You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اچھے نام رکھنا، اچھے نام سے پُکارنا سنتِ الٰہیہ ہے
ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے وارث عطاء فرمائے۔ یعنی اولاد جو نیک و صالح ہو اور اس سے خاندان کی شان بلند ہو اور اس کے لئے شادی ہونے کے فوراً بعد اللہ کے حضور دعائیں مانگی جانے لگتی ہیں اور جیسا کہ قرآن مجیدمیں ارشاد ہوا ہے کہ پیغمبروں نے جس طرح اللہ سے اولاد جیسی نعمت الٰہی کے حصول کے لئے اپنا دست سوال اُٹھایا ہے اسی طرح اے مسلمانوں : تم بھی میرے آگے اپنا دست سوال اُٹھائو میں تمہاری جھولی اس نعمت سے بھر دوں گا۔
قرآن پاک میں اولاد کی دعاء کیلئے کئی جگہ ذکر موجود ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاء رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْن (سورت نمبر 19آیت نمبر 99) الٰہی مجھ کو لائق اولاد دے ۔ ربِ کریم نے ارشاد فرمایا۔ فَبَشَّرْنٰہُ بِِغُلٰمٍِ حَلِیْم تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایک عقلمند لڑکے کی (سورت نمبر 19آیت نمبر100) حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ سے دعاء کی ھُنَا لِکَ دُعَا زَکَرِیَّا رَبَّہُ ج قَا لَ رَبِّ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّ یَّۃً طَیِِّبَۃً ج اِنَّکَ لَسَمِیْعُ الدُّعَا اے میرے رب مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطاء فرما بے شک تو دعاء کا سننے والا ہے (سورت نمبر 13آیت نمبر38) دوسری جگہ قرآن میںدعائے زکریا علیہ السلام) سورہ مریم 19 آیت نمبر (4-5 (ترجمہ:اللہ ہمیں وارث عطاء فرما جو میرا کام اٹھا لے میرا بھی وارث ہو اور اولاد یعقوب کے خاندان کا بھی جانشین ہو اور اے میرے رب تو اسے مقبول بندہ بنا لے) معلوم ہوا کہ بیٹے کی دعاء کرنا سنت ِ انبیاء ہے مگر نفس کے لئے نہیں بلکہ رب کیلئے کہ وہ دیندار ہو اللہ کا نیک بندہ ہو نیک اور صالح ہو تاکہ ہمیں قبر میں اس کی نیکیوں سے آرام پہنچے۔ لہٰذا اللہ نے خوشخبری سنائی یٰزَکَرِیّا اِنَّا نُبَشِّرُ کَ بِغُلٰمٍِ نِ سْمُہ‘ یَحّیٰ لَمْ نَجْعَلْ لّٰہُ مِنْ قَبْلُ سَمِیّاً ۔ اے زکریا ! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے، ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا )سورہ نمبر 19 آیت نمبر6 ( اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دعاء قبول فرمائی بلکہ اس کا نام بھی تجویز فرمادیا۔
اولاد خواہ لڑکا ہو یا لڑکی یہ اللہ کی رحمت و نعمت ہے اسلام سے پہلے عرب میں لڑکی کی پیدائش کو بہت خراب مانا جاتا تھا اور اس کو اکثر زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ آج بھی ترقی کا دور کہلانے کے با وجود ہندوستانی معاشرے میں لڑکی کی پیدائش پر اظہار افسوس کیا جاتا ہے ۔ مذہب اسلام نے اسکو سختی سے منع کیا اور نا پسند کیا ہے۔
اچھے نام رکھنے اور برے ناموں سے بچنے کی فضیلت
