You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
قومی کونسل براے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے زیر اہتمام منعقدہ
علامہ فضل حق خیرآابدی سمینار چوپڑہ مہاراشٹر میں پڑھا گیا اک مقالہ
مورخہ 31 مارچ 2014 بروز پیر
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
علامہ فضلِ حق خیرآبادی اور فتواے جہاد
ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی، مالیگاؤں
دارالسلطنت دہلی زمانۂ قدیم سے ہی علم و فن اور شعر وادب کا گہوارہ رہا ہے۔ مغلیہ حکومت کے اخیر دور میں انقلاب ۱۸۵۷ء سے قبل دہلی کی علمی و ادبی دنیا میں جن حضرات کا غلغلہ بپا تھا ان میںعلامہ فضل حق خیرآبادی(م۱۲۷۸ھ)،مفتی صدرالدین آزردہؔ(م۱۲۸۵ھ)،مرزا اسدا للہ خان غالبؔ(م ۱۲۸۵ھ) اور حکیم مومن خان مومنؔ کا شمار صفِ اول کے ممتاز ترین شعرا و ادبا میں ہوتا ہے۔ ’’غالبؔ نام آورم ‘‘ کے مصنف نادمؔ سیتا پوری لکھتے ہیں :
’’انقلاب سنہ ستاون سے پہلے دہلی کی ادبی فضا جن عناصرِ اربعہ سے ترتیب پارہی تھی وہ یہی چار ہستیاں تھیں۔ مولانا خیرآبادی،مفتی صدرالدین آزردہؔ،مرزا غالبؔ اور حکیم مومنؔ۔‘‘(نادم سیتاپوری: غالب نام آورم ،ص ۸۱)
علامہ فضل حق خیرآبادی(ولادت ۱۲۱۲ھ/۱۷۹۷ئ) اور ان کے والدِ ماجد مولانا فضل امام خیرآبادی علیہم الرحمہ(وفات ۱۲۴۴ھ/۱۸۲۹ئ) دونوں اپنے عہد کے جید عالم اور مشاہیر میں شمار کیے جاتے تھے اور مرجع العلماء والادباء تھے۔ دونوں کی شخصیت حکمت و دانش کے اعتبار سے یگانۂ روزگار تھی ان حضرات کو معقولات میں جو تبحّر حاصل تھا ؛ اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگا کہ وہ یونانی اور اسلامی دورِ عروج کے مفکرین اور حکما کی صف میں شامل کیے جانے کے بلاشبہ قابل ہیں۔سر سید احمد خان علامہ فضل حق خیرآبادی سے سیاسی و دینی لحاظ سے مختلف الخیال اور جدا جدا عقیدہ رکھتے تھے بل کہ بعض معاملات میں شدید مخالفت بھی کی؛ لیکن خاطر نشین فرمائیے کہ سر سید کے ذہن و قلب پر علامہ فضل حق خیرآبادی کی حکمت و دانش کے اثرات کتنے گہرے تھے ، سر سید لکھتے ہیں :
’’جمیع علوم و فنون میں یکتاے روزگار ہیں اور منطق و حکمت کی تو گویا انھیں کی فکرِ عالی نے بِنا ڈالی ہے ، بارہا دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو یگانۂ فن سمجھتے تھے جب ان کی زبان سے ایک حرف سنا،دعواے کمال کو فراموش کرکے نسبتِ شاگردی کو اپنا فخر سمجھا،بہ ایں کمالات علم و ادب میں ایسا عَلمِ سرفرازی بلند کیا ہے کہ فصاحت کے واسطے ان کی شستۂ محضر عروجِ معارج ہے اور بلاغت کے واسطے ان کی طبعِ رسا دست آویز بلندیِ معارج ہے۔ سحبان کو ان کی فصاحت سے سرمایۂ خوش بیانی اورامراء القیس کو ان کے افکارِ بلند سے دست گاہِ عروج و معانی،الفاظِ پاکیزہ ان کے رشکِ گوہرِخوش آب اور معانیِ رنگین ان کے غیرتِ لعلِ ناب، سرو ان کی سطورِ عبارت کے آگے پابہ گِل،اور گُل ان کی عبارتِ رنگیں کے سامنے خجل،نرگس ان کے سواد سے نگاہ ملا دیتی، مصحفِ گل کے پڑھنے سے عاجز نہ رہتی، اور سوسن اگر ان کی عبارتِ فصیح سے زبان کو آشنا کرتی،صفتِ گویائی سے عاری نہ ہوتی۔‘‘(سر سید: آثارالصنادید،ص ۲۸۱)
اس تاریخی حقیقت سے ہر اہل فہم اور ذی علم واقف ہے کہ سرزمین ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کی تحریک کے قائدِ اعظم کی حیثیت علامہفضل حق خیرآبادی کو ہی حاصل ہے، علامہ کی تصنیف ’’الثورۃ الہندیہ اور’’ قصائد فتنۃ الہند‘‘ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے نہایت قابلِ قدر مآخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چوں کہعلامہ فضل حق خیرآبادی نے مسئلۂ امتناع النظیر وغیرہ میں اُن کے معاصر سید احمد راے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے نظریات سے اتفاق نہیں کیا ، بہ ایں سبب آپ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی بہت زیادہ کوششیں کی گئیں؛ چناں چہ تاریخی حقائق و شواہد پر پردہ ڈالنے اور جنگِ آزادی کے مسلمہ رہنماوں کے خلاف فضا پیدا کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ علامہ فضل حق خیرآبادی نے نہیں دیا۔ اس ضمن میں مولانا امتیاز علی خاں عرشیؔ رام پوری اور مالک رام کواوّلیت حاصل ہے جنہوں نے اپنا سارا’’زورِ تحقیق‘‘ نا معلوم کن ’’جذبات‘‘ سے سرشار ہوکر اس بات پر صرف کرنے کی ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ کوشش کی کہ انگریزوں کے خلاف فتویٰ پر علامہ خیرآبادی کے دستخط نہیں تھے۔ ان صاحبان کے مضامین ماہ نامہ ’’تحریک‘‘ دہلی میں اگست ۱۹۵۷ء اور جون ۱۹۶۰ء میں علی الترتیب شائع ہوئے۔ عرشیؔ صاحب کے بارے میں تو معلوم ہے کہ وہ سید احمد راے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے افکار و نظریات کے پیرو تھے ،بہ ایں سبب جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے فتواے جہاد کے سلسلے میں آپ نے ’’محققانہ فیصلہ‘‘ صادر کرنے میں جانب داری کا ’’بہترین مظاہرہ‘‘ کیا ، مالک رام کے بارے میں پتا نہیں؛ کہ وہ کن جذبات سے مغلوب ہوکر تاریخی حقائق کو جھٹلا رہے تھے ؟علاوہ ازیں پروفیسر محمد ایوب قادری (پاکستان) نے بھی اپنا’’اشہبِ تحقیق‘‘ ان ہی دونوں شخصیات کے تتبع میں اسی میدان میں دوڑایا ہے کہعلامہ فضل حق خیرآبادی کا جنگِ آزادی میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ویسے کہیں کہیں ان کے قلم سے بے ساختہ سچائی بھی ٹپک پڑی ہے۔
سید احمد راے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے محض اِن چند ہم نوا مورخین کو چھوڑ کراُن ہی کے ماننے والے بیش تر حضرات نے اس حقیقت کا کسی نہ کسی طورپر اعتراف کیا ہے کہ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء میں مولانا فضلِ حق خیرآبادی کے فتواے جہاد نے ہی روح پھونکی اور تحریک ِآزادی نے زور پکڑا۔ ان میںجناب حسین احمدمدنی ٹانڈوی ، غلام رسول مہرؔ، شکور احسنؔ، مفتی انتظام اللہ شہابیؔ،محمد اسماعیل پانی پتی، خلیل احمد نظامی وغیرہم نمایاں ہیں۔
علامہ فضل حق خیرآبادی سے مذہبی طور پرمخالفانہ رویہ رکھنے والے چند مورخین کو چھوڑ کر ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ مولانا ہی کی ذات وہ پہلی متحرک شخصیت ہے جس نے انگریزوں کے خلاف علَمِ جہاد بلند کرنے کا فتویٰ عام فرمایا اور جس کے نتیجے میں سرزمینِ ہند کے مختلف بلاد و امصار میں انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت و شورش برپا ہوئی جسے ہم ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگِ آزادی کے نام سے جانتے ہیں ۔ علامہ فضل حق خیرآبادی کو اس زمانے میں گرفتار کرکے ان پر انگریزی حکومت سے بغاوت کرنے کی پاداش میں جزائرِ انڈومان سزاے کالا پانی کے طور پر بھیج دیا گیا۔جہاں عالمِ اسیری میں ۱۲؍ صفر المظفر ۱۲۷۸ھ/ ۱۸۶۱ء کو آپ نے دارِ بقا کی طرف رحلت فرمائی ۔
جیسا کہ اس امر کا اظہار کیا جاچکا ہے کہ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ ء کے فتواے جہاد سے متعلق علامہ فضل حق خیرآبادی کی مجاہدانہ سرگرمیوں کو پس پشت ڈالنے کی کوشش مولانا امتیاز علی خاں عرشیؔ اور مالک رام نے شروع کی ۔ واضح ہونا چاہیے کہ ان حضرات سے قبل کے جتنے بھی مورخین ہیں خواہ وہ مولانا کے عقائد و نظریات کے حامی ہوں یا مخالف سب نے اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے کہ فتواے جہاد پرعلامہ خیرآبادی کے دستخط بھی ہیں اور یہ فتویٰ انہوں نے ہی مرتب کیا اور یہ کہ آپ نے جنگِ آزادی میں عملاً حصہ لیا اور مجاہدانہ کردار ادا کرتے ہوئے سزاے کالا پانی کو قبول بھی کیا۔اسی طرح یہ بھی ذہن نشین رہے کہ کتبِ تواریخ میں تین فتووں کا ذکر ملتا ہے ایک فتویٰ جس کاعلامہ فضل حق خیرآبادی نے خوداپنی کتاب ’’الثورۃ الہندیہ‘‘ میں ذکر کیا ہے، دوسراجنرل بخت خاں کی تحریک پر خود مولانا نے مرتب کیا اور تیسرا جس کا ذکر سر سید احمد خاںنے ’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ میں کیا ہے جو کہ عدم وجوبِ جہاد پر مشتمل تھا۔
