You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
بیوٹی پارلر کیوں جائیں؟
عتیق الرحمن رضوی، نوری مشن، مالیگاؤں
نغمہ اور سلمیٰ پُرانی سہلیاں ہیں……K.G. First سے B.Sc.تک ساتھ تعلیم حاصل کی ہیں…… نغمہ نے B.Sc.کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے پونے شہر کا رُخ کیا اور وہاں رہ کر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے لگی…… سلمیٰ نے ڈاکٹریٹ کے لیے علی گڑھ کا رُخ کیا اور……میڈیکل سائنس کی تعلیم حاصل کرنے لگی…… یہی اِن کی زندگی کا وہ موڑتھا جس نے ان کے 18 سالہ ساتھ کو تعطل کا شکار کردیا…… سلمیٰ کا خاندانی ماحول اسلامی ہے…… اس ماحول کے اثر نے اِسے کالج اور یونی ورسٹی کی پراگندہ فضا سے خود کو متاثر نہیں ہونے دیا…… نغمہ انجینئرنگ اور سلمیٰ ڈاکٹریٹ سے فراغت کے بعد اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئیں…… اور اِن کی ملاقاتیں بس عید اور دیگر تہواروں تک محدود ہوکر رہ گئیں……
آج تقریباً 5 سال کے بعد سلمیٰ ، نغمہ کے گھر آئی…… سلام و دعا کے بعددونوں اپنی پرانی اور بچپن کی یادوں میں مگن ہو گئے…… تب ہی ڈور بیل سے ایک جوان لڑکی نقاب میں داخل ہوئی…… اور سلمیٰ اُسے حیریت سے دیکھتی رہ گئی…… اور نغمہ سے دریافت کیا:
سلمیٰ:یہ صالحہ ہے؟
نغمہ: جی، ہاں ، ابھی B.C.A. میں ایڈمیشن کروایا ہے۔
سلمیٰ وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ اتنا آزاد خیالی کی طرف کیوں مائل ہوتے جا رہی ہو۔ خود کی اور اپنے بچوں کی اخلاقی اور تہذیبی تربیت کی طرف کیوں دھیان نہیں دیتیں۔
(سلمیٰ عمر میں نغمہ سے بڑی ہے، اور نغمہ اُسے اپنی بڑی بہن مانتی ہے۔ اس لیے سلمیٰ اُسے اکثر ڈانٹ بھی دیتی ہے)
سلمیٰ: دیکھا نہیں صالحہ کا برقعہ؟ کتنا چُست پہنتی ہے، یہاں تک کہ اُس کے جسم کی ساخت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔
نغمہ: کیاکریں زمانہ ہی ایسا ہے، ویسے بھی اس میں برائی کیا ہے؟
سلمیٰ: آپ کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی ہمارا تعلق شریف خاندان سے ہے۔ ہمیں اپنی عزت اور عصمت جان سے پیاری ہونی چاہیے۔ اور تو اور اُس نے ہمارے سامنے ہی برقعہ اُتارا میں تو یہ دیکھ کر حیران رَہ گئی کہ اُس نے مردوں کی طرح جینس اور ٹی شرٹ زیبِ تن کر رکھی ہیں۔ دیکھو نغمہ ہم نقاب پردے کے لیے پہنتے ہیں ناکہ خود کی نمائش کے لیے، اب آج کل ایسے فیشن ایبل، باریک اور چست تیار کیے گئے برقعوں کا رواج پڑتا جا رہا ہے۔ کہ اﷲ ہی رحم کرے۔ جو چیز پردے کے لیے ہے اُسے بھی بے حیائی کے اظہار کا ذریعہ بنا لیاگیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس کا آخری حصہ کچھ اس طرح ہے کہ:
’’وہ عورتیں جو لباس پہن کر بھی ننگی ہوں گی، مائل کرنے والیاں، مائل ہونے والیاں ان کے سر اونٹنیوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے، وہ نہ جنت میں جائیں گی نہ اس کی خوش بو پائیں گی۔حالاں کہ اس کی ہوا اِتنی مسافت سے محسوس کی جاتی ہے۔‘‘
اور آپ خود دیکھ لو ان فیشن ایبل کپڑے، برقعوں اور مردانہ لباس میں کتنا پردہ ہوتا ہے اور کتنا جسم چھپتا ہے؟ کیا ہم لوگ ایسے کپڑے پہن کر لوگوں کو اپنی طرف مائل ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ دانستہ غیر دانستہ طور پر ہم دعوتِ نظارہ نہیں دیتے، جنّت کے طلب گار بنتے ہیں اور کام ایسا کر رہے ہیں کہ جنّت کی خوش بُو سے بھی محروم کر دیے جائیں۔دیکھو سنن ابوداؤد شریف؛ کتاب اللباس، ص 665؍ میں حدیث پاک ہے؛حد یث کا نمبر:4101 ہے:
’’حضرت ابن ابی ملیکہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے کہا گیا کہ ایک عورت مردانی جوتا پہنتی ہے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مردوں کی مشابہت رکھنے والی عورت پر لعنت فرمائی۔‘‘
اور ایک روایت سُنو لو : ایک مرتبہ رسولِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی شہزادی خاتونِ جنّت رضی اﷲ عنہا سے پوچھا کہ: ’’عورت کے لیے کیا بہتر ہے‘‘؟……خاتونِ جنّت رضی اﷲ عنہا نے جواب دیا کہ:’’عورت کے لیے یہ بہتر ہے کہ نہ بیگانے مرد کو دیکھے، نہ عورت کو غیر محرم دیکھے۔‘‘یہ سن کر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور تحسین فرمائی……
مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے نغمہ بچوں کی تربیت پہ دھیان دو، ورنہ کل بہت پچھتانا پڑے گا۔اس کے بالوں کا رنگ دیکھو کیا یہ بیوٹی پارلر بھی جاتی ہے؟
نغمہ: اس کی کالج کی ساری سہیلیاں ایک جیسا میک اپ کرواتی ہیں، ایک ہی بیوٹی پارلر سے۔
سلمیٰ: اوہ ! یہ بات ہے۔ ہماری بچیاں، عورتیں مغربی تہذیب کے پیچھے اندھا دُھن دوڑ رہی ہیں۔ اُن کی تقلید میں یہ خیال بھی نہیں رکھتے کہ ہماری آخرت تباہ و برباد ہو رہی ہے۔ دنیاوی نقصان الگ۔ اِن بیوٹی پارلروں کا ماحول کیا ہے؟ وہاں کیا ہوتا ہے؟ آپ اس سے یقینا بے خبر نہیں! ان دکانوں کا مقصد کیا ہوتا؟ لوگ وہاں کس کام سے جاتے ہیں؟آپ بہ خوبی جانتی ہیں…… حدیثِ پاک ہے رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ نے گودنے والیوں اور گدوانے والیوں اور چہرے کے (ابروکے) بال اُکھاڑنے والیوں اور حسن کے لیے دانتوں کو کُشادہ کرنے والیوں پر لعنت کی ہے، جو اﷲ تعالیٰ کی خلقت کو بدلتی ہیں۔‘‘
