You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
1912ء میں اسلامی معیشت کا ہمہ گیر منصوبہ اور منصوبہ ساز مفکر
-----------------------------------------
غلام مصطفی رضوی ،نوری مشن
=====================
بیسویں صدی کا ابتدائی دور مختلف تحریکات و نظریات کا دور تھا۔سیاسی سطح پر وجود میں آنے والی تحریک ترک موالات اور تحریک ہجرت نے ہندوستانی مسلمانوں کو معاشی واقتصادی طور پر کم زور کر کے رکھ دیا تھا ،اس سے پیش تر سلطنت مغلیہ کا زوال معمولی زخم نہ تھا۔ان حالات نے مسلمانوں کو ابتلا وآزمائش سے دوچار کر کے رکھ دیا۔
۱۹۱۲ء بمطابق ۱۳۳۱ھ میں ہندوستان کے ایک اسلامی مفکر نے مسلمانوں کی معاشی و اقتصادی قوت کو سنبھالا دینے کے لیے ہمہ گیر نظریات و منصوبے پیش کیے ۔ان سطور میں ان نظریات پر اجمالی گفتگو مقصود ہے،بہ شکل نکات ان کی جھلک کچھ اس طرح ہے:
(۱)ان امور کے علاوہ جن میں حکومت دخل انداز ہے مسلمان اپنے معاملات باہم فیصل کریں تا کہ مقدمہ بازی میں جو کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں پس انداز ہو سکیں۔
(۲)مسلمان اپنی قوم کے سوا کسی سے کچھ نہ خریدیں۔
(۳)بمبئی ،کلکتہ ،مدراس ،رنگون،حیدرآباد وغیرہ کے توانگر مسلمان اپنے بھائیوں کے لیے بینک کھولیں۔
(۴)علم دین کی ترویج واشاعت کریں ۔
ان کلمات دانش کے تجزیے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اُس عہد کے معاشی حالات پر کچھ روشنی ڈال لی جائے۔
معاشی و اقتصادی علوم کا مطالعہ پہلی جنگ عظیم کے بعد ۳۰-۱۹۲۹ء میں رونما ہونے والی عالمی کساد بازاری کے نتیجے میں اہمیت کا حامل بنا۔
اس لحاظ سے جدید اقتصادی نظریے کی ابتدا ۱۹۳۰ء میں ہوئی۔۱۹۳۶ء میں مغربی ماہر اقتصادیات جے۔ایم۔کینز (J.M.Keynes)نے ’’نظریۂ روزگار آمدنی‘‘(بچت=سرمایہ کاری)پیش کیا جس نے عالمی نظام معیشت پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے جس پر اسے برطانوی حکومت نے ’’لارڈ‘‘ کا خطاب عطا کیا ۔
اس رو سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۱۹۱۲ء میں ترقی یافتہ ممالک بھی علم معاشیات کی اہمیت کو واضح نہیں کر سکے تھے،شاید ان پر بھی اس علم کی افادیت نہیں کھل سکی تھی۔
جب کہ ایک اسلامی مفکر نے مسلمانوں کی فکروں کو مہمیز دیا تھا اور سرمائے کو پس انداز کرنے کی ترغیب دی تھی ،نیز اس دور میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد زمین دار تھی اور ان کی املاک کثیر،لہٰذا ان مسلم رؤسا وامرا میں باہمی انتشار کے نتیجے میں مقدمہ بازی کا رجحان زیادہ پایا جاتا تھا،اس طرح مسلمانوں کی املاک دو طرفہ مقدموں کی نذر ہو کر تباہ وبرباد ہو رہی تھی ۔