مولانا عرشی اورمالک رام کے مضامین کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے مولانا عبدالشاہد خاںشیروانی اسسٹنٹ لائب ریرین ، شعبۂ مخطوطات ، مولانا آزاد لائب ریری ، مسلم یونی ورسٹی ، علی گڈھ(ولادت جنوری ۱۹۱۵ئ/ وفات ۱۹۸۴ئ)نے ایک تحقیقی مقالہ بہ عنوان…’’ مقدمۂ بغاوت اور اس کے متعلقات ‘‘… قلم بند فرما کر حقِ تحقیق ادا کردیاتھاجو کہ ’’باغی ہندوستان‘‘ (اردو ترجمہ الثورۃ الہندیہ از : علامہ فضل حق خیرآبادی ) کے صفحہ ۲۴۷ سے ۲۸۱ تک پھیلا ہوا ہے ۔ مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی کے مذکورہ مقالہ کی اشاعت کے بعد جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے فتواے جہاد کے سلسلے میںعلامہ کی مخالفت کا سلسلہ بند ہوگیا تھا ۔ ایک طویل عرصہ تک خاموشی کے بعد فی زمانہ جب کہ علامہ فضل حق خیرآبادی کے وصال کو ۱۵۰؍ برس مکمل ہوچکے ہیں معروف صحافی و شاعر شمیم طارق صاحب نے اپنی ایک کتاب ’’غالبؔ اور ہماری تحریکِ آزادی‘‘ میں جہاں علامہ فضل حق خیرآبادی کی علمی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے خراجِ عقیدت پیش کیا ہے وہیں آپ کے فتواے جہاد کو مسترد کرنے کی سعیِ نا مشکوربھی کی ہے لیکن اس ضمن میں کوئی نئی تحقیق پیش نہ کرتے ہوئے؛ مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی کے ذریعہ محققانہ و انتقادانہ انداز میں ردّکی جاچکی مولانا عرشیؔ اور مالک رام ہی کی روایتوں کو بنیاد بنایا اور وہی نتیجہ نکالا ہے جسے عرشی ؔصاحب اور مالک رام نے ماہ نامہ ’’تحریک‘‘ دہلی میں اگست ۱۹۵۷ء اور جون ۱۹۶۰ء میں علی الترتیب شائع شدہ اپنے مضامین میں پیش کیاتھاکہ :
’’مولانا نے کبھی کوئی ایسا فتویٰ دیا ہی نہیں تھا جس میں مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کی ترغیب دی گئی ہو۔
غلط فہمی کی بنیاد پر انگریزوں نے انہیں گرفتار کرکے جو مقدمہ چلایا اس کے دوران وہ بار باریہی کہتے رہے کہ میں نے بغاوت میں کوئی حصہ نہیں لیا اور فتویٰ ِ جہاد پر جن علما کے دستخط ہیں ان میں میرا نام نہیں ہے۔
مولانا نے اپنی پیرانہ سالی ، اولاد کی کم سِنی اور عسیر الحالی کی دُہائی دے کر انگریزوں سے رحم کی پُرزور التجا بھی کی۔‘‘(شمیم طارق:غالب اور ہماری تحریکِ آزادی،ص ۳۲/۳۳)
جناب شمیم طارق کی اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد شعیب کوٹی نے لکھا ہے کہ :’’مولانا فضل حق کے فتواے جہاد کی بڑی تشہیر کی گئی ہے۔ ایک مسلک کے لوگ اس سلسلے میں بڑے جذباتی واقع ہوئے ہیں ۔‘‘(اردو بک ری ویو، دہلی اکتوبر تادسمبر ۲۰۰۸ء ، ص ۲۵)
شمیم طارق صاحب کی اس’’ تقلیدی تحقیق‘‘کے منظر عام پر آنے کے بعدضروری ہوجاتا ہے کہ ایک بار پھرعلامہ فضل حق خیرآبادی کے فتواے جہاد کی باز گشت سنائی جائے ۔ واضح ہونا چاہیے کہ صرف ایک ہی مکتبِ فکرکے نہیں بل کہ بڑے بڑے اصحابِ تحقیق اور منصف مزاج مورخین نے علامہ فضل حق خیرآبادی کی مجاہدانہ سرگرمیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔ حتیٰ کہ مولوی حسین احمدٹانڈوی مدنی نے اپنی کتاب ’’تحریکِ ریشمی رومال ‘‘ میں تو قضیہ ہی صاف کردیا ہے اورعلامہ فضل حق جیسے جنگِ آزادی کے شیرِ حق کی شانِ استقلال پر قربا ن ہورہے ہیں اور اس مفروضے کی سختی سے نفی کررہے ہیں کہ علامہ فضل حق کے فتواے جہاد سے متعلق صرف مخصوص افرادہی بڑے جذباتی واقع ہوئے ہیں ۔ موصوف راقم ہیں :