اللہ پاک جو اپنے نام سے ہی یکتا اور بے مثل ہے جس نے نہ صرف اس کائنات رنگ و بو کو پیدا فرمایا بلکہ اس کائنات کو حسن و خوبصورتی کے سب سے اعلیٰ نمونہ انسان کو تخلیق (پیدا) فرمایا اور پھر اسے سب سے پہلے خوبصورت نام آدم سے نوازا اور اس طرح کائنات ارضی کے ہر ذرے کی ابتدا نام سے ہوئی۔ انسانی فطرت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر چیز میں حسن و جمال کو پیش نظر رکھا جائے اس لئے اللہ پاک نے انسان کو بہترین ساخت اور عمدہ شامہ عطاء فرمایا۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَا نَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْم ’’ ہم نے انسان کو عمدہ ساخت میں پیدا کیا ‘‘ لہٰذا والدین کا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی نگہداشت اور پرورش اچھے انداز میں کریں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں کے نام بھی اچھے رکھیں۔ اچھے نام اچھی علامت کا مظہر ہوتے ہیں اور اچھے نام اللہ عزو جل کو پسندیدہ ہے۔ ہمارے آقا ﷺ نے اچھے نام رکھنے اور بُرے ناموں سے گریز کی بار بار تلقین فرمائی ہے اوریہی بات اسلامی تعلیمات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ کو دو نام بہت پسند ہیں اور وہ دو نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں اس لئے یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ نام خوبصورت با معنی اور ہر لحاظ سے جامع ہو اور پکارتے وقت پورا نام پُکارا جائے۔ اسلئے کہ نام ہی وہ پہچان ہے جو ایک کو دوسرے انسان سے علاحدہ پہچان دیتا ہے اور اسکو ایک دوسرے پر فضیلت عطا کرتا ہے۔ اور انسان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پہلے ناموں ہی کی تعلیم دی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ( سورۃ 2 آیت نمبر 30-33)
اچھے ناموں کے اثرات سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
ارشادِ ربّانی ہے : ’’ کہہ دو کہ تم (اللہ تعالیٰ کو) اللہ تعالیٰ (کے نام سے) پکارو یا رحمان (کے نام سے) پکارو سب اسکے اچھے نام ہیں (سورۃ نمبر 17 آیت نمبر109) اس سے یہ بات ظاہر و معلوم ہوتی ہے کہ ربِ کریم ہمیں اچھے ناموں کی تلقین فرمارہا ہے۔ اچھے نام رکھے جائیں اچھے نام سے پکارنا یہ سنتِ الٰہیہ ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی دُعا اولاد کے لئے قرآن میں ذکرموجود ہے، اللہ نے نہ صرف اولاد کی دعا قبول فرمائی (اولاد عطاء فرمایا) بلکہ اس کا نام بھی تجویزفرمایا۔ اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحیٰ ہے اسکے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا ’’ سورۃ مریم 19آیت نمبر 6‘‘
حضرت یحیٰ علیہ السلام کی بہت سی فضیلتیں قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے خود نام رکھا والدین کے سپرد نہ کیا۔ یہ آپ کی خصوصیت ہے۔ یہ نام کسی اور کو نہ پہلے ملا نہ بعد میں یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ نام کسی دوسرے آدمی کا نہ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے زکریا علیہ السلام کو خوشخبری سنائی اور انکا نام یحیٰ رکھدیا۔ خیال رہے کہ ہمارے بچوں کا نام ان کے ماں باپ رکھتے ہیں وہ بھی پیدائش کے ساتویں دن بعدمگر ہمارے آقا ﷺ کا نام اور حضرت یحیٰ علیہ السلام کا نام پاک خود ربِ تعالیٰ نے رکھا۔ وہ بھی ولادت سے پہلے۔ نیز ہمارے بچوں کے نام بھی نام کے خلاف بھی ہوتے ہیں۔ تمام نام صحیح نہیں ہوتے، غلط بھی ہوتے ہیں۔کالے آدمی کا نام یوسف خان، بزدل کا نام شیر بہادر، محمد فاضل صدیقی، بہرے کانام سمیع اللہ انصاری، اندھے کا نام نور اللہ خان رکھ دیا جاتا ہے۔مگر رب تعالیٰ کے رکھے ہوئے نام بالکل صحیح اور نام کے مطابق کام بھی ہوتے ہیں۔دیکھئے رب نے حضور ﷺ کا نام محمد رکھا یعنی بہت سراہا ہوا، تعریف کیا ہوا، آج بھی اس نام کی بہار دیکھی جا رہی ہے کہ ہر جگہ ہر وقت ہر زبان میں حضور ﷺ کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ اسی طرح سے رب تعالیٰ نے حضرت یحیٰ کا نام رکھا یعنی زندگی بخشنے والے یا زندہ جاوید رہنے والے یہ نام ان پر بہت سجا اب تک وہ زندہ ہیں اور تا قیامت زندگی بخشیں گے۔ چنانچہ حضرت یحیٰ علیہ السلام بے مثال تارک الدنیا اور عابد و زا ھد ہوئے تھے۔ نبیوں کے نام اللہ تعالیٰ نے رکھا اور ان کے نام و کام کا کفیل ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے ہمارے حضور کے بارے میں فرمایا تھا۔ اِسْمُہ‘ اَحْمَد ان کا اسم شریف احمد ہے اور یحیٰ علیہ السلام ان رسولوں میں سے ہیں جنہیں بچپن ہی سے نبوت ملی۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نام رکھنے کی برکت سے ہوا۔
اچھے ناموں کے اثرات
آجکل عام مزاج بنتا جا رہا ہے کہ بچوں کے ناموں میں جدت ہو، ایسا نام رکھا جائے کہ کسی اور کا نہ ہو، خواہ اس کا مفہوم و معنیٰ کچھ بھی نکلتا ہو، حالانکہ پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ سمو ابا سماء الأ نبیاء ‘‘ (ابو دائود) انبیاء علیہ السلام کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھو، اسی لئے حضور اکرم ﷺ نے اپنے آخری صاحبزادے کا نام ابراہیم رکھا تھا جو حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے تھے۔ ایک حدیث پاک میں حضور ﷺ کا پاک ارشاد ہے ’’ تدعون یو ا لقیٰمۃ با اسماء کم و اسماء آباء کم فا حسنوا اسماء کم ‘‘(مسند احمد) قیامت کے دن تمہیں اپنے آباء کے نام سے پکارا جائے گا، لہٰذا تم اچھے نام رکھا کرو، رب تعالیٰ نے حضرت یحیٰ علیہ السلام اور ہمارے آقا ﷺ کا نام رکھا اس نام کا پہلے کوئی نہ تھا (یحیٰ ۔ احمد) اللہ کے رسول محسنِ کائنات ﷺ نے بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے بعد آپ کے کان میں آذان دی منھ میں لعابِ دہن ڈالا اور آپ کے لئے دعاء فرمائی۔ پھر ساتویں دن آپ کا نام حسین رکھا اور عقیقہ کیا۔ حضرت امام حسین کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب ’’ سبط رسول ‘‘ و ریحانئہ رسول ہے۔ حدیث پاک میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبّر اور شبیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا نام انہیں کے نام پر حسن اور حسین رکھا (صواعق محرقہ، صفحہ 118) سر یانی زبان میں شبّر اور شبیر اور عربی زبان میں حسن اورحسین دونوں کے معنیٰ ایک ہیں۔ ابن الاعرابی مضفل سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں نام مخفی (پوشیدہ) رکھے یہاںتک کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے نواسوں کا نام حسن اور حسین رکھا۔ ( اسرف المئو ید صفحہ 70)