اس حدیث پاک سے جہاں اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ جسم کے بال اُکھاڑنا قطعاً ناجائز اور حرام ہیں اور ایسا کرنے والی اﷲ تبارک و تعالیٰ کی لعنت کی مستحق ٹھہرتی ہے۔ اس سے دوسری جانب یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جو تاویل کچھ لوگ کرتے ہیں کہ بال اُکھاڑنے یا نکلوانے کی ممانعت ہے، جب کہ بلیچنگ میں توصرف بالوں کو سنہری کیا (رنگ بدلا) جاتا ہے۔ تو اس کا جواب بھی اس حدیث کے آخری الفاظ میں موجود ہے۔ ’’جو اﷲ کی خلقت کو بدلتی ہیں‘‘ یعنی کہ جیسا رنگ اور بالوں کی ہیئت اور شکل اﷲ نے عطا کی اس کو بدلنا بھی گناہِ کبیرہ اور ایسا کرنے والے بھی اﷲ کی لعنت کے سزاوار ہوں گے۔
دوسرا مقصد میک اپ ہوتا ہے۔ صاف لفظوں میں کہوں یعنی عورت کو اس کے اصل سے بہتر بنانا۔ اس اصطلاح سے تو ہمارے عوام کی اکثریت واقف ہوگی لیکن پھر بھی وضاحت میں کوئی حرج نہیں: میک اپ میں عورت کے پورے چہرے، رخساروں، آنکھوں، ہونٹوں اور ٹھوڑی وغیرہ پر مختلف اقسام کی اشیاے میک اپ یعنی پاڈر، لِپ اسٹک، کریم،لوشن وغیرہ لگائے جاتے ہیں۔ اور اس عمل میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ چہرے کے اصل نقوش بالکل غائب کر دیے جائیں۔ اور حقیقتاً سب سے بہتر بیوٹیشین بھی وہی سمجھی جاتی ہے جو میک اپ سے چہرے کے نقوش بدلنے میں زیادہ مہارت رکھتی ہو۔ گویا یہ لوگ اپنے ان ملعون افعال سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ (معاذاﷲ )اﷲ نے انہیں بد صورت بنایا ہے جس کو یہ خوب صورت بنارہے ہیں۔ تبھی تو پارلر میں ٹائم پاس کرکے آنے کے بعدبڑی شان سے پوچھتی ہیں’’اب کیسی لگ رہی ہوں!!‘‘ اس کی وضاحت بھی پیچھے گزری حدیث میں موجود ہے کہ ان پر اﷲ کی لعنت ہوتی ہے، جو اﷲ کی بنائی ہوئی چیز میں تبدیلی کرتے ہیں۔ یہ تبدیلی چاہے ’’پلاسٹک سرجری سے ہو، چاہے آپریشن سے، چاہے بیوٹیشین کی حماقت سے‘‘ سب اسی زمرے میں آتے ہیں۔ سب کا ایک ہی حکم ہوگا۔ ان دکانوں میں بڑی شان سے مصنوعی بالوں کو سر میں فِٹ کروانے جاتی ہیں۔ وِگ لگواتے ہیں، ’’پف‘‘بنواتے ہیں۔ یہ سب کیاہیں، یہ سب کچھ اسی زمرے میں شمار ہوگا، سب کے سب لعنتِ خدا کی سزاوار ہوں گے۔
(بیچ میں کسی خاتون نے کہا)مگر وِگ اور پف کا تو کسی روایت میں نہیں سُنا پھر آپ کیسے کہے رہے ہو کہ ان سب کا حکم بھی یہی ہوگا۔
سلمیٰ: یہ کون ہیں؟
نغمہ: یہ پڑوسن ہیں، جمیلہ آنٹی
سلمیٰ: السلام علیکم ورحمۃ اﷲ
جمیلہ اور نغمہ: (ساتھ میں) وعلیکم السلام
سلمیٰ: دیکھو جمیلہ آنٹی، ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس ایک خاتون آئیں اور عرض کی: کہ حضور میری لڑکی کو چیچک نکلی تو اس کے بال جھڑ گئے ہیں اور میں اس کا نکاح کر چکی ہوں، اس کے بالوں میں جوڑ لگادوں؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ نے توڑ جوڑ لگانے والی اور جوڑ لگوانے والی دونوں پر لعنت کی ہے۔‘‘…… بخاری شریف میں یہ حدیث پاک بیان ہوئی ہے۔ اور نغمہ ابھی میں نے آپ کو حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث سُنائی تھی کہ:
’’وہ عورتیں جو لباس پہن کر بھی ننگی ہوں گی مائل کرنے والیاں مائل ہونے والیاں ان کے سر اونٹنیوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے، وہ نہ جنت میں جائیں گی نہ اس کی خوش بو پائیں گی حالاں کہ اس کی ہوا اِتنی مسافت سے محسوس کی جاتی ہے۔‘‘
’’اس جملۂ مبارکہ کی بہت سی تفسیریں ہیں۔ سب سے بہتر تفسیر یہ ہے کہ عورتیں راہ چلتے ہوئے شرم سے سر نیچا نہ کریں گی۔ بلکہ بے حیائی سے اونچی گردن اٹھائے ہوئے ہر طرف دیکھتی لوگوں کو گھورتی چلیں گی، جیسے اونٹ کے تمام جسم میں کوہان اونچا ہوتا ہے ایسے ہی ان کے سر بھی اونچے رہا کریں گے۔‘‘
حدیث شریف کے اس حصہ کی یہ تشریح مفسر قرآن مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے فرمائی ہے۔ بتاؤ جمیلہ آنٹی کیا پف بنانے سے سر اونچا نہیں ہوتا۔؟
اﷲ پاک ہماری بیٹیوں کو سمجھ دے۔ اور انہیں ہر قسم کے غیر شرعی کاموں سے بچائے۔
جمیلہ: مگر میک اپ اپنے شوہر کے لیے تو جائز ہے نا؟
سلمیٰ: ہاں کچھ لوگ ایسا کہتے ہیں کہ شوہر کے لیے جتنا چاہو میک اپ کرلو کوئی گناہ نہیں، بلکہ شوہر کی رضا کے لیے ایسا کرنا باعثِ ثواب ہوگا…… مگر اس میں بھی یہ خیال رہے کہ آپ کا شوہر کے لیے بننا، سنورنا، سجنا، اور میک اپ کرنا غیر محرموں کو نہ دکھائی دے، تو ایسا کرنا جائز ہے، ورنہ ’’شوہر ‘‘کی آڑ میں سارے ’’شہر‘‘ کو دکھاتے پھرنا قطعاً جائز نہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ ہمارے گھر میں ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو شرعاً ہمارے لیے غیر محرم ہوتے ہیں۔ اور شوہر کے لیے بھی شرعی حدود میں ہی میک اپ کرنے کی اجازت دی گئی ہے، ایسا نہیں کہ غیر شرعی چیزوں کے ذریعے بھی بنا سنورا جائے۔ جیسے آج کل سینٹ، اور ایسی خوش بوؤں کا استعمال ہوتا ہے جن میں الکحل (شراب) کی آمیزش ہوتی ہے۔ شراب جب یوں بھی قطعی حرام ہے تو پھر خوش بو میں کیوں کر جائز ہو سکتی ہے۔آپ سمجھ رہی ہیں نا؟
جمیلہ: اچھا۔آپ کہاں پڑھاتی ہیں؟
سلمیٰ: میں پڑھاتی نہیں ہوں آنٹی، یہیں قربِ شہر مکان ہے، اور ایک چھوٹا سا ہاسپٹل ہے۔
جمیلہ: کس مدرسے سے فارغ ہیں؟
سلمیٰ: مسکراتے ہوئے، نہیں میں عالمہ نہیں، میں تو اُن کے قدموں کی دھول بھی نہیں۔
جمیلہ: پھر اتنی باتیں؟
سلمیٰ: وہ کیا ہے نا جمیلہ آنٹی، ہمارے گھر میں شروع سے ہی دینی ماحول رہا ہے…… بچپن سے دینی ماحول کو دیکھتے آرہے ہیں……مذہبی باتیں سُنتے سمجھتے آرہے ہیں…… بچپن میں جب ابو جان اور بھائی جان وغیرہ اِن سب لغویات سے روکتے ٹوکتے تھے، تو ہمیں پہلے بُرا لگتا تھا…… مگر آج سمجھ میں آتا ہے کہ اُن کی ڈانٹ ہمارے لیے کتنی ضروری تھی، اگر انہوں نے ہم پر سختی نہ کی ہوتی توہم بھی لچک اور ڈھیل کا سہارا لے کر زمانے کی رَو کے ساتھ بہہ رہے ہوتے…… اور دنیا کی رنگینیوں میں کھو جاتے۔ اﷲ ہماری تمام بہنوں کو سمجھ دے۔