’’مولانا فضل حق صاحب خیرآبادی کو جو کہ تحریک کے بہت بڑے رکن تھے اور بریلی، علی گڑھ اور اس کے ملحقہ اضلاع کے دورانِ تحریک میں گورنر تھے، آخر ان کو گھر سے گرفتار کیا گیا۔ جس مخبر نے ان کو گرفتار کرایاتھا اس نے انکار کردیا کہ مجھے معلوم نہیں ، فتویِٰ جہاد پر جس نے دستخط کیے ہیں وہ یہ فضل حق ہیں یا کوئی اور ہیں؟……مولانا نے فرمایا:’ مخبر نے پہلے جو رپورٹ لکھوائی تھی وہ بالکل صحیح تھی کہ فتویٰ میرا ہے۔ اب میری شکل و صورت سے مرعوب ہوکر یہ جھوٹ بول رہا ہے۔‘
قربان جائیے علامہ کی شانِ استقلال پر؛ خدا کا شیر گرج کر کہہ رہا ہے کہ میرا اب بھی وہی فیصلہ ہے کہ انگریز غاصب ہے اور اس کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے ۔
خدا کے بندے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں ۔ وہ جان کی پروا کیے بغیر سر بہ کف ہوکر میدان میں نکلتے ہیں اور لومڑی کی طرح ہیر پھیر کرکے جان نہیں بچاتے بل کہ شیروں کی طرح جان دینے کو فخر سمجھتے ہیں۔‘‘
(حسین احمد مدنی: تحریکِ ریشمی رومال ، مطبوعہ کلاسیک ،لاہور، ۱۹۶۰ئ، ص ۶۴/۶۵)
آئیے ذیل میں جنگ ِ آزادی ۱۸۵۷ء کے مزید چند مؤرخین کے علامہ فضلِ حق خیرآبادی کی طرف سے فتواے جہاد کی تائید و حمایت میں تحریر کیے گئے اقتباسات سماعت کرتے چلیں ۔ خورشید مصطفی رضوی لکھتے ہیں :
’’علمانے جس جس طرح بغاوت کو منظم کیا، اس کو مفصل بیان کرنے کے لیے تو ایک علاحدہ کتاب کی ضرورت ہے مگر ان کا کچھ تذکرہ ان صفحات پر کیا جارہا ہے ۔ اس حقیقت سے بڑے بڑے مورخ بھی انکارکی جرات نہیں کرسکے ہیں کہ یہ علما عوام میں بے حد مقبول تھے۔ ان کی تحریر و تقریر کا بڑا اثرہوتا تھا۔ چناں چہ دہلی میں جنرل بخت خاں کی تحریک پر مولانا فضل حق خیرآبادی اور دوسرے علما ے دہلی نے جو جہاد کا فتویٰ دیا، اس کے بارے میں مولوی ذکاء اللہ نے بھی اپنی تاریخ میں اقرار کیا ہے کہ اس سے مذہبی جوش و خروش بہت بڑھ گیا۔‘‘
(خورشید مصطفی رضوی، مورخ و ادیب: جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء مکتبۂ برہان دہلی، ۱۹۵۹ء ،ص ۴۵۵)
مشہور مؤرخ مولانا غلام رسول مہرؔ لکھتے ہیں :
’’مولانا (فضل حق)کے دہلی پہنچنے سے پیش تر بھی لوگوں نے جہاد کا پرچم بلند کر رکھا تھا۔ مولانا پہنچے تو مسلمانوں کوجنگِ آزادی پر آمادہ کرنے کی غرض سے باقاعدہ ایک فتویٰ مرتب ہوا جس پر علما ے دہلی کے دستخط لیے گئے۔ میرا خیال ہے کہ یہ فتویٰ مولانا فضل حق ہی کے مشورے سے تیار ہوا تھا اور انھوں نے علما کے نام تجویز کیے، جن پر دستخط لیے گئے۔‘‘
(غلام رسول مہر: ۱۸۵۷ء کے مجاہد، کتاب منزل ، لاہور ۱۹۶۰ء ،ص ۲۰۶)
علاوہ ازیں پاکستان کے نام ور شاعر ناصر کاظمی اور مشہور کالم نویس انتظار حسین کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلہ’خیال‘‘ کے سن ستاون نمبر میں شکور احسن صاحب نے ، مفتی صدرالدین آزدرہؔ پر مضمون لکھتے ہوئے علامہ کے فتواے جہاد کا یوں ذکر کیا ہے :
’’جب برطانوی استعمار کے خلاف ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ شروع ہوا تو بعض شاعروں ، ادیبوں اور عالموں نے اس میں سرگرمی سے حصہ لیا اور انگریزی حکومت کا اقتدار بحال ہوجانے کے بعد ان پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ گئے۔ مولانا فضل حق کو جہاد کا فتویٰ صادر کرنے کے جرم میں انڈمان بھیجا گیا۔ صہبائیؔ کو پھانسی کے تختہ پر لٹکایا گیا۔ شیفتہؔ کو قید و بند کی مصیبتیں برداشت کرنی پڑیں۔‘‘(مجلہ ’’خیال‘‘ لاہور،سن ستاون نمبر ص ۲۶۸)
مفتی صدرالدین آزردہؔ ہی کے بیان میں مفتی انتظام اللہ شہابیؔ فتواے جہاد کی تیاری کی ساری ذمہ داری مولانا فضل حق پر ڈالتے ہیں :
’’ہنگامہ ۱۸۵۷ء میں رو نما ہوا۔ مولانا فضل حق الور سے دہلی آئے۔ جنرل بخت خاں نے نقشۂ اقتدار جما رکھا تھا۔ استفتا مولانا نے لکھا ۔ مفتی صاحب و دیگر علما نے فتویٰ دیا …مولانا فضل حق کو اقرارِ جرم پر انڈمان جانا پڑا۔‘‘
