نے لکھا۔ مولانا غلام دستگیر قصوری نے متعدد کتابیں لکھیں۔ علماۓ پنجاب میں سے حضرت مولانا غلام قادر بھیروی نے مرزا کے خلاف پہلا فتوی دیا۔ مولانا پیر غلام رسول قاسمی امرتسری نے عربی میں ایک کتاب کھی جو اردو ترجمہ کے ساتھ شائع ہوئی ۔ قاضی فضل احمد لدھیانوی نے متعدد کتابیں لکھی۔ حضرت مولانا ضیاءالدین سیالوی نے " معیار المسیح" کے نام سے ایک لاجواب کتاب لکھی ۔مولانا حیدر اللہ نقشبندی مجددی " درۃ الدیانی علی المرتد القادیانی "کے نام سے مفید کتاب لکھی۔مرزائیوں کے خلاف پہلی دفعہ 1953ء میں بھرپور تحریک چلائی گئی جس کا مطالبہ یہ تھا کہ ظفر اللہ مرزائی کو وزارت خارجہ کے منصب سے برطرف کیا جاۓ اور مرزائیوں کو قانونی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا جاۓ ، اس تحریک میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل تھے ۔ دوسری دفعہ 1974ء میں تحریک ختم نبوت چلی جس کے تحت پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
------
از: ماھنامہ العاقب لاھور شوال تا ذوالحجہ1430ھ اکتوبر تا دسمبر 2009ء
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.