جمیلہ: بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔
سلمیٰ: جزاک اﷲ ! تو ہم لوگ بیوٹی پارلر کے بارے میں بات کر رہے تھے…… نغمہ !بیوٹی پارلر میں جو تیسرا کام ہوتا ہے، وہ ہے مساج، یوں کہہ لو کہ یہ انتہائی شرم ناک پہلو ہے بیوٹی پارلر کا۔ لوگ یہاں جا کر ’’فُل باڈی مساج‘‘ کراتے ہیں اور احمقانہ جواز یہ پیش کرتے ہیں: ’’مساج سے جلد کے خلیے عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈھیلے نہیں پڑتے اس لیے جلد فریش رہتی ہے اور جھریاں نہیں بننے پاتیں۔‘‘ حالاں کہ اس قول میں ذرہ برابر بھی سچائی نہیں، اگر ایسا ہوتا تو پارلر جانے والی کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔ جب کہ یہ عام مشاہدہ ہے کہ عمر کے ساتھ جلد پر فرق پڑتا ہے جو قانونِ فطرت ہے، اگر حقیقت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کردیکھا جائے تو یقینا کسی بھی مسلمان، با حیا عورت کو یہ زیب نہیں دیتا، بلکہ اس کاذکر سنتے ہی شرم سے سر جھک جائے۔ مگر افسوس ہماری یہ مغربی تہذیب کی ماری خواتین اس قبیح فعل کو کرواتے ہوئے ذرا بھی حیا محسوس نہیں کرتیں۔
لہٰذا ہمیں ان سب باتوں سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بیوٹی پارلر اور بے ہودہ، فیشن پرستی میں صرف ہمارا نقصان ہے۔ اگر سنجیدگی سے غور کریں تو اس میں نہ تو ہمیں یہاں کوئی فائدہ نظر آئے گا اور نہ ہی آخرت میں کوئی نفع۔ ویسے بھی ان دکانوں کے اسٹاف مخلوط ہوتے ہیں اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ لیڈیز اسپیشل پارلر بھی ہیں تو بھی جن احادیث کو ہم نے بیان کیااُس کے پیشِ نظر توہمیں وہاں جانا ہی نہیں چاہیے۔ اور پھر آج کل کیا نہیں ہوتا۔ کیا آپ نے گزشتہ دنوں نیوز پیپر میں نہیں دیکھا کہ کرائم برانچ نے پارلر مالک کو اس جرم میں گرفتار کیا کہ وہ اپنے کسٹمر کی خفیہ کیمروں سے تصویریں لیا کرتا تھا۔ آپ کو پتہ ہے یہ نہ صرف تصویر لیتے ہیں بلکہ خفیہ کیمروں سے سارے کاموں کی ویڈیوز بھی رکارڈ کرتے ہیں۔ اور انہیں فحاشیت کی تشہیر کرنے والی کمپنیوں کو بھاری داموں فروخت کر دیتے ہیں۔ اور بھی بہت سی برائیاں ہیں، باتیں بھی بہت کرنی تھی، پھر کسی موقع سے کریں گے، وقت کافی ہو گیا۔
جمیلہ: تو پھر کیا کرنا چاہیے؟
سلمیٰ: اتنی ساری برائیاں تو میں نے وہاں کی بتا دی ہیں، آنٹی ! اب آپ بتائیے کیا کوئی ماں یا میں چاہوں گی کہ میرے بچے فحاشی کا اشتہار کریں۔ لوگ انہیں شہوت بھری نگاہوں سے دیکھیں؟
جمیلہ: نفی میں سر ہلاتے ہوئے، یہ تو ٹھیک ہے ہم ہماری بچیوں کو روک لیں مگر سارا معاشرہ اسی دلدل میں پھنسا ہے انہیں کیسے نکالیں؟
سلمیٰ: ہاں یہ ایک اہم مسئلہ ماڈرنائزیشن کے نام پر، ساری قوم کو یہود ونصاریٰ کی طرز اور تقلید کے درپے لگا کے، اس قوم کو اپنی شناخت سے دُور کیا جا رہا ہے۔ اور ہم ہیں کہ ہوا کے ساتھ بہتے جا رہے ہیں، دیکھو معاشرے میں انقلاب حکمت اور اہلِ علم سے آئے گا۔ اور ہمارے یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی دینی تربیت کا کوئی خاص انتظام نہیں ، اور اگر کہیں ہے بھی تو والدین اتنے سُست ہیں کہ انہیں دینی اداروں کا رُخ نہیں کرنے دیتے۔اور اگر کچھ سرپرست تیار بھی ہو جائیں تو ایسے بچے یا بچی کو اس فیلڈ میں ڈالتے ہیں جس سے وہ عصری تعلیم کے معاملے میں نااُمید ہو چکے ہوتے ہیں ! جو شرارتی اور بگڑ گئے ہوتے ہیں، اور نہیں سمجھتا کہ یہ کیا پڑھیں گے، روزانہ اسکول سے کال، ٹیوشن سے کال، گھر میں لڑائی، گلی محلے میں جھگڑا، اسکول والوں نے انکار کردیا ایڈمیشن خارج کردیا، مرتا کیا نہ کرتا، چلو مدرسے میں ڈال دو سدھر جائیں گے۔ بے شک مدرسہ عظیم جگہ ہے، اخلاقیات کو سدھارنے کی مگر کیا یہ صرف اسی کام کے لیے رَہ گئے ہیں۔
مطلب یہ کہ ہمارا مقصد ہی نہیں رَہ گیا کہ ہم بچوں میں یا خود میں اِسپرٹ پیدا کریں کہ ہمارے بچے کو علمِ دین سکھائیں گے۔ اور جو آبھی جاتے ہیں نا آنٹی اُن کی کیا پڑھائی چل رہی ہے، وہ کیسا پڑھ رہے ہیں، کب درس گاہ جاتے ہیں، کب آرہے ہیں، پاک صاف کپڑے، یونی فورم پہن کے جارہے ہیں یا نہیں، کسی چیز کی کوئی پروا نہیں ہوتی…… اس کے برعکس اگر بچے انگلش میڈیم اسکول جا رہے ہیں، اور اسکول صبح 8؍ بجے کی تو ماں 5؍ بجے اُٹھ جائے گی، ناشتہ تیار کرے گی، بچے کو نہلائے گی دھلائے گی، کپڑے پہنائے گی، ناشتہ کروائے گی، پھر بچے کا بستہ خود اپنے کاندھے پر اُٹھاکے اُسے اسکول بس تک چھوڑ کے بھی آئے گی…… !! حیرت ہے ہم اتنی توجہ دینی تعلیم کے حصول پر کیوں نہیں دیتے؟ ہمیں اپنی فکر بدلنی ہو گی معاشرہ خود بہ خود بدل جائے گا۔ اور آج کل انگلش میڈیم اسکولوں پر مشنریوں کے اثرات ہیں۔ جو عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہیں…… اور دینی،تہذیب و تمدن سے نابلد ہماری قوم کے بچے بڑی آسانی سے اغیار کی جھولی میں چلے جاتے ہیں…… پھر صرف نام کے مسلم رَہ جاتے ہیں…… اور سارے کام صرف مسلمانی کو شرمانے والے کرتے ہیں…… ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا کہ
وضع میں تم نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
خیر! چلو آنٹی پھر ملیں گے ان شاء اﷲ …………چلو نغمہ، صالحہ کا خیال رکھو۔اﷲ حافظ!
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.