(انتظام اللہ شہابیؔ ، مفتی: غدر کے چند علما، دینی بک ڈپو، دہلی، ص ۴۸)
رئیس احمد جعفری معروف مورخ و ادیب اور دانش ور گذرے ہیں ، جنہوں نے تمام عمر جنگِ آزادی کی مختلف تحریکات کی جزئیات کھنگالنے میں گذار دی ۔ موصوف اپنی ضخیم کتاب ’’بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ مولانا فضل حق خیرآبادی علمی قابلیت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے ۔ ان کو فتواے جہاد کی پاداش اور جرمِ بغاوت میں انڈمان بھیج دیا گیا۔‘‘
(رئیس احمد جعفری ، مورخ: بہادر شاہ ظفر اور ن کا عہد ، کتاب منزل ، لاہور،۱۹۵۶ئ، ص ۳۱۵)
محمد اسماعیل پانی پتی اپنے مضمون ’’۱۸۵۷ء میں علماے کرام کا حصہ‘‘ میں علامہ فضل حق خیرآبادی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں :
’’جب ۱۸۵۷ء کا ہنگامۂ عظیم دہلی میں رونما ہوا تو(علامہ فضل حق خیرآبادی) فوراً دہلی پہنچے اور جہاد کا فتویٰ دیا۔ جنرل بخت خاں کمانڈر اِن چیف افواجِ ظفر سے ملے اور اس کی بڑی اعانت اور امداد کی …لکھنؤ میں ان پر مقدمہ قائم ہوا۔ نہایت بے باکی اور صفائی کے ساتھ بغیر ذرّہ بھر ہچکچاہٹ اور تذبذب کے اقرار کیا کہ ہاں! میں نے فتویٰ لکھا اور اس پر دستخط کیے اور جو کچھ میں نے کیا اپنے خیال میں ٹھیک کیا۔‘‘
(ماہ نامہ ’’لیل و نہار‘‘ لاہور،جنگِ آزادی نمبر ۱۸۵۷ء ، بابت مئی ۱۹۵۷ء ص ۱۲/۲۸)
اسی طرح علامہ فضل حق کے فتواے جہاد سے متعلق پاکستان کے مشہور و معروف تحقیقی جریدے ’’الزبیر ‘‘ کے تحریکِ آزادی نمبر کایہ اقتباس فتواے جہاد کے منکرین کے لیے چشم کشا ہے :
’’مولانا فضل حق نے ایک دن بعد نمازِ جمعہ جامع مسجد میں انگریزوں کے خلاف فتویٰ پڑھ کر سنایا تو بہتوں کے لیے باعثِ تشویش بنا۔ اس فتویٰ پر مفتی صدرالدین آزردہؔ اور دوسرے پانچ علما کے دستخط تھے۔ اس کا شائع ہونا تھا کہ جد و جہد نے ایک نیا زور پکڑا اور جگہ جگہ انگریزوں کے چھکّے چھوٹ گئے… تاریخِ ذکاء اللہ کے مطابق اس فتویٰ کے بعد صرف دہلی میں نوّے ہزار سپاہ جمع ہوگئی… سرکاری وکیل کے مقابلے میں انھوں نے خود بحث کی اور سب الزام ایک ایک کر کے ردّ کردیے۔ لیکن فتویٰ کے بارے میں آخر تک اَڑے رہے کہ وہ فتویٰ صحیح ہے اور میرا لکھا ہوا ہے اور آج اس وقت بھی میری راے یہی ہے۔‘‘
(سہ ماہی ’’الزبیر‘‘ بہاول پور، تحریکِ آزادی نمبر ، شمارہ ۱۹۷۰ئ، ص ۹۲)
مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی(جو مسلکی و نظریاتی طور پر علامہ کے مخالف ہیں) ’’علماے حق اور ان کی مظلومیت کی داستانیں ‘‘کے صفحہ نمبر ۵۶ پر لکھتے ہیں :
’’ دلاور جنگ مولوی احمد اللہ شاہ مدراسی آگرہ سے لکھنؤ آئے۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کے خلاف علما میں سرگرمیِ عمل پیدا کررہے تھے۔ مولانا(فضل حق) بھی ان کے ہم نوا ہوگئے اور سرکاری ملازمت ترک کرکے الور چلے گئے۔ ہنگامہ ۱۸۵۷ء رونما ہوا۔ دلّی آئے۔ بہادر شاہ سے ملے۔ یہاں جنرل بخت خاں کے ٹھاٹ جمے ہوئے تھے۔ نصاریٰ کے خلاف جہاد کا فتویٰ مولانا نے دیا اور اس پر مفتی صدرالدین آزردہؔ ، مولوی فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبرآبادی وغیرہ کے دستخط کرائے گئے۔
جج کے سامنے آپ کی موجودگی میں سرکاری گواہ پیش ہوا۔ اس نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگا:’یہ وہ فضل حق نہیں ہیں جنھوں نے جہاد کا فتویٰ دیا تھا۔ وہ دوسرے ہیں ۔‘
آپ فوراً بول اُٹھے :’پہلی اطلاع اس کی صحیح ہے اب غلط کہہ رہا ہے ۔ مجھ پر جو جرم عائد کیا گیا ہے وہ درست ہے۔ میں نے ہی فتویٰ لکھا اور آج بھی میری راے وہی ہے۔
جج نے حبسِ دوام بہ عبور دریاے شور کی سزا تجویز کی جو بہ خندہ پیشانی قبول فرما کر انڈمان گئے۔‘‘
یہی مفتی صاحب اپنی دوسری کتاب ’’ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماـ‘‘ میں بھی علامہ فضل حق کے فتویٰ کے حق میں فتویٰ دیتے ہیں ، اور اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ علامہ کے فتواے جہاد سے متعلق صرف مخصوص افراد ہی جذباتی واقع ہوئے ہیں :