احادیث میں اچھے نام جس سے عبدیت کا اظہار ہو اسے اچھا قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ عبداللہ اور عبد الرحمٰن اللہ کے نزدیک و رسول اللہ ﷺ کے نزدیک پسندیدہ نام ہیں، (مسلم شریف)
والدین پر اولاد کے حقوق بہت ہیں ۔ اچھا نام رکھنا یہ بھی حقوقِ اولاد میں سے ہے۔ جب بچہ پیدا ہو فوراً داہنے کان میں آذان اور بائیں کان میںاقامت کہے کہ ظل شیطان و اُم الصبیان سے بچے گا۔ ہر بچہ کا نام رکھے۔ حدیث پاک میں ہے کہ کچے بچے (جوکم دنوں میں گر جائے) اسکا بھی نام رکھے نام نہ رکھنے پر وہ بچہ اللہ عزوجل کے یہاں شاکی (شکایت) ہوگا۔ بُرا نام نہ رکھے کہ فالِ بد ہے۔ عبداللہ، عبدالرحمٰن، احمد وغیرہ نام رکھے۔ انبیاء کرام یا اپنے بزرگوں میں جو نیک گذرے ہوں ان کے نام پر رکھے کہ باعث برکت ہے۔ خصوصاً وہ نام جو حضور پاک ﷺ کے پاک نام ہیں ۔ اس مبارک نام کی بے پایاں برکت بچہ کی دنیا و اخرت میں کام آتی ہے۔
بُرے ناموں کو اچھے ناموں سے بدلنا
حضور ﷺ اچھے نام رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ بلکہ نام میں اگر معنوں میں اچھائی نہ ہو یا اسمیں شبہہ ہو تو اسے بدل دیا کرتے تھے۔حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کا نام ’’ برۃ ‘‘ تھا جس کے معنی نیکوکار ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان کا نام اسلئے تبدیل فرما دیا کہ اس میں اپنی تعریف کا پہلو نکلتا ہے۔ اسکی وجہ سے نفس کہیں دھوکہ نہ دے دے ، لہٰذا آپ کا نام زینب رکھا۔ اسی طرح ایک صحابی کا نام ’’ حزن ‘‘ تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان کا نام اسلئے بدل دیا کہ اس کے معنیٰ سخت زمین کے ہوتے ہیں’’ سہیل ‘‘ نام رکھ دیا۔ جس کے معنیٰ نرم ہونے کے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ اچھے نا م سن کر خوش ہوتے تھے اور اسکے اثرات کے متمنی ہوتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر معاملہ الجھا ہوا تھا، قریش کی جانب سے ثالثی کے لئے سہیل آئے تو حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کون ہیں۔ بتایا گیا کہ سہیل ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے ہمارے معاملہ کو آسان کر دیا اور پھر انہیں کے ذریعہ صلح حدیبیہ کا تاریخ سازمعاھدہ وجود میں آیا جس کو رب تعالیٰ نے فتح مبین سے تعبیر کیا۔
حضور اکرم ﷺ نے اکثر و بیشتر صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ‘ کے نام تبدیل فرمائے ہیں تاکہ نئے نام اور اسلام لانے سے ان کے کردار میں ناموں کے معانی کے لحاظ سے تبدیلی اور برکت شامل ہو جائے اور وہ سر تاپا اسلامی رنگ میں ڈھل جائیں اور نیکی کا مرقع بن جائیں۔ سیرت کی کتابوں میں بہت سے واقعات موجود ہیں ۔ چند ملا حظہ فرمائیں ایک صحابی رضی اللہ عنہ‘ کا نام اسود (کالا، گرد آلود، تاریک) سے بدل کر ابیض (سفید) رکھ دیا۔ اسطرح ایک صحابی کا نام الجبار (جبر و ظلم کرنے والا) سے بدل کر عبد الجبار (جبار کا بندہ) رکھ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ‘ کا نام عبد الکعبہ (کعبہ کا بندہ ) سے تبدیل کر کے عبداللہ (اللہ کا بندہ) رکھ دیا۔ مشہور صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام عبد الشمس سے بدل کر عبد الرحمٰن رکھ دیا۔اسطرح آپ ﷺ نے عاصی، عتلہ، حکم، غراب، حباب کے نام تبدیل فرمائے اور احرام کو زرعہ، عاصیہ کو جمیلہ اور برہ کو زینب سے بدل دیا۔ (سنن ابو دائود) حضرت عمر رضی اللہ عنہ‘ کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ تھا جسے آپ ﷺ نے بدل کر جمیلہ رکھدیا (ازعبداللہ بن عمر عن مسلم شریف)
یہ بات ذہن نشیں رہے کہ صحیح اور درست نام نہ رکھنے سے بچے کی شخصیت پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔ اسلئے نام ایسا رکھنا چاہئے کہ جب بچہ بڑا ہو تو اسے اپنے نام پر فخر محسوس ہو اور فخر اسی وقت محسوس ہوگا جب اسکا اچھا اسلامی نام رکھا جائے گا۔ اس ضمن میں ارشاد رسول کریم ﷺ ہے ’’ جس شخص کے تین بیٹے ہوں اور وہ ان میں سے کسی کا نام محمد نہ رکھے تو وہ بالیقین (ایمان عشق) کے تقاضے سے جاہل ہے ‘‘ (طبرانی شریف) اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن بدترین ناموں سے اس شخص کا نام ہوگا جس کو شہنشاہ کہتے ہونگے۔ اللہ کے نزدیک بہترین نام عبداللہ اور عبد الرحمٰن اور زیادہ اچھے نام حارث اور ہمام احمد، محمد۔ جبکہ بدترین نام حرب اورمرہ ہن ہونگے۔ (ابودائود شریف) حضرت شریح بن حانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد اپنی قوم کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے انکا نام دریافت کیا۔ انہوں نے جواب میں عرض کیا کہ میرا نام ابو الحکم ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا، ’’حکم خدا کے قبضہ و اختیار میں ہے۔ تم نے ابو الحکم کنیت کیوں مقرر کی ہے ‘‘ انہوںنے کیا کہ میری قوم میں جب بھی کسی معاملہ میں اختلاف ہوتا ہے تو فریقین میرے پاس فیصلے کے لئے آتے ہیں اور میں ان کے درمیان ایسا فیصلہ کر دیتا ہوں کہ وہ تمام راضی ہو جاتے ہیں اور میرے حکم کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ لوگوں کے درمیان فیصلہ اور حکم کرنا بہت اچھی بات ہے تمہارے کتنے بچے ہیں ‘‘ انہوں نے کہا کہ تین بیٹے، شریح، مسلم اور عبداللہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا بس آج سے تمہاری کنیت ابو شریح ہے ( عن ابن شریح ابن حانی ازنسائی) اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نام کی معنویت زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اچھی عرفیت اچھے نام سے کردار و شخصیت پر اچھا اثر پڑتا ہے اور برے نام بری عرفیت سے برا اثر ہوتا ہے۔ جیسا کہ ابوجہل کی عرفیت (جہالت کا باپ) اللہ کے رسول ﷺ نے عرفیت کا اعلان کیا۔ اسے ساری زندگی حلقہ بگوش اسلام ہونے سے دور رکھا۔ حضور ﷺ کی خدمت میں ایک صحابی تشریف لائے آپ ﷺ نے ان کا نام پوچھا تو بتایا گیا حزن یعنی پتھریلی زمین۔ آپ ﷺ نے یہ نام نا پسند فرمایا اور کہا کہ اپنا نام سہل یعنی نرم زمین رکھ لو۔ مگر انہوں نے نام تبدیل نہ کیا کہا کہ یہ میرے باپ نے رکھا تھا۔ان صحابی کے بقول ان کے خاندان میں سختی برابر قائم رہی۔ (یہ نام کا اثرہے) ( بخاری شریف)
