You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اپریل فول کی حقیقت اور شرعی حیثیت
--------------------------------------------
کیااپریل فول مسلمانوں کوبے وقوف بنانے کے لیے منایاجاتاہے؟
==================================
پیشکش:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
**********************************
آج ہمارے معاشرے میں بے شمارایسی اخلاقی وبائیں اورغلط رسم ورواج ہیں جومغربی تہذیب اوریہودیوں کی دین ہیں۔
اسی قسم کی خلافِ مروت اورخلافِ تہذیب جاہلیت کی ایک چیز’’اپریل فول‘‘ بھی ہے ۔
ہماری جدیدنسل خاص طورپرتعلیم یافتہ طبقہ اسے نہایت اہتمام اورگرم جوشی سے مناتاہے اوراپنے اس فعل کوعین روشن خیالی تصورکرتاہے ۔اس دن لوگ ایک دوسرے کوبیوقوف بناتے ہیں ،آپس میں مذاق واستہزا،جھوٹ ،دھوکہ ،فریب ،ہنسی ،وعدہ خلافی اورایک دوسرے کی تذلیل وتضحیک کرتے ہیں۔ سماجی ،مذہبی اوراخلاقی اعتبارسے اپریل فول مناناحرام ہے ۔اس موقع پرعوام کوبیوقوف بنانے کے لیے اخبارات میں سنسنی خیزسرخیوں کے ساتھ خبریں شائع ہوتی ہیں جسے پڑھ کرلوگ تھوڑی دیرکے لیے ورطۂ حیرت میں پڑجاتے ہیں۔بعدمیں پتہ چلتاہے کہ آج یکم اپریل ’’اپریل فول‘‘ہے ۔ا س کے حرام ہونے میں کسی مسلمان کوذرہ برابرتذبذب کاشکارنہیں ہوناچاہیے اس لیے کہ اس میں جن امورکاارتکاب کیاجاتاہے وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حرام ہیں۔
اپریل فول منانے کاآغازکب ہوااورکیسے ہوا۔ا س سلسلے میں مختلف توضیحات وروایات ہیں۔البتہ اس حوالے سے کوئی پختہ تاریخی شہادت سامنے نہیں آئی ۔بہرحال حقیقت یہ ہے کہ اپریل فول مغربی تہذیب اوریہودونصاریٰ کی دین ہے ۔ا س سلسلے میں جوروایات کتب تواریخ اوراخبارات میں موجودہیں ان میں سے چندحاضرخدمت ہیں:
(۱)انسائیکلوپیڈیاآف برٹانکااورانسائیکلولاروس کامصنف اپریل فول کی وجہ ایجادیہ لکھتاہے کہ
’’جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوگرفتارکرلیااوررومیوں کی عدالت میں پیش کیاتورومیوں اور یہودیو ں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مذاق ،تمسخر، استہزا اور ٹھٹھاکیاگیا۔ان کوپہلے یہودی سرداراورعلماکی عدالت میں پیش کیاگیا پھر پیلاطس کی عدالت میں لے گئے کہ فیصلہ وہاں ہوگا،پھروہاں سے ہیروڈیلس کی عدالت میں پیش کیاگیاپھرہیروڈیلس سے پیلاطس کی عدالت میں فیصلے کے لیے بھیجاگیا،ایسامحض معاذ اللہ تفریحاً کیاگیا‘‘۔
(۲)لوقاکی انجیل میں اس واقعے کویوں بیان کیاگیاہے
’’جب لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوگرفتارکیے ہوئے تھے تویہودان کی آنکھیں بند کرکے منھ پرطمانچہ مارکرٹھٹھاکرتے تھے ۔ ان سے یہ کہتے تھے کہ نبو ت یعنی الہام سے بتاکہ کس نے تجھے مارا۔ا س کے علاوہ اوربہت سی باتیں بطورطعنہ کہتے تھے‘‘۔ (معاذ اللہ)
(۳)فریدی وجدی نے اپنی انسائیکلوپیڈیامیں لکھاہے کہ
’’میرے نزدیک بھی اپریل فول کی حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری ،ان کی شان میں توہین ،ان کے ساتھ مذاق اورتکلیف پہنچا نے کی یادگارہے‘‘۔