’’مولانا نے اپنے اوپر کے بقیہ الزام رد کرنے کے بعد پلٹا کھایا اور کہا کہ جس مخبر نے فتویٰ کی خبر کی اس کے بیان کی اب میں توثیق کرتا ہوں ۔ میرا ہی لکھا ہوا ہے۔ اور میرے ہی مشورے سے علمانے دستخط کیے۔ پہلے اس گواہ نے سچ رپورٹ لکھوائی تھی مگر اب عدالت کے سامنے میری صورت سے مرعوب ہوکر جھوٹ بولا ہے۔ مجھے خدا کے حضور جانا ہے۔ غلط بات مذہب کے معاملے میں نہیں بول سکتا۔‘‘
(انتظام اللہ شہابیؔ ، مفتی: ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علما، دینی بک ڈپو، دہلی، ص۵۳)
پروفیسر محمد ایوب قادری جنہوں نے کئی مقامات پرعلامہ کے فتواے جہاد کی تردید بھی کی ہے لیکن حق بات ایک جگہ ان کے قلم سے نکل ہی گئی اور موصوف نے بھی اقرار کر ہی لیا کہ جنگِ آزادی ۷ ۱۸۵ء کے فتواے جہادکی تیاری علامہ کی کوششوں کا رہینِ منت ہے :
’’ دہلی میں بہادر شاہ ظفر نے خود مختاری کا اعلان کردیا۔ مولانا فضل حق خیرآبادی نیز دوسرے علما دہلی میں موجود تھے… جنرل بخت خاںکے مشورے سے مولانا فضل حق خیرآبادی نے بعد نمازِ جمعہ جامع مسجد دہلی میں جہاد کی اہمیت و ضرورت پر تقریر کی اور جہاد کا استفتا مرتب کرکے پیش کیا۔ جہاد کے فتویٰ کی تیاری میں جنرل بخت خاںکی کوشش خاص تھی۔ ‘‘
(محمد ایوب قادری، پروفیسر:جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کا ایک مجاہد! مولانا فیض احمد بدایونی،پاک اکیڈمی، کراچی، ۱۹۵۷ء ، ص ۲۱/۲۲)
پاکستان کے مشہور محقق ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اپنے مضمون’’ مولانا فضل حق خیرآبادی‘‘ میں راقم ہیں :
’’ مسلمانوں کو عزت و آبرو کی زندگی بسر کرنے کے لیے آخری مرتبہ جان کی بازی لگا دینے پر آمادہ کرنے کے لیے ایک باقاعدہ فتویٰ جہاد کا جاری کیا گیا ، جس پر دستخط کرنے والوں میں مفتی صدرالدین آزردہؔاور مولوی فضل حق بھی شریک تھے۔
مولانا فضل حق نے فتویٰ کے بعد جگہ جگہ دورے کیے اور بالآخر دہلی پہنچ گئے۔ اس زمانے میں ان کی سیاسی سرگرمیوں کا اندازہ جیون لال کے روزنامچے سے ہوتا ہے جس میں اس نے مختلف تاریخوں میں مولانا کا قلعے کی مجلسِ مشاورت میں شریک ہونا بیان کیا ہے ۔ مولانا فضل حق کے مشورے صرف قلعۂ معلا کی پوشیدہ مجلسوں تک محدود نہ تھے۔ وہ جنرل بخت خاں سے ملے، مشورے ہوئے اور آخر میں بعد نمازِ جمعہ دلّی کی لال مسجد( جامع مسجد، دہلی) میں علما کے سامنے تقریر کی اور فتویٰ پیش کیا۔‘‘(مجلہ’’ خیال‘‘ سن ستاون نمبر ص۲۶۳/۲۶۴)
پاکستان میں دیوبندی مکتب ِ فکر کے ترجمان ہفت روزہ’’ خدام الدین ‘‘ لاہور کے ایک مضمون کے چند اقتباس ملاحظہ ہوں ۔ یہ اقتباسات علامہ فضل حق خیرآبادی کے فتواے جہاد کے منکرین کے لیے لمحۂ فکریہ سے کم نہیں :
’’بُرا ہو تاریخ کا ۔ اس نے اپنے حافظہ سے ایسی ایسی جاں باز ، حق گو، بہادر اور جامعِ کمالات شخصیتوں کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا، جنھوں نے اپنے دور میں وقت کے تیز وتند طوفانوں سے بے خوف ٹکّر لی اور پیٹھ نہیں دکھائی۔ مولانا فضل حق رحمۃ اللہ علیہ تاریخ کے ان جواں مرد اور نڈر مجاہدین میں سے تھے جن کی جرات و ہمت اور حق گوئی و بے باکی نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا، مگر تاریخ کے صفحات میں ان کو شایانِ شان کیا، کوئی معمولی جگہ بھی نہیں مل سکی‘‘…… ’’مولانا فضل حق خیرآبادی نے افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطانِ جائر کا فریضہ ادا کیا اور اپنی عمرِ عزیز انڈومان میں حبسِ دوام کی نذر کردی‘‘…… ’’مولانا فضل حق خیرآبادی وغیرہ نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ دے کر مسلمانوں کو عدم تعاون پر آمادہ کیا‘……’ ’ مولانا فضل حق خیرآبادی بھی ’’باغی‘‘ قرار دیے گئے۔ سلطنتِ مغلیہ کی وفاداری ، فتواے جہاد کی پاداش یا جرمِ بغاوت میں مولانا ماخوذ کر کے سیتا پور سے لکھنؤ لائے گئے۔‘‘