حضور ﷺ نے مدینہ منورہ جسے یثرب کہتے تھے اس کے معنی میں جبر و زیادتی اور الزام کا مفہوم پایا جاتا ہے، اسلئے آپ ﷺ نے اسکا نام طابہ اور طیبہ رکھا۔آپ ﷺ نے تاکید کی یثرب کو طیبہ خوشگوار عمدہ کہا جائے۔ مدینہ کے معنیٰ شہر کے آئے ہیں۔ چونکہ یہ مدینتہ الرسول ﷺ ہے اس لئے اسکا نام ہی مدینہ پڑ گیا۔ اب اگر بغیر کسی اضافت مدینہ کہا جائے تو اس سے مراد مدینتہ الرسول ﷺ طیبہ ہی ہوگا۔ مدینہ میں بخار کی وبا (بیماری) عام تھی، بڑی شدت کا بخار ہوتا تھا۔ اکثر آنے والے اس میں مبتلا ہو جاتے تھے، نووارد اسکی زد میں آتے تو وہ جلد ہی وہاں سے رخصت ہونا چاہتے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے مدینہ کی مشقتیں (تکلیفیں) جھیلنے پر جنت کی بشارت سنائی، اور اس کا نام طیبہ رکھدیا تو نام بدلنے کی برکت سے مدینہ منورہ کی فضاء اللہ کے فضل و کرم سے خوشگوار ہو گئی، اللہ کے رسول ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ کالی کلوٹی عورت مدینہ منورہ سے نکل کر حجفہ جہاں یہودیوں کی آبادی تھی کی طرف چلی گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ وبا (بیماری جو ہوا کے خراب ہونے سے پھیلتی ہے یعنی( FLU ) تھی جو یہاں سے منتقل ہو گئی۔
اس لئے بہت سے علماء ،مفسرین ،شارحین نے یہ لکھا ہے کہ مدینہ منورہ کو اب یثرب کہنا صحیح نہیں ہے۔
نام رکھنے میں حد سے گذرنا غلو کرنا
اکثر یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ جب کسی کے یہاں بچہ یا بچی پیدا ہوتی ہے تو سب سے پہلے جس مرحلے میں والدین کا سابقہ پڑتا ہے وہ بچہ یا بچی کا نام رکھنا ہوتا ہے جس کی روشنی میں بچہ سب کے لئے قابل محبت، قابل توجہ اور پرکشش بن سکے۔ اور اسکے نام سے خاندان کی عزت و وقار بڑھے۔ خاندان بھر میں ہر فرد اپنی اپنی مرضی کا نام تجویزکرتا ہے جو نام تجویز (Choice) ہوتا اس کے معانیٰ پر غور نہیں کیا جاتا حالانکہ کسی بھی نام کے اثرات اس کے معانیٰ کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیںاور معنیٰ ہی شخصی کردار کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح اس کے نام سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچہ یا بچی کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے کس قوم سے تعلق رکھتا ہے اور یہ کہ اسکا نام شرعی اسلامی ہے یا نہیں اور یہ کہ یہ نام اس بچے کے لئے موزوں بھی ہے یا نہیں۔ اسی لئے مذہب اسلام نے معانیٰ کے اعتبار سے اچھا نام رکھنے کا حکم دیا تاکہ بچے کی زندگی کی شروعات کی پہلی اینٹ درست طور پر رکھی جائے۔ نام رکھنے میں غلو کی حد تک یکساں اوزان کا خیال رکھا جاتا ہے یعنی سارے بچوںاور بچیوں کا نام ہم وزن ہو، حالانکہ ناموں کے سلسلے میں یہ التزام غیر ضروری ہے۔کبھی کبھی اسکی پابندی بھونڈی معنویت پیدا کر دیتی ہے۔ ایک صاحب کے چند لڑکے ہیں ایک کا نام شمیم ہے، دوسرے کا نام تسلیم ہے تیسرے کا نام کریم ہے چوتھا بچہ پیدا ہواتو انہیں یہ سودا خبط سمایا کہ اس بچے کا نام قرآن پاک سے اسی وزن پر رکھیں گے۔چنانچہ تلاش بسیار کے بعد انہیں سورہ القلم میں زنیم لفظ مل گیا۔ انہوں نے بغیر معنیٰ پر غور کئے ہوئے ہم وزن نام زنیم رکھدیا۔ کچھ دنوں بعد ان کے یہاں ایک عالم ِدین مہمان ہوئے۔ انہوں نے میزبان کو اپنے لاڈلے بچے کو زنیم کہہ کر پکارتے ہوئے سنا۔ اس پر انہیں بڑا تعجب ہوا کہ باپ اپنے بیٹے کو خود زنیم کہہ رہاہے، تعجب کی بات ہے۔ لیکن تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس بچے کا نام ہی زنیم ہے۔ چنانچہ عالم صاحب نے دریافت کیا کہ ٓاخر آپ نے یہ نام کیوں رکھا ہے۔ انہوں نے بڑی مسرت کے ساتھ فرمایا کہ اصل میں میں نے اپنے اس بچے کے نام کے متعلق یہ سوچا کہ اپنے دیگر بچوں کے ناموں پر ہموزن ایک ہی طرح کا نام ہو اور تمنا یہ بھی تھی کہ وہ نام قرآن پاک سے ہو۔ بہت تلاش کے بعد یہ نام سورہ القلم میں مجھے مل گیا اور میں نے یہ نام رکھدیا۔ مہمان عالم نے کہا ابلیس، ابولہب اور فرعون بھی تو قرآن میں ہیں، کیا یہ نام کوئی رکھنا پسند کرے گا۔ بالاخیر جب قرآن میں اسکا معنیٰ دیکھا گیا تو زنیم کے معنیٰ حرام زادے کے ہیں۔ مہمان عالم نے کہا کہ کیا کوئی یہ سننا پسند بھی کر سکتا ہے۔ میزبان کو بڑی پشیمانی ہوئی اور اس بچے کا نام بدل دیا گیا۔ نثار اشرف نام رکھا گیا۔ آجکل نام رکھنے میں ہم سے غلطیاںہو رہی ہیں جس سے ہماری تہذیب متاثر ہو رہی ہے۔ اس سے ہمیں بچنا چاہئے۔
نام بگاڑنا گناہ ہے
بچوں کے حقوق میں سے یہ ہے کہ ان کا نام اچھا رکھا جائے اوراچھے نام کو بلاتے وقت بھی ملحوظ رکھا جائے۔ اسی طرح نام بگاڑنا بھی گناہ کی بات
ہے۔ قرآن پاک میں اسے بِئسَ لاِْسْمَ الْفُسُوْق کہا گیا ہے،لہٰذا کسی کے نام کو بگاڑ کر پکارنا نہیں چاہئے اس میں خود گھر والوں کی طرف سے کوتاہی ہوتی ہے، وہ پیار میں مُخفف (Short)
کرتے ہیں اور پھر وہی نام بن جاتاہے۔ اس سے پرہیز لازم ہے۔ حضور ﷺ نے ایک صحابی کا نام پوچھا صحابی نے کہا اصرم جس کے معنی کانٹے کے آتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تمہارا نام اصرم نہیں بلکہ زرعتہ ہوگا، جس کے معنیٰ کھیتی اور جود و سخا کے ہوتے ہیں۔ بعد میں وہ صحابی اس نام سے معروف ہوئے۔ لہٰذا ہمیں اچھے ناموں کا التزام کرنا چاہئے۔ مذہب اسلام یہ چاہتا ہے کہ اسکے ماننے والوں کی اولاد نیک اور مسلمان ہوں۔ بچوں کی پرورش بہتر طریقے سے کی جائے اور اولاد جو نعمتِ الٰہیہ ہے اسکی قدر کی جائے۔ تاکہ وہ بڑا ہو کر ملک و سماج اور خود والدین کیلئے نعمت ثابت ہو۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اولاد کی پرورش اور نام رکھنے میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے حکم اور خوشنودی کا خیال ہمیشہ دل میں جاگزیں فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اسلامی طرز زندگی گذارنے اورعمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین۔(09431332338)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.