اس اسلامی مفکر نے آپسی معاملات کو افہام وتفہیم سے حل کرنے کی فکر دے کر سرمائے کے تحفظ کی سمت رہ نمائی کی ۔اس نے آپسی تنازعات کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی ہے:’’اول پر یہ عمل ہے کہ گھر کے فیصلے میں اپنے دعوے سے کچھ بھی کمی ہو تومنظورنہیں اور کچہری جا کر اگرچہ گھر کی بھی جائے ٹھنڈے دل سے پسند ،گرہ گرہ بھر زمین پر طرفین سے دو دو ہزار بگڑجاتے ہیں ۔کیا آپ ان حالتوں کو بدل سکتے ہیں ؟‘‘
۱۹۳۰ء کے بعد جب مملکتوں نے اقتصادیات کی اہمیت وافادیت کو جان لیا تو سرمائے کی بچت پر زور دیا،اور پس انداز کے تین درجے متعین کیے:
(۱) اندرون ملک بچت کے ذریعے سرمایہ اکٹھا کرنا۔
(۲) دوسرے ترقی یافتہ ملکوں سے قرض لینا۔
(۳) کرنسی کی پیداوار بڑھانا۔
آخرالذکرطریقہ خطرناک ہے جس سے معاشی تباہی کا اندیشہ ہے اس لیے بہترطریقہ پس انداز یعنی سرمائے کی بچت ہے۔
افراط زر سے متعلق ایک مثال حال ہی میں سامنے آئی ۔وہ اس طرح کہ ہمارا ملک افراط زر کے مسئلے سے دوچار ہے جس کے سبب غریب متاثر ہو گا اور بنیادی ضروریات بھی۔حکومت ہند نے اس پر قابو پانے کو سال رواں ۲۰۰۸ء کی پالیسیوں میں اولین تر جیح دی ہے ۔
اسلامی مفکر کے نظریے پر ۱۹۱۲ء میں عمل در آمد کی کوئی صورت نکل آتی تو آج مسلمان معاشی ترقی میں بجائے پستی کے ترقی یافتہ ممالک سے دو دہائی آگے ہوتے اس طرح عالمی سطح پر کم زور اسلامی ممالک معاشی خوش حالی کے نتیجے میں نا قابل تسخیر قوت ثابت ہوتے ،بنیادی ضروریات سے فراغ کے بعد اپنی دفاعی قوت کو سنوارتے اور اس کے سہارے تباہی و بربادی سے بچ جاتے ۔
اس مفکر کا دوسرا نکتہ تھا:’’اپنی قوم کے سواکسی سے کچھ نہ خریدتے کہ گھر کا نفع گھر ہی میں رہتا ،اپنی حرفت و صنعت کو ترقی دیتے کہ کسی چیز میں کسی دوسری قوم کے محتاج نہ رہتے ۔
‘‘اسلام نے صنعت و تجارت کو حلال قرار دیا ہے نیز اس میں برکت بھی رکھی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کاہو‘‘(سورۃ النسآء : ۲۹)
آج جس طرح سے اسلام کے خلاف مغربی قوتیں سرگرم عمل ہیں اس سے مسلمان اضطراب کا شکار ہیں۔اور نوبت یہ آتی ہے کہ ان کی پیداوار (مغربی اشیا)کا بائیکاٹ کیا جائے ۔اگر مفکر اسلام کے ۱۹۱۲ء کے منصوبے پر عمل ہوجاتا اور مسلمان آپس میں خرید و فروخت کر رہے ہوتے تو اس طرح کے بائیکاٹ کی نوبت بھی نہ آتی جب کہ بائیکاٹ صرف زبانی ہی ہوتا ہے اور عمل صفر،مفکر اسلام نے ایک صدی پیش تر اسے محسوس کیا تھا اور کہا تھا:’’اول تو یہ بھی کہنے ہی کے الفاظ ہیں ،نہ اس پر اتفاق کریں گے نہ ہرگز اس کونباہیں گے اس عہد کو پہلے توڑنے والے جنٹل مین حضرات ہی ہوں گے جن کی گزر بغیر یورپین اشیا کے نہیں ۔
مفکر اسلام نے ۱۹۱۲ء میں مسلمانوں کو آپس میں تجارت اور لین دین کی ترغیب دی تھی ،۱۹۲۹ء کے بعد جب کہ جرمنی اور اٹلی معاشی لحاظ سے تباہ ہو چکے تھے یورپین منڈی کی تشکیل ہوئی جو اس طرزکی تھی کہ وہ آپس میں ہی سرمایہ کاری کرتے،خرید وفروخت کرتے اور تجارت کو فروغ دیتے اور اس طریقے سے بہت جلد وہ ایک اقتصادی قوت بن گئے جس سے ان کی کرنسی کاوزن و وقار بھی بڑھا۔
مفکر اسلام نے آپسی تجارت سے متعلق دو مثالیں دی تھیں:
’’(۱) اہل یورپ کو دیکھا ہے کہ دیسی مال اگرچہ ولایتی کی مثل اور اس سے ارزاں بھی ہو ہرگز نہ لیں گے اور ولایتی گراں خرید لیں گے۔
(۲) ہندو تجارت کے اصول جانتاہے کہ جتنا تھوڑا نفع رکھے اتنا ہی زیادہ ملتا ہے اور مسلمان صاحب چاہتے ہیں کہ سارا نفع ایک ہی خریدار سے وصول کر لیں ۔‘‘نصاریٰ اور مشرک تو اپنی تجارت کے فروغ کے لیے کوئی موقع فروگذاشت نہیں ہونے دیتے لیکن ہمارے اپنے لا پرواہی کا شکار ہو کر معاشی تنزلی کی راہ جا پڑے۔جب کہ اسلام نے حصول معاش اور تجارت کو بھی خیر کے زمرے میں رکھا اور ثواب کی بشارت دی ۔
مذکورہ نکتہ مسلمانوں کی صنعتوں اور فیکٹریوں کے قیام سے متعلق کس قدر اہمیت کا حامل ہے یہ بات مخفی نہیں ۔معاشی ترقیات نے دنیا کوعالمی منڈی میں تبدیل کرکے رکھ دیاہے ۔گلوب لائزیشن(Globalization) کا تصور اسی کی صراحت ووضاحت ہے لیکن اس ضمن میں مسلمانوں کی معاشی پیداوار کا تناسب کتنا ہے؟
یہ ایک المیہ ہے۔مفکر اسلام کے منصوبے پر اگر مسلمان کان دھر لیتے تو بر صغیر کی حالت مختلف ہوتی۔
اسلامی مفکرنے تیسرا نکتہ دیا :
’’بمبئی ،رنگون،مدراس ،حیدرآباد وغیرہ کے توانگر مسلمان اپنے بھائی مسلمانوں کے لیے بینک کھولتے ،سود شرع نے حرام قطعی فرمایا ہے مگر اور سو طریقے نفع لینے کے حلال فرمائے ہیں۔‘‘
یہ امر مخفی نہیں کہ موجودہ بینکنگ کے نظام کی بنیاد سود مرکب(Compound Interest System)پر ہے ۔
اقتصادی منصوبے کے لیے سرمایہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور سرمائے کے نظام کو چلانے کے لیے بینک کی حیثیت مرکزی ہے۔اسلامی مفکر نے بلا سودی بینکنگ کا تصور ۱۹۱۲ء میں دیا جب کہ ہندوستان میں چند بینک قائم تھے اور وہ بھی انگریزوں کے اور بینک کی اہمیت بھی کچھ ظاہر وواضح نہیں ہو سکی تھی ۔
اس مفکر نے کرنسی سے متعلق ایک کتاب بھی لکھی بہ نام’’کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم‘‘اس میں بلا سودی بینکنگ سسٹم پر بڑی جامع اور نتیجہ خیز تجاویز دی ہیں ،
یہ کتاب علماے حرمین مقدس کے ایک سوال کے جواب میں تصنیف فرمائی جو عربی اور اردو میں ہند وپاک کے علاوہ دارالعلمیہ بیروت سے بھی شائع ہو چکی ہے۔
حرام سے بچنے کی تعلیم قرآن مقدس نے دی ہے اور سود کو حرام قرار دیا ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے لوگو کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔
‘‘(سورۃ البقرۃ:۱۶۸/ترجمہ کنزالایمان)
ایک اور مقام پر قرآن مقدس میں ارشاد ہوتا ہے:
’’اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود۔‘‘
(سورۃالبقرۃ:۲۷۵/ترجمہ کنزالایمان)
مفکر اسلام نے ۱۹۱۲ء میں بلا سودی بینکنگ کا تصور دیا جب کہ ۱۹۴۰ء تک کوئی مسلم بینک قائم نہیں ہو سکا تھا ۔۱۹۱۲ء میں مسلمان بیدار ہو لیتے تو آج عالمی بینکنگ سسٹم پر مسلمانوں کا کنٹرول ہوتا ۔
یہ بات بھی لائق غور ہے کہ سرمائے کے تحفظ کے لیے اسراف سے بچنا ضروری ہے ۔موجودہ دور میں مسلمان کس حد تک اس میں مبتلا ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔مفکر اسلام نے اسراف کی شدت کے ساتھ مذمت کی ۔
آپ قبر پر چراغ واگربتی روشن کرنے سے متعلق تحریر فرماتے ہیں:’’اور قریب قبر سلگانا اگر وہاں نہ کچھ لوگ بیٹھے ہوں نہ کوئی تالی (تلاوت کرنے والا)یا ذاکر (ذکر کرنے والا)ہو بلکہ صرف قبر کے لیے جلا کر چلا آئے تو ظاہر منع ہے کہ اسراف واضاعت مال ہے۔‘‘
(واضح رہے کہ مزارات اولیا سے قریب خوشبو کے لیے اور زائرین کو سہولت فراہم کرنے کی غرض سے جلانا الگ بات ہے اور یہ اسراف کے درجے میں نہیں۔)
غرض کہ اس مفکر نے قوم کو بیدار کرنے کی انتھک کوشش کی ۔اس نے قوم کو ایمان کے لٹیروں سے باخبر کیا ،دشمنوں کی سازشوں سے متنبہ کیا ،اس نے ایک شعر میں بیداری کا فلسفہ بیان کر دیا ۔
؎
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو جاگتے رہیو چوروںکی رکھوالی ہے
اس کے افکار کا چوتھا نکتہ
’’علم دین کی ترویج و اشاعت ‘‘سے متعلق ہے ۔
وہ ایک ماہر تعلیم تھا،وہ ۷۰؍کے لگ بھگ علوم وفنون میں مہارت رکھتا تھا ،اس نے صالح اور سرگرم علما اور مدبرین کی ایک پوری ٹیم تیار کی جس نے قوم کی اسلامی تعلیم و تربیت کے لیے کارہاے نمایاں انجام دیے ،اس نے اسلامی نظام تعلیم کا احیا کیا جب کہ مغلیہ سلطنت کا زوال ہو چکا تھااور اسلامی مدارس مفلوک الحال ہو چکے تھے اور متحدہ ہندوستان میں یہود ونصاریٰ کے اشتراک سے جدید تعلیم کا ایسا نظام مرتب ہو چکا تھا جس میں دین سے دوری کا پیغام مضمر تھا،مغربی نظام تعلیم کومغربی تہذیب و تمدن کے فروغ کے لیے نافذکیا جا رہا تھا ۔اس نے علم و فن کے ہر شعبے میں رہ نمائی کی ،سائنس و فلسفہ،ریاضی و ہندسہ،تاریخ وجغرافیہ،معاشیات و اقتصادیات وغیرہ۔ہر علم وفن کو دین کی بنیادوں پر برتا ۔اس کی تعلیمی بصیرت اور نظریات پر یونیورسٹیوں اور کالجوں نیز جامعات میں تعلیم کی مناسبت سے ماسٹر درجہ (M.Ed.)کے ۱۶؍مقالے(Thesis)لکھے جا چکے ہیں۔
اس کی دینی خدمات کے دوسرے موضوعات پر عالمی سطح پر یونیورسٹیوں میں ۲۰؍سے زیادہ ڈاکٹریٹ(Ph.D.)کے مقالے اور درجن بھر ایم ۔فل (M.Fil.)کے مقالے لکھے جا چکے ہیں۔لیکن مرحلۂ شوق ہنوز طے ہوناباقی ہے اور مزید جلوے آشکار ہوا چاہتے ہیں۔
وہ علم و فن کا بحر بیکراں تھا ،وہ عرب میں بھی مقبول ومشہور تھا،علماے حرمین نے اسے قسم قسم کے القاب وآداب سے نوازا،
اسے ’’امام المحدثین‘‘کہا ،
’’مفسر شہیر‘‘کہا،
’’برکۃالزمان‘‘کہا،
اپنا پیشوا و مقتدا جانا۔
اس کی نگاہ اپنے زمانے سے آگے دیکھا کرتی تھی ۔
اس کی بصیرت کو داناے مشرق اقبالؔ نے بھی خراج عقیدت پیش کیا ۔
اس کی ریاضی میں مہارت کے جلوے دیکھ لینے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سر ضیاء الدین نے کہا کہ
’’یہ ہستی صحیح معنوں میں نوبل پرائز کی مستحق ہے۔‘‘
اس کی مطبوعات و تحریرات نے ایک انقلاب برپا کر دیا ۔
وہ سنتوں کا داعی تھا ،
وہ محافظ اسلام تھا،
مجاہد اسلام تھا،
پاسبان اسلام تھا
اور
مجدد اسلام تھا۔
اس کی تصانیف کی اشاعت سمتوں میں ہوتی تھی ،بریلی،پٹنہ،رام پور،آگرہ،سیتا پور،کلکتہ اور لاہورکے اشاعتی ادارے اس کی کتابیں بڑے چاؤ سے شائع کرتے تھے،
اس کا ہمہ گیر اقتصادی منصوبہ ’’تدبیر فلاح ونجات واصلاح‘‘کے نام سے شائع ہوااور افکار کے لیے مہمیزکا سبب بنا ،اس کو مصلح قوم و ملت مولانا لعل محمد خاں مدراسی (کلکتہ) کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا،اس پر آج بھی عمل کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ ایک صدی قبل تھی ۔
وہ سحبان الہند بھی ہے،حسان الہند بھی ہے،امام الہند بھی ہے اور شیخ الہند بھی ۔
اگر ہندوستان اس پر فخر کرے تو بجاہے،وہ فخر اسلام بھی ہے۔اس نے مسلمانوں کے وقار کو بلند کیا۔وہ مرد مومن تھا اور ایسا کہ بقول اقبالؔ ؎
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
وہ محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں سرشار تھا اور اسی محبت کو اس نے عام کیا۔
اس نسبت سے اس کا نام’’محمد‘‘تھا،
تاریخی نام’’المختار‘‘تھا
لیکن وہ خود کو ’’عبدالمصطفیٰ‘‘لکھتااورکہا کرتا تھا۔
اور دنیا اسے اعلیٰ حضرت امام احمد رضامحدث بریلوی رحمۃاللہ علیہ کے نام سے جانتی مانتی اور پہچانتی ہے۔
مفکر اسلام امام احمد رضا محدث بریلوی کی ولادت۱۰؍شوال ۱۲۷۲ھ /۱۸۵۶ء کو ہوئی اور وصال ۲۵؍صفر ۱۳۴۰ھ/ ۱۹۲۱ء کو ۔آپ کی دینی و علمی خدمات اور افکار کی اشاعت عہد کی ضرورت ہے اور ایک علمی خدمت بھی۔
******
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.