(مضمون:’’مولانا فضل حق خیرآبادی‘‘ از: مستقیم احسنؔ حامدی فاضل دارالعلوم دیوبند ، ہفت روزہ خدام الدین ، لاہور ۲۳؍ نومبر ۱۹۶۲ء ، ص ۹/۱۰)
اب آئیے علامہ فضل حق خیرآبادی کی جواں مردی اور استقامت کا حال مولانا حسین احمد مدنی کی زبانی سنیے :
علامہ فضل حق خیرآبادی اپنے فتواے جہاد پر مفتخر ہیں اور اس الزام سے براء ت کے بجاے اس کی پاداش میں ہر سزا بھگتنے کے لیے ہمہ تن تیار :
’’مولانا نے اپنے اوپر جس قدر الزام تھے ، ایک ایک کرکے سب رد کر دیے ، جس مخبر نے فتویٰ کی خبر کی تھی۔ اس کے بیان کی تصدیق و توثیق کی ۔ فرمایا :
’ پہلے اس گواہ نے سچ کہا تھا اور رپورٹ بالکل صحیح لکھوئی تھی۔ اب عدالت میں میری صورت دیکھ کر مرعوب ہوگیا اور جھوٹ بولا۔ وہ فتویٰ صحیح ہے۔ میرا لکھا ہوا ہے اور آج اس وقت بھی میری وہی راے ہے۔‘……جج بار بار علامہ کو روکتا تھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ مخبر نے عدالت کا رُخ اور علامہ کی بارعب و پُروقار شکل دیکھ کر شناخت کرنے سے گریزکرتے ہوئے کہہ ہی دیا تھا کہ یہ مولانا فضل حق نہیں وہ دوسرے تھے۔ گواہ حسنِ صورت اور پاکیزگیِ سیرت سے بے انتہا متاثر ہوچکاتھا مگر علامہ کی شانِ استقلال کے قربان جائیے۔ خدا کاشیر گرج کر کہتا ہے: ’وہ فتویٰ صحیح ہے میرا لکھا ہو ہے، اور آج اس وقت بھی میری وہی راے ہے۔‘ ؎
نالہ از بہرِ رہائی نہ کند مرغِ اسیر
خورد افسوس زمانے کہ گرفتار نہ بود
شیرِ میسور ٹیپو سلطان کے رزم گاہِ شہادت کا یہ فقرہ کبھی نہیں بھلایا جاسکتا ۔’شیر کی ایک روزہ زندگی گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘
علامہ کے اقرار و توثیق کے بعد گنجایش ہی کیا رہ گئی تھی ؟ بے حد رنج کے ساتھ عدالت نے حبسِ دوام بہ عبور دریاے شور کا حکم سنایا ۔ آپ نے کمالِ مسرت اور خندہ پیشانی سے سنا۔‘‘
علاوہ ازیں مولانا حسین احمد مدنی اپنی دوسری کتاب ’’تحریکِ ریشمی رومال‘‘ میں پھر شیرِ حق کی شانِ استقلال پر قربان ہورہے ہیں …موصوف راقم ہیں :
’’مولانا فضل حق صاحب خیرآبادی کو جو کہ تحریک کے بہت بڑے رکن تھے اور بریلی، علی گڑھ اور اس کے ملحقہ اضلاع کے دورانِ تحریک میں گورنر تھے، آخر ان کو گھر سے گرفتار کیا گیا۔ جس مخبر نے ان کو گرفتار کرایاتھا اس نے انکار کردیا کہ مجھے معلوم نہیں ، فتویِٰ جہاد پر جس نے دستخط کیے ہیں وہ یہ فضل حق ہیں یا کوئی اور ہیں؟……مولانا نے فرمایا:’ مخبر نے پہلے جو رپورٹ لکھوائی تھی وہ بالکل صحیح تھی کہ فتویٰ میرا ہے۔ اب میری شکل و صورت سے مرعوب ہوکر یہ جھوٹ بول رہا ہے۔‘
قربان جائیے علامہ کی شانِ استقلال پر؛ خدا کا شیر گرج کر کہہ رہا ہے کہ میرا اب بھی وہی فیصلہ ہے کہ انگریز غاصب ہے اور اس کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے ۔خدا کے بندے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں ۔ وہ جان کی پروا کیے بغیر سر بہ کف ہوکر میدان میں نکلتے ہیں اور لومڑی کی طرح ہیر پھیر کرکے جان نہیں بچاتے بل کہ شیروں کی طرح جان دینے کو فخر سمجھتے ہیں۔‘‘
(حسین احمد مدنی: تحریکِ ریشمی رومال ، مطبوعہ کلاسیک ،لاہور، ۱۹۶۰ئ، ص ۶۴/۶۵)
’’عدالت دو ججوں پر مشتمل تھی۔ جارج کیمبل جوڈیشل کمشنر ، اور میجر بارن قائم مقام کمشنر خیرآباد ڈویژن ۔ اس مشترکہ عدالت نے ۴؍ مارچ ۱۸۵۹ء کو اپنے فیصلے میں لکھا۔
بہ ہرحال! عدالت کی نظر میں ثابت ہے کہ اس موقع پر ملزم نے بلا ضرورت مستعدی دکھاتے ہوئے صراحت سے ایسا فتویٰ دیا جس کا مقصد قتل کی ترغیب دینا تھا۔ اس نے قرآن کی آیات پڑھیں اور ان کے من مانی معنی کیے اور اصرار کیا کہ انگریزوں کے ملازم کا فر و مرتد ہیں اس لیے شریعت کے نزدیک ان کی سزا قتل ہے۔ بل کہ اس نے باغی سردار سے یہاں تک کہا کہ تم انہیں قتل نہیںکرتے تو تم خدا کی نظر میں مجرم ہو۔‘‘
(ماہ نامہ ’’تحریک‘‘ دہلی، جون ۱۹۶۰ء ،بہ حوالہ غالب نام آورم از : نادم سیتاپوری،سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور، ۱۹۷۰ئ، ص ۱۱۷/۱۱۸، )
جنگِ آزادی کے معروف مورخ رئیس احمد جعفری لکھتے ہیں :
’’ مذکورہ سطور میں ہم نے غدر کے جن ہیرووں کا ذکر کیا ہے ان میں سے صرف بخت خاں اور مولانا فضل حق خیرآبادی دو ایسی شخصیتیں ہیں جنہوں نے دہلی کے محارباتِ غدر میں مرکز نشیں ہو کر حصہ لیا…
بخت خاں اور مولانا فضل حق کے احوال و سوانح ، واقعات و حوادث کارناموں اور سرگرمیوں کی تفاصیل معلوم کرنا آسان نہ تھا… غدر کے بعد غدر کا ذکر بھی کتنا روح فرسا تھا اور ان شخصیتوں کا تذکرہ جنہوں نے اس انقلابی تحریک میں مردانہ وار حصہ لیا تھا۔ اپنی جان سے ہاتھ دھونا تھا…ان اکابر کا اوّل تو مرتب اور منضبط صورت میں کہیں ذکر نہیں ملتا اور اگر کہیں ملتا بھی ہے تو مخالفانہ اور معاندانہ انداز میں … ان مشکلات کے باوجود زیادہ سے زیادہ معتبر اور مستند مواد حاصل کرنے کی اپنے مقدور بھر ہم نے کوشش کی ہے۔‘‘
(رئیس احمد جعفری ، مورخ: بہادر شاہ ظفر اور ن کا عہد ، کتاب منزل ، لاہور،۱۹۵۶ئ، ص ۳۱۵)
خونِ دل کو صَرفِ گلشن کر مگر یہ سوچ کر
تیرے سر الزامِ تحریکِ خزاں بھی آئے گا
مولانا حسین احمد مدنی مولانا فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے تلامذہ اور ساتھیوں کے جہادِ حریت میں بڑے پیمانے پر حصہ لینے کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مولانا خیرآبادی نے جنگِ آزادی میں ہر طرح حصہ لیا، کیوں کہ و ہ اخلاص کیساتھ یقین رکھتے تھے کہ انگریزوں کی غلامی ہماری تہذیبی و ملّی زندگی کے لیے زہرِ قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے انھوں نے مقدور بھر اضطراب کا اظہار کیا اور انگریزوں کو زک پہنچانے کے لیے مختلف عملی اقدام کیے ۔جہادِ حریت کے لیے نہ صرف فتاوے صادر کیے بل کہ انگریزی کورٹ میں اُس پر ثابت قدمی کے ساتھ جمے رہے اور خندہ پیشانی سے سزاے کالا پانی کو قبول کیا۔ یہاں تک کہ جزائرِ انڈومان ہی میں بہ حالتِ اسیری وفات پائی۔پیشِ نظر مقالے میں درج کیے گئے جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے مستند اور نامور مؤرخین کے اقتباسات اور حوالوں سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کا فتواے جہاد علامہ فضل حق خیرآبادی ہی کا رہینِ منت تھا ۔ علامہ کی ذات نے جنگِ آزادی میں نئی روح پھونکی ۔جس کی وجہ سے پورے میں ملک میں انگریزوں کے خلاف ایک مضبوط مخالفانہ روش قائم ہوئی ۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلی جنگِ آزادی جسے انگریز غدر کا نام دیتے ہیں ۔ بعض وجوہ کے سبب ناکامی کا شکار ہوگئی ۔ لیکن اس یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی ہے کہ یہی وہ اولین تحریکِ آزادی ہے جس نے مکمل طور پر وطنِ عزیز کی آزادی کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کی اس تحریک میںمولانا خیرآبادی کے شانہ بہ شانہ مسلمان علما میں سے مولانا احمد اللہ شاہ صاحب دلاور جنگ مدراسی ، مولوی امام بخش صہبائیؔ، مفتی صدرالدین آزردہؔ صدر الصدور، قاضی فیض اللہ دہلوی، مولانا فیض احمد بدایونی، مولوی عبدالقادر صاحب، مولوی وزیر خاں اکبرآبادی، سید مبارک شاہ رام پوری، مفتی عنایت احمد کاکوروی اور ان حضرات کے تلامذہ وغیرہ نے بڑے پیمانہ پر حصہ لیا۔جہاں علامہ فضل حق خیرآبادی کا تذکرۂ خیر ہوگا وہاں ان حریت پسند مجاہدین کی مخلصانہ اور مجاہدانہ سرگرمیوں کا ذکر بھی ضمناً کیا جانا ضروری ہے۔ ’’خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را‘‘
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.