(۴)اردوکی مشہورلغت ’’نوراللغات‘‘۱/۲۴۱میں اپریل فول کے تعلق سے مصنف مولوی نورالحسن نیرلکھتے ہیں :
’’اپریل فول انگلش کااسم ہے اس کامعنیٰ اپریل کااحمق ہے اورحقیقت یہ ہے کہ انگریزوں میں دستور ہے کہ اپریل میں خلاف قیاس دوستوں کے نام مذاقاً بیرنگ خط،خالی لفافے میں یااوردل لگی کی چیزیں لفافے میں رکھ کربھیجتے ہیں۔ اخبارو ں میں خلاف قیاس خبریں چھاپی جاتی ہیں۔جولوگ ایسے خطوط لے لیتے ہیں یااس قسم کی خبرکومعتبرسمجھ لیتے ہیں وہ اپریل فول قرارپاتے ہیں۔ اب ہندوستان میں بھی اس کارواج ہوگیاہے اورانہیں باتوں کواپریل فول کہتے ہیں‘‘۔
نوراللغات کی اس توضیح سے یہ ثابت ہوگیاکہ اپریل فول انگریزوں کادستورہے اورانگریزوں کادستوراپنانامسلم قوم کے لیے حرام ہے ۔
اپریل فول کی حقیقت کے تعلق سے یہ زمانۂ قدیم کے تاریخی شواہدتھے۔ماضی قریب میں بھی اس طرح کے واقعات یہودیوں اورنصرانیوں نے مسلمانوں کے ساتھ انجام دیے جواپریل فول سے تعلق رکھتے ہیں۔اگرکوئی مغربی تہذیب کادلدادہ دریدہ دہن ان توضیحات او ر واقعات کی بنیادپراپریل فول کوغلط تصورنہیں کرتاتوفی نفسہ ا س دن جو امورانجام دیے جاتے ہیں ان کی وجہ سے یہ حرام ہے۔ تمسخر، استہزا، جھوٹ ،فریب اورایک دوسرے فردیاجماعت کی ہنسی بناناحرام ہے۔ایک دوسرے کی ہنسی مذاق بنانے والوں کوقرآن متنبہ کرتاہے ۔
ترجمہ:اے ایمان والو!مردوں کی ایک جماعت دوسری جماعت کا ہنسی مذاق نہ اڑائے ۔شایدوہ ان مذاق اڑانے والوں سے (اپنے اعمال صالحہ کی وجہ سے بارگاہ الٰہی میں)بہترہوںاورعورتیں دوسری عورتوں کامذاق نہ اڑایاکریں ،شایدوہ ان سے بہترہوں اورنہ ایک دوسرے پرعیب لگائو اورنہ کسی کوبرے القاب سے آوازدو۔
(سورۂ حجرات: آیت ۱۱)
اس دن جھوٹ بکثرت بولاجاتاہے۔جھوٹ بولناحرام ہے گناہ کبیرہ ہے
اپریل فول کے موقع پرہنسی مذاق ،تمسخر،استہزا،جھوٹ ،دھوکہ ، مکروفریب ،وعدہ خلافی ،بددیانتی اورامانت میں خیانت وغیرہ وغیرہ امورانجام دیے جاتے ہیں۔یہ سب مذکورہ فرمان الٰہی اورفرمان رسالت کی روشنی میں ناجائزوحرام ،خلاف مروت ،خلاف تہذیب اور ہندوستان کے سماج ومعاشرے کے خلاف ہیں لیکن افسوس صدافسوس مسلمانوں پرکہ جنہیں خیرامت کاسرٹی فیکٹ ملاہے جوقوم نیکی کی دعوت اوربرائی سے روکنے کے لیے مبعوث کی گئی ہووہ قوم خداورسول کے دشمن یہودونصاری کی تقلیدکرتی ہے ۔
آج قوم مسلم اپنے ازلی دشمن یہودو نصاری کے جملہ رسم ورواج ،طرزعمل اورہرقسم کے فیشن کونہایت ہی فراخ دلی سے قبول کررہی ہے۔مسلم نوجوان اسلامی تعلیمات سے اس قدربے بہرہ ہیں کہ وہ دنیاوی امورمیں جائزناجائزکاخط فاصل نہیں کھینچ سکتے۔اگرکسی مسلمان کے بائیں ہاتھ میں مکمل دنیاہوتو دائیں ہاتھ میں مکمل دین ہوجس سے دنیاوآخرت میں کامیابی و کامرا نی سے ہم کنارہوں۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کواسلامی تعلیمات اوراسوۂ مصطفوی کے مطابق زندگی گزارنے اوریہودونصاریٰ کی تقلید سے پرہیز کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین
(ماخوذ:ماہنامہ سنّی دعوت اسلامی،اپریل ۲۰۱۲ئ۔از:فہیم احمدثقلینی ازہری )
عطا ء الرحمن